Dure-Mansoor - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو ! مت حلال کرو اللہ کے شعائر کو، اور نہ شہر حرام کو اور نہ ھدی کو اور نہ پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کو اور نہ ان لوگوں کو جو بیت حرام کا قصد کر کے جا رہے ہوں ! وہ اپنے رب کا فضل اور رضا مندی تلاش کرتے ہیں اور جب تم حلال ہوجاؤ تو شکار کرلو اور ہرگز کسی قوم کی دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو اور آپس میں نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر آپس میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
(1) ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور نحاس نے ناسخ میں ابن عباس ؓ نے لفظ آیت لا تحلوا شعائرا اللہ کے بارے میں فرمایا کہ مشرکین بیت حرام کا حج کرتے تھے، ہدی کے جانور لاتے تھے اور قابل احترام علامت کی تعظیم کرتے تھے۔ اپنے حجوں میں جانور ذبح کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ان پر لوٹ ڈالنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت لا تحلوا شعائر اللہ اور فرمایا لفظ آیت ولا الشھر الحرام یعنی تمہارے لئے اس میں لڑائی لڑنا حلال نہیں اور لفظ آیت ولا امین البیت الحرام یعنی جو بیت اللہ کی طرف رخ کرتا ہے اور مومن اور مشرکین اکٹھے حج کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ مومنین کو منع کیا کو وہ کسی کو بیت اللہ کے حج سے روکیں یا مومن یا کافر کے لئے رکاوٹ بنیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد نازل فرمایا لفظ آیت انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا اور فرمایا لفظ آیت یبتغون فضلا یعنی وہ اپنے حجوں سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں اور فرمایا لفظ آیت ولا یجر منکم یعنی تم کو آمادہ نہ کرے لفظ آیت شنان قوم یعنی قوم کی دشمنی لفظ آیت وتعاونوا علی البر والتقوٰی یعنی نیکی سے مراد ہے کہ جس کا حکم دیا گیا اور والتقوی سے مراد ہے جس سے روکا گیا۔ حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے (2) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں فرمایا لفظ آیت شعائر اللہ وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ تم اس کام کو کرو اس حال میں کہ تم محرم ہو اور پوچھا کہ جانور جنہوں نے پٹے نہیں پہنے ہوئے اور قلائد سے مراد ہے ہدی کے جانور پٹے ڈالے ہوئے۔ (3) ابن جریر نے ابن عباس ؓ نے لفظ آیت لا تحلوا شعائر اللہ کے بارے میں فرمایا کہ ان سے مناسک حج مراد ہے۔ (4) عبد بن حمید اور ابن منذر مجاہد (رح) سے نقل کیا کہ لفظ آیت لا تحلوا شعائر اللہ کے بارے میں فرمایا کہ ان سے مراد ہیں حج میں اللہ کی نشانیاں۔ (5) ابن جریر اور ابن منذر نے عطاء ؓ سے روایت کیا کہ ان سے شعائر الحج کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنا اور اس کی اطاعت کرنا یہ شعائر اللہ ہے۔ (6) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور نحاس نے ناسخ میں قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تحلوا شعائرا اللہ ولا الشھر الحرام ولا الھدی ولا القلائد ولا امین البیت الحرام کے بارے میں فرمایا کہ یہ منسوخ ہے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی جب حج کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلتا تھا تو اپنے گلے میں ببول کا چھلکا پہن لیتا تھا تو کوئی آدمی اس کو نہیں چھیڑتا تھا۔ اور جب بالوں کا پٹا پہن لیتے تھے تو اس کو کوئی نہیں چھیڑتا تھا۔ ان دنوں مشرک بیت اللہ سے نہیں روکے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا کہ مشرکین سے عزت والے مہینوں میں اور بیت اللہ کے پاس جنگ نہ کی جائے پھر (یہ حکم) اللہ تعالیٰ کے اس حکم لفظ آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھمک سے منسوخ ہوگیا۔ (7) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر، قتادہ ؓ نے ” امین بیت الحرام “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کو سورة برأۃ کی آیت لفظ آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھمنے منسوخ کردیا اور فرمایا لفظ آیت ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ شھدین علی انفسھم بالکفر اور فرمایا لفظ آیت انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذایہ وہ سال تھا جس میں ابوبکر ؓ نے حج کیا اور اس میں برأت کا اعلان بھی کیا۔ (8) ابن منذر نے مجاہد ؓ سے نقل کیا کہ لفظ آیت لا تحلوا شعائرا اللہ (کے حکم کو) اس آیت لفظ آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھمنے منسوخ کردیا۔ عبد بن حمید سے اسی طرح روایت کیا۔ قربانی کے جانوروں کا احترام (9) ابن جریر نے عطاء (رح) سے نقل کیا کہ وہ حرم کی درخت کی چھال سے قلادہ بنا کر گلے میں ڈال لیتے تھے اس کے ذریعہ وہ امن میں رہتے تھے جب وہ لوگ حرم سے نکلتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت لا تحلوا شعائر اللہ ولا الشھرالحرام ولا الھدی ولا القلائد (10) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے نقل کیا کہ لفظ آیت لا تحلوا شعائر اللہ سے مراد قلائد اور قلائد سے مراد وہ درخت کی چھال تھی جو لوگوں اور جانوروں کے گردنوں میں امن کے لئے ڈال لیتے تھے۔ اور صفا مروہ، ھدی کا جانور اور اونٹ یہ سب ان کے شعائر میں سے ہے۔ محمد ﷺ کے اصحاب ؓ نے فرمایا یہ سب جاہلیت والوں کے لوگوں کے کام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ سب کو حرام کردیا قلادہ کو چھوڑ دیا گیا (کہ ان کو حرام قرار نہیں دیا) (11) عبد بن حمید، عطاء (رح) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ جاہلیت والے بیری کے درخت کی چھال سے قلادہ بنا لیتے تھے اور اس کے ذریعہ لوگوں میں امن سے رہتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حرم کے درخت کی چھال لینے سے منع فرما دیا۔ (12) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے لفظ آیت ولا الشھرالحرام کے بارے میں فرمایا کہ وہ ذوالقعدہ کا مہینہ مراد ہے۔ (13) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) کی روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب حدیبیہ میں تھے۔ جب مشرکوں نے ان کو بیت اللہ سے روک دیا تھا۔ اور یہ بات ان پر بہت بھاری گزری ہو اہل مشرق میں سے کچھ مشرکین وہاں سے گزرے تو عمرہ کا ارادہ رکھتے تھے نبی ﷺ کے صحابہ ؓ نے کہا کہ ہم ان کو روکیں گے جیسے ہمارے ساتھیوں کو روک دیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ولا یجرمنکم شنان (الآیتہ) (14) ابن جریر نے سدی ؓ سے نقل کیا کہ حطم بن ھند بکری نبی ﷺ کے پاس آیا آپ نے اس کو (اسلام کی) دعوت دی اس نے کہا آپ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے اس کو بتایا اور نبی ﷺ اپنے اصحاب کو بتا چکے تھے کہ آج تم پر ایک ایسا آدمی ربیع قبیلہ میں سے داخل ہوگا جو شیطانوں کی ذبان سے بات کرے گا۔ جب نبی ﷺ نے اس کو (اسلام کے بارے میں) بتایا تو اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو شاید کہ میں اسلام لے آؤ میرے کچھ ایسے ساتھی ہیں جن سے میں مشورہ کروں گا۔ آپ کے پاس سے وہ باہر نکل گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ شخص کافر کے چہرہ کے ساتھ داخل ہوا اور دھوکہ بازی کی پیٹھ کے ساتھ جا رہا ہے۔ وہ مدینہ منورہ کی چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ کے پاس سے گزرا تو وہاں سے اونٹ بھگا کرلے گیا۔ پھر آئندہ سال حج کی نیت سے آیا اور ان جانوروں کو قلادے پہنائے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے (کچھ صحابہ کو) اس کی طرف بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ولا امین البیت الحرام تو آپ کے صحابہ ؓ میں سے کچھ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے اور اس کے درمیان راستہ چھوڑ دیں۔ کیونکہ وہ ہمارا مجرم ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس نے جانوروں کو قلادے پہنائے ہوئے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا وہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم جاہلیت میں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس کی اجازت نہ دی۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی صداقت (15) ابن جریر اور ابن منذررحمۃ اللہ علیہ نے عکرمہ ؓ سے نقل کیا کہ حطم بن ہند البکری ایک تجارتی قافلہ میں مدینہ آیا۔ اس کے پاس کھانا تھا۔ اس نے اس کو بیچا پھر نبی ﷺ کے پاس آیا اور بیعت کر کے مسلمان ہوگیا۔ جب پیٹھ پھیر کر باہر نکلا تو آپ نے اس کے طرف دیکھ کر فرمایا ان لوگوں کو جو آپ کے پاس تھے (یعنی صحابہ) مجھ پر بدکار چہرہ کے ساتھ داخل ہوا۔ اور دھوکہ بارگدی لے کر واپس جا رہا ہے۔ جب یمامہ آیا تو اسلام سے پھر گیا۔ اور وہ ایک دفعہ علم اٹھائے ہوئے ذی القعدہ کے مہینہ میں مکہ کے ارادے سے نکلا جب نبی ﷺ کے صحابہ ؓ نے سنا تو اس کی طرف جانے کی تیاری کی۔ مہاجرین اور انصار میں سے چند لوگوں نے تاکہ اس کے قافلہ پر حملہ کردیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تحلوا شعائر اللہ تو صحابہ جانے سے رک گئے۔ (16) ابن جریر نے ابن زید (رح) لفظ آیت ولا امین البیت الحرام کے بارے میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت فتح کے دن نازل ہوئی مشرکین میں سے کچھ ایک عمرہ کا تلبیہ پڑھتے ہوئے آئے۔ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ لوگ مشرک ہیں۔ ہم ان جیسے لوگوں پر ضرور حملہ کریں گے تو قرآن نازل ہوا لفظ آیت ولا امین البیت الحرام (17) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے لفظ آیت ولا امین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا یعنی وہ لوگ تجارت کو طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک پر حرام کردیا ہے۔ (18) عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے لفظ آیت یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا کے بارے میں نقل فرمایا کہ یہ مشرکین کے لئے ہے۔ وہ اللہ کا فضل اور رضا چاہتے ہیں۔ تاکہ اس کے ذریعہ ان کی دنیا درست ہوجاتی۔ (19) ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے نقل کیا کہ اللہ کی کتاب میں پانچ آیت بطور رخصت ہیں۔ ان میں قطعی حکم نہیں ہے۔ لفظ آیت واذا حللتم فاصطادوا اگر چاہو شکار کرو اگر چاہو شکار نہ کرو۔ اور لفظ آیت فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا (الجمعہ) اور لفظ آیت او علی سفر فعدۃ من ایام (البقرہ 184) اور لفظ آیت فکلوا منھا واطعموا (الحج، 28) (20) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ پانچ آیتیں اللہ کی کتاب میں سے بطور رخصت ہیں قطعی حکم نہیں رکھتی لفظ آیت فکلوا منھا واطعموا (الحج 28) جو شخص چاہے کھالے اور جو چاہے نہ کھائے اور لفظ آیت واذا حللتم فاصطادوا جو چاہے شکار کرلے جو چاہے شکار نہ کرے (اور) لفظ آیت ومن کان مریضا او علی سفر (البقرہ 84) جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے (اور) لفظ آیت فکاتبوھم ان علمتم (النور 43) اگر چاہے تو لکھ لے اگر چاہے نہ لکھے (اور) لفظ آیت فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا اگر چاہے تو چلا جائے اور اگر چاہے تو نہ جائے۔ (21) عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ لفظ آیت ولا یجرمنکم شنان قوم سے مراد ہے کہ تم کو کسی قوم کی دشمنی تم پر برانگیختہ نہ کرے۔ (22) عبد بن حمید نے ربیع بن انس (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ لفظ آیت ولا امین البیت الحرام سے وہ لوگ مراد ہیں جو حج کا ارادہ کرتے ہیں۔ لفظ آیت یبتغون فضلا من ربھمحج میں تجارت کرنا لفظ آیت ورضوانا یعنی حج لفظ آیت ولا یجرمنکم شنان قوم یعنی قوم کی دشمنی، لفظ آیت وتعاونوا علی البر والتقویبر سے مراد جس کا حکم کیا گیا اور تقوی سے مراد جس سے منع کیا گیا۔ (23) امام احمد اور عبد بن حمید نے اس آیت کے بارے میں اور بخاری نے تاریخ میں وابصہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے ارادہ کیا کہ میں نیکی اور گناہ جس سے ہر ایک چیز کے بارے میں آپ سے پوچھوں تو آپ نے فرمایا اے وابصہ ! میں تجھ کو بتلاؤں ان چیزوں کے بارے میں جن کے لئے تو آیا ہے۔ یا خود پوچھے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ کو بتایئے آپ نے فرمایا تو آیا ہے تاکہ تو نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرے پھر آپ نے اپنی تین انگلیوں کو جمع فرمایا اور ان کے ساتھ میرے سینے میں مارنے لگے اور آپ فرما رہے تھے اے وابصہ ! اپنے دل سے فتوی طلب کر اپنے دل سے فتوی طلب کر نیکی وہ ہے کہ اس کی طرف دل مطمئن ہوجائے اور اس کی طرف نفس بھی مطمئن ہوجائے اور میں تجھ کو فتوی دیتا ہوں (کہ اپنے دل سے فتوی لے) نیکی اور گناہ کی پہچان (24) ابن ابی شیبہ (رح) احمد اور بخاری (رح) نے ادب میں، امام مسلم (رح) نے اور امام ترمذی (رح) نے اور حاکم اور بیہقی (رح) نے شعب میں نواس بن سمعان ؓ سے روایت نقل ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا جو چیز تیرے دل میں کھٹکے اس کو چھوڑ دے پھر اس نے پوچھا ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جس شخص کو گناہ پریشان کرے اور نیکی اس کو خوش کر دے تو وہ مومن ہے۔ (25) عبد بن حمید نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت نقل کی کہ گناہ دلوں کو قابو کرلیتا ہے۔ (26) بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی کہ گناہ دلوں کو قابو کرلیتا ہے جب تم میں سے کسی دل میں کوئی چیز کھٹکے تو اس کو چاہئے کہ اس کو چھوڑ دے۔ (27) بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گناہ دلوں کو قابو کرلیتا ہے اور کوئی نظر بلبلانے والی نہیں ہوتی مگر شیطان کو اس میں طمع ہوتی ہے۔ (28) امام احمد اور بیہقی (رح) نے انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو انسان اپنی زبان سے حق کا کلمہ کہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اس کا اجر اس کے لئے ہوجاتا ہے قیامت کے دن تک اس کا ٹھکانہ جنت میں بنا دے گا۔ (29) امام بیہقی نے انس ؓ سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب عزوجل سے عرض کرتے ہوئے فرمایا (اے میرے رب) تیرے کون سے بندے تیری طرف محبوب ہیں۔ تیری محبت کی وجہ سے میں بھی ان سے محبت کروں ؟ فرمایا اے داؤد ! میرے بندے صاف دل والے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ صاف ہتھیلیوں والے۔ کسی کے ساتھ برائی نہیں کرتے چغل خوری نہیں کرتے پہاڑ ہٹ جائیں مگر وہ نہیں ہٹتے وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے محبت کرو۔ میرے بندوں کے اندر میرے لئے محبت پیدا کر۔ داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب تو خوب جانتا ہے میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔ اور میں اس سے بھی محبت رکھتا ہوں جو تجھ سے محبت رکھتا ہے۔ پس میں تجھے کیسے محبوب بنا دوں تیرے بندوں کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو یاد دلاؤ میری نعمتیں میری آزمائش اور میرے انعامات۔ اے داؤد کیا وہ میرے بندوں میں سے نہیں ہے جو مظلوم کی مدد کرتا ہے یا تاریکی میں اس کے ساتھ چلتا ہے۔ مگر یہ کہ میں اس کے قدم اس دن مضبوط کر دوں گا جس دن قدم پھسل جائیں گے۔ (30) امام احمد نے ابو درداء ؓ سے روایت نقل کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ سے آگ کو ہٹا دیں گے۔ (31) ابن ماجہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مؤمن کے قتل پر مدد کی اگرچہ آدھے کلمے کے ساتھ۔ تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (32) طبرانی ہے اوسط میں اور حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی ظالم کی باطل کے ساتھ مدد کی تاکہ اس کے ذریعہ حق باطل ہوجائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ سے بری ہوگیا۔ (33) حاکم نے (اور اسے صحیح بھی کہا ہے) ابن عمر ؓ سے روایت نقل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی جھگڑے میں ناحق مدد کی وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہے گا۔ یہاں تک وہ اس عمل سے الگ ہوجائے۔ (34) بخاری نے تاریخ میں اور طبرانی نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں اوس بن شرجیل ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کے لئے چلا اور وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا۔ (35) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کی شفاعت حائل ہوگئی اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے خلاف تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اس کے حکم میں اور جو شخص مرگیا اور اس پر قرض ہے (تو یہ قرضہ) دینار اور درھم سے (ادا) نہیں ہوگا بلکہ نیکیوں اور برائیوں سے (ادا) ہوگا۔ اور جس نے باطل میں جھگڑا کیا حالانکہ وہ اس کو جانتا ہے تو برابر اللہ کے غصہ میں رہے گا۔ یہاں تک کہ اس عمل سے الگ ہوجائے اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخیوں کی پیپ اور خون کیچڑ میں ٹھہرائے گا۔ یہاں تک کہ جو اس نے بات کہی اس سے قطع تعلق کرے۔ ظلم پر قوم کی مدد کرنا گناہ ہے (36) امام بیہقی نے فسیلہ کے طریق سے روایت نقل کی تاکہ انہوں نے اپنے باپ واثلۃ بن اسقع ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا یہ گناہ میں سے ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ لیکن گناہ میں سے یہ ہے کہ آدمی ظالم پر اپنی قوم کی مدد کرے۔ (37) امام بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی قوم کے ساتھ چلا یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ گواہی دینے والا ہے حالانکہ وہ گواہی دینے والا نہیں تھا تو گویا وہ جھوٹ کی گواہی دینے والا ہے۔ جس نے کسی جھگڑے پر بغیر علم کی مدد کی تو وہ اللہ کے غصہ میں رہے گا۔ یہاں تک کہ اس عمل سے الگ ہوجائے اور مسلمان کا قتل کرتا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ہے۔ (38) حاکم (نے اور بیہقی نے حاکم (رح) نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) عبدالرحمن بن عبد اللہ بن مسعود سے روایت نقل کی ہے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنی قوم کی ظلم پر مدد کی تو وہ لڑھکتے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جبکہ وہ اس کی دم کھینچ رہا ہے۔ اور حاکم کے الفاظ یہ ہیں اس شخص کی مثال جس نے اپنی قوم کی کسی ناحق کام پر مدد کی اس اونٹ کی مثل ہے جو بلندی سے گرجائے۔ اور وہ اس کی دم کو پکڑ کر کھینچتا ہے۔
Top