Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
لَا تُحِلُّوْا
: حلال نہ سمجھو
شَعَآئِرَ اللّٰهِ
: اللہ کی نشانیاں
وَلَا
: اور نہ
الشَّهْرَ الْحَرَامَ
: مہینے ادب والے
وَلَا
: اور نہ
الْهَدْيَ
: نیاز کعبہ
وَلَا
: اور نہ
الْقَلَآئِدَ
: گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے
وَلَآ
: اور نہ
آٰمِّيْنَ
: قصد کرنیوالے ( آنیوالے)
الْبَيْتَ الْحَرَامَ
: احترام والا گھر (خانہ کعبہ)
يَبْتَغُوْنَ
: وہ چاہتے ہیں
فَضْلًا
: فضل
مِّنْ رَّبِّهِمْ
: اپنے رب سے
وَرِضْوَانًا
: اور خوشنودی
وَاِذَا
: اور جب
حَلَلْتُمْ
: احرام کھول دو
فَاصْطَادُوْا
: تو شکار کرلو
وَلَا
: اور نہ
يَجْرِمَنَّكُمْ
: تمہارے لیے باعث ہو
شَنَاٰنُ
: دشمنی
قَوْمٍ
: قوم
اَنْ
: جو
صَدُّوْكُمْ
: تم کو روکتی تھی
عَنِ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام (خانہ کعبہ)
اَنْ تَعْتَدُوْا
: کہ تم زیادتی کرو
وَتَعَاوَنُوْا
: اور ایک دوسرے کی مدد کرو
عَلَي الْبِرِّ
: نیکی پر (میں)
وَالتَّقْوٰى
: اور تقویٰ (پرہیزگاری)
وَلَا تَعَاوَنُوْا
: اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو
عَلَي
: پر (میں
الْاِثْمِ
: گناہ
وَالْعُدْوَانِ
: اور زیادتی (سرکشی)
وَاتَّقُوا اللّٰهَ
: اور ڈرو اللہ سے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
شَدِيْدُ
: سخت
الْعِقَابِ
: عذاب
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو ، ۔۔۔۔۔ حرام مہینوں میں کسی کو حلال نہ کرلو ‘ قربانی کے جانوروں پر دست درازی نہ کرو ‘ ان جانوروں پر ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ انکو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو ‘ ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا حصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں ‘ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں ‘ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو ‘ اس کی سزا بہت سخت ہے ۔
قابل ذبح جانوروں میں تحریم وتحلیل ‘ مختلف چیزوں میں سے حلال و حرام مختلف جگہوں میں حلال و حرام ‘ مختلف اوقات میں حلال و حرام کی یہ حدود وقیود سب کی سب عقود ہیں۔ یہ تمام عقود اور عہد و پیمان ایمان کی بنیاد پر قائم ہیں اس لئے جو لوگ ایمان لائے ہیں ‘ ان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حلال و حرام کی بابت تمام ہدایات اللہ سے اخذا کریں اور اس معاملے میں غیر اللہ سے کچھ نہ لیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیان کے آغاز ہی میں کہا گیا کہ عقود اور بندشوں کی پوری طرح پابندی کرو اب اس کے بعد حلال و حرام کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ (آیت) ” احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم) (تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے ‘ سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے) یعنی اس وجہ سے کہ اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا اور اس وجہ سے کہ اس حلت کو اللہ نے تمہارے لئے بیان کیا ہے ‘ کسی اور حلال و حرام کرنے والے نے نہیں کیا ‘ تمہارے لئے ان تمام جانوروں کا کھانا جائز ہوگیا جو مویشیوں کی قسم کے ہوں یعنی مذبوحہ جانور اور شکار کے جانور سوائے ان کے جن کی حرمت آگے خود اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں اور آئندہ جن کی حرمت بیان کی جانے والی ہے ‘ وہ یا تو کسی وقت کے ساتھ مخصوص ہے یا کسی جگہ کے ساتھ مخصوص ہے یا وہ مطلق حرمت ہے اور ہر زمان ومکان کے ساتھ اس کا تعلق ہے ۔ بہیمۃ الانعام کے لفظ میں اونٹ ‘ گائے اور بکری وغیرہ آتے ہیں ۔ ان جیسے وحشی جانور بھی ان میں داخل ہیں مثلا وحشی گائے ‘ ہر نی اور جنگلی گدھے وغیرہ ۔ اب اس عمومی حلت کے حکم سے بعض استثنائی صورتوں کو پیش کیا جاتا ہے اور پہلی صورت یہ ہے کہ احرام میں شکار کرنا حرام قرار دیا گیا ہے ۔ (غیر محلی الصید وانتم حرم (105) (لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو) اس تحریم کا اطلاق شکار کرنے کے فعل پر ہوگا ۔ حج اور عمرہ کے لئے احرام باندھتے ہی انسان معمول کی زندگی ترک کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ وہ زندگی کے نئے انداز سے اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس گھر کے لئے کچھ آداب مقرر فرمائے ہیں ۔ اسے دارالامن اور دار الامان قرار دیا ہے ۔ اس کی حدود کے اندر جو شخص بھی آتا ہے ‘ اس کے لئے کسی بھی زندہ چیز پر ہاتھ اٹھانا حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی وقفہ ہوتا ہے اور نفس انسانی کے لئے ایسے وقفے ضروری ہوتے ہیں ۔ اس طرح تمام زندہ اشیاء کا تعلق زندگی بخشنے والے کے ساتھ استوار ہوتا ہے اس عرصے میں اور اس مقام کے حدود کے اندر کوئی زندہ پر کسی قسم کی دست درازی نہیں کرسکتا ۔ اس حکم کے ذریعے انسانی ضروریات کا دائرہ بھی محدود کردیا جاتا ہے ‘ جسکی وجہ سے شکار کا کھانا جائز قرار دیا گیا تھا اور دوسرے حیوانات کا کھانا حلال کیا گیا تھا تاکہ انسان اس عرصے میں عام جاری زندگی سے ذرا بلند ہو کر اللہ کے گھر میں زمینی کثافتوں سے اوپر اٹھے اور اس کی نظریں بلند اور روشن افق پر ہوں ۔ اور آگے بڑھنے اور حلال و حرام کی تفصیلات میں جانے سے پہلے اس عقد کو اس عظیم عقد سے مربوط کردیا جاتا ہے اور جو ہر مومن اور ہر انسان نے اللہ کے ساتھ کیا تھا ۔ اہل ایمان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ بڑا معاہدہ اللہ کے ساتھ ہوا تھا اور اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ یحکم ما یرید “۔ (5 : 1) (بےشک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے) اللہ کی مشیت آزاد ہے ۔ اس کا ارادہ ہی اصل حاکم ہے ‘ وہ اس حق حکمرانی میں اکیلا ہے لہذا جو چاہے حکم دے ، کوئی دوسرا نہیں ہے جو اس کے ارادے میں شریک ہو ۔ اس کے علاوہ دوسرے کو بھی حکم حکمرانی نہیں ہے ۔ کوئی اس کے احکام کو مسترد کرنے والا نہیں ہے اور یہاں بھی وہ جسے چاہے حرام کر دے اور جسے چاہے حلال کر دے کیونکہ وہی قانون ساز ہے ۔ اس کے بعد مزید بیان ہوتا ہے اور تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ کے ہاں محترم چیزوں کی بےحرمتی تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تحلوا شعآئر اللہ ولا الشھر الحرام ولا الھدی ولا القلائد ولا امین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا واذا حللتم فاصطادوا “۔ (5 : 2) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو ، حرام مہینوں میں کسی کو حلال نہ کرلو ‘ قربانی کے جانوروں پر دست درازی نہ کرو ‘ ان جانوروں پر ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ انکو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو) یہ شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہاں جس چیز کی طرف ذہن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے مراد حج ‘ عمرہ ہیں اور ہو محرمات ہیں کہ حج اور عمرہ کے دوران جن کا ارتکاب حرام قرار دیا گیا ہے اور فرائض وہ ہیں جو ان میں ادا ہوتے ہیں یہاں تک کہ حج اور عمرہ ختم ہوجائیں یعنی قربانی کرنے کے بعد ۔ احرام کی حالت میں احرام باندھنے والے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان شعائر اللہ کو حلال قرار دے یا ان کا احترام ملحوظ نہ رکھے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ اس احترام کا لحاظ نہ رکھے گا جو اللہ نے ان چیزوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے ۔ ان شعائر کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ کے ہاں یہ نہایت ہی محترم چیزیں ہیں اور ان کا استخفاف نہایت ہی خطرناک جرم ہوگا ۔ حرام مہینے کون سے ہیں ۔ رجب ‘ ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ اور محرم چار مہینے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کے اندر جنگ کو حرام کیا ہے ۔ اسلام سے قب عرب بھی ان مہینوں میں جنگ کو ناجائز سمجھتے تھے لیکن وہ حسب خواہش ان حرام مہینوں میں ردوبدل کردیتے تھے ۔ اس میں وہ نسئی کا عمل کرتے تھے یعنی کسی مہینے کی حرمت کو کچھ عرصے کے لئے موخر کردیتے تھے اور اس تاخیر کا فتوی وہ کاہنوں سے لیتے تھے یا بعض مضبوط جنگلی قبائل سے اس کا اعلان کروا دیتے تھے ۔ یہ تاخیر ایک سال سے دوسرے سال تک کردی جاتی ۔ جب اسلام آیا تو اسلام نے اس عمل نسئی کو حرام قرار دیا اور ان مہینوں کو اس طرح حرام قرار دیا جس طرح اللہ نے انہیں حرام قرار دیا تھا اور جس طرح یہ مہینے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش کے وقت سے اللہ نے رکھے تھے ۔ سورة توبہ کی آیت میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے ۔ (آیت) ” ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیھن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ واعلموا ان اللہ مع المتقین “۔ (9 : 36) ” حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ رہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں۔ ) اس سے اگلی آیت میں فیصلہ کیا گیا کہ لسئی کا عمل کفر کے اندر مزید کافرانہ فعل ہے اور صحیح بات اللہ کا حکم ہے اور وہ یہ کہ اس میں قتال حرام ہے بشرطیکہ ان مہینوں میں کوئی مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو۔ اگر ان پر حملہ ہو تو وہ دفاع کرسکتے ہیں ۔ یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ حملہ آور ان مہینوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں اور خود ان مہینوں کے احترام کا لحاظ نہ رکھیں ، ہاں اگر ان کی اسکیم یہ ہو کہ وہ ان مہینوں کو وصال بنا کر مسلمانوں کی طرف جوابی کاروائی سے بچ جائیں تو یہ اجازات نہ ہوگی ۔ اشہر حرام کے اندر قتال کا حکم اس سے قبل سورة بقرہ میں گزر چکا ہے ۔ ” ہدی “ وہ جانور ہے جسے حاجی یا عمرہ کرنے والا ساتھ لاتا ہے اور حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر اسے ذبح کرتا ہے ۔ اسے نحر کہتے ہیں اور اس پر حج اور عمرہ کرنے والے کے مناسک ختم ہوجاتے ہیں یہ یا تو اونٹ ہوتا ہے یا کوئی مویشی ہوتا ہے یا بھیڑ بکری ہوتی ہے ۔ اور یہ کہ ” ہدی حلال نہیں ہے “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس غرض کے لئے اسے خریدا گیا یا لایا گیا ‘ اس کے سوا کسی اور غرض کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ اسے اس وقت تک ذبح نہ کیا جائے گا جب تک حج میں یوم النحر کا دن نہیں آجاتا اور عمرہ کے مناسک ختم نہیں ہوجاتے ۔ ان قربانیوں کے گوشت ‘ چمڑوں ‘ بالوں اور اون وغیرہ سے (بشکل قیمت) کوئی شخص خود نفع اندوز نہیں ہوسکتا اور ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کو فقرا پر صرف کرے ۔ قلائد : سے مراد وہ جانور ہیں جن کے گلے میں اس کا مالک پٹہ ڈال دیتا تھا ۔ یہ پٹہ ان جانوروں کے ہدی ہونے کی علامت ہوا کرتا تھا ۔ یہ پٹہ ڈال کر حاجی جانور کو آزاد چھوڑ دیتے تھے اور یوم النحر پر اسے ذبح کرتے تھے ۔ جانوروں کے گلوں میں جب پٹے ڈالدیئے جاتے اس کے بعد وہ کسی دوسری غرض کے لئے حلال نہ ہوتے اور اس غرض کے سوا انہیں ذبح نہ کیا جاسکتا ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ قلائد وہ ہیں جن کے گلوں میں پٹے ڈال دیئے جاتے تھے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ یہ جانور حج اور عمرہ کے لئے خریدے گئے ہٰں ۔ اس طرح ان کو ڈاکوؤں ‘ دشمنوں وغیرہ سے بچایا جاتا تھا ۔ وہ حرم کے درختوں سے ایسی چیزیں بناتے تھے جن کو ان جانوروں کی گردنوں میں ڈال دیتے تھے ۔ ان جانوروں کو عام طور پر علاقے میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور کوئی بھی ان پر دست درازی نہ کرتا تھا ۔ جن لوگوں نے قلائد کا یہ مفہوم بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اس لئے کہ اس کے بعد نازل ہونے والی آیت : (آیت) ” یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شآء ان اللہ علیم حکیم “۔ (9 : 28) ” مشرکین ناپاک ہیں ‘ لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولتمند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے) اور دوسری جگہ (آیت) ” فخذوھم واقتلوھم حیث ثقفتموھم) (پس انہیں پکڑو ‘ قتل کرو ‘ جہاں بھی تم انہیں پاؤ) لیکن پہلا قول زیادہ قوی ہے اور ظاہر ہے کہ قلائد وہ جانور ہیں جو اللہ کے نام پر نحر کرنے کے لئے نذر کردیئے گئے ہیں اور ان کے گلے میں پٹے ڈال دیئے گئے ہیں اور ان پر یہ بھی دلیل ہے کہ ان کا تذکرہ ہدی کے بعد آیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے ہدی مقلد مراد ہے اور یہ حج اور عمرے کے لئے مقلد جانور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جو ” آمین البیت “ ہوں یعنی جنہوں نے بیت اللہ کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا ہو اور جن کا مقصد اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضا مندی ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یا عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ اس میں ان کے کے پیش نظر دو چیزیں ہو سکتی ہیں تجارت اور رضائے الہی کا حصول ۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو امن کی گارنٹی دی ہے ۔ آخر میں وضاحت کردی گئی کہ شکار کرنا تمہارے لئے مستقلا حرام نہیں کردیا گیا ۔ جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو تمہارے لئے شکار کرنا جائز ہے لیکن حدود حرم سے باہر ‘ کیونکہ حدود حرم کے اندر شکار ہر حالت میں حرام ہے ۔ (آیت) ” واذا حللتم فاصطادوا “ (اور جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو تم شکار کرسکتے ہو) لیکن حدود حرم سے باہر ‘ اس لئے کہ حرم کے حدود کو اللہ تعالیٰ نے علاقہ امن قرار دے دیا ہے ‘ جیسا کہ اس نے حرام مہینوں کو امن کا عرصہ (Period) قرار دیا ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس میں لوگ ’ حیوانات ‘ پرندے اور درخت سب کے سب پرامن رہتے ہیں اور ان کو کسی کی جانب سے دست درازی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا ۔ غرض ایک ہمہ گیر امن ہے جو اس گھر کے اوپر ایک گھنے سایہ دار درخت کی طرح ہمیشہ لہلہاتا رہتا ہے ۔ حدود حرم پر یہ ہمہ گیر ” سایہ امن “ اس لئے چھایا ہوا ہے کہ اس امت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس گھر کو پرامن بنادے اور اس دعا کو اللہ نے قبول فرمایا تھا اور امن کی جہ فضا چار ماہ تک پوری سرزمین عرب پر چھائی رہتی ہے اور پورے چار ماہ تک یہ امن وسلامتی اسلامی نظام کے سائے میں اپنی شان دکھاتی ہے ۔ یہ اس قدر ہمہ گیر سلامتی ہوتی ہے کہ ہر انسانی دل اس کے اطمینان ‘ سکون کو اور ہر صاحب ذوق اس کی مٹھاس کو محسوس کرتا ہے ۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم امن وسلامتی کی یہ فضا پیدا کرنے میں نہایت ہی سرگرم ہوں اور ان چار مہینوں کے بعد پوری زندگی کے شب وروز میں ‘ سال کے 12 مہینوں میں اور ہر جگہ ایسی ہی فضا پیدا کرنے کی سعی کریں ۔ اس منطقہ امن کے اندر ‘ ان حرمتوں کی فضا میں ‘ اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اللہ کے ساتھ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اور اپنے مقام اور پروگرام اور موقف کو اتنی بلندی تک لے جائیں گے جہاں تک اس عظیم مقصد اور نصب العین کے لئے ضروری ہو جو ان کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ وہ عظیم نصب العین اور مقصد کیا ہے ؟ یہ کہ امت مسلمہ اس دنیا پر بسنے والی تمام امم کے لئے نگران ہے اور اسے اپنی زندگی کے اس مشن کو شخصی جذبات ‘ ذاتی رجحانات اور عارضی حالات سے متاثر ہوئے بغیر ادا کرنا چاہئے ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو جنہوں نے حدیبیہ کے موقعہ پر تمہیں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا اور اس سے پہلے بھی جب وہ مکہ میں تھے وہ ایسی رکاوٹیں پیدا کیا کرتے تھے ۔ ان کے لگائے ہوئے زخم ابھی تک اگرچہ مسلمانوں کے دلوں میں تازہ تھے ‘ اور مسلمانوں کے دلوں میں مسجد حرام سے روکنے کی وجہ سے ان لوگوں کے خلاف نفرت تازہ تھی۔ اگرچہ یہ صورت حال موجود تھی ‘ لیکن امت مسلمہ کے فرائض اور مقاصد ان چیزوں سے بالاتر تھے امت کے مقاصد وفرائض اس امت کے عظیم کردار کے زاویے سے تھے ۔ فرماتے ہیں : (آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام ان تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ، واتقوا للہ ، ان اللہ شدید العقاب “۔ (5 : 2) ” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘ ضبط نفس کے میدان میں یہ بلند ترین مقام ہے ۔ دریا دلی میں یہ سب سے اونچا درجہ ہے اور اس مقام تک اس امت کے لئے پہنچنا فرض ہے جسے اب اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کا نگران اور اتالیق مقرر کیا ہے ۔ جسے عوام الناس کی تہذیب اور ترقی کا فریضہ سپرد کیا گیا ہے اور جسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کو اس بلند اور روشن افق اور نصب العین کی طرف متوجہ کردے ۔ یہ وہ فرائض ہیں جو منصب قیادت ‘ نگرانی اور امتداب کے از بس ضروری ہیں ۔ یہ مومنین کا فرض ہے کہ وہ ان تمام مصائب وشدائد کو بھول جائیں جو ان کو ان دشمنوں کے ہاتھوں پہنچے تھے ۔ یہ اس لئے کہ وہ اس نمونے کو دنیا کے سامنے عملا پیش کریں جو اسلام کو مطلوب ہے تاکہ وہ رواداری عملا انسانوں کے سامنے پیش ہو جسے اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ صرف اسی طرح امت مسلمہ اسلام کے حق میں شہادت حق دے سکتی ہے ۔ اور لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو کر اسے پسند کرسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے لیکن اس شکل میں وہ نفس انسانی کے لئے گرانبار نہیں ہوتی اور نہ وہ انسان کی قوت اور وسعت سے باہر ہوتی ہے ۔ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان کو غصہ آئے یہ انسان کا حق ہے کہ وہ بری چیز کو ناپسند کرے لیکن انسانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی چیز کو ناپسند کرتے ہی وہ فورا ردعمل ظاہر کردیں یا یہ کہ دشمنی اور کینہ کے ہاتھوں بالکل مجبور ہوجائیں ۔ اسلام ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ نیک اور تقوی کے کاموں میں تو فورا اٹھ کھڑے ہوں اور جلدی رد عمل ظاہر کریں لیکن گناہ اوپر ظلم کے کام میں جتھہ بندی نہ کریں ۔ وہ اللہ سے ڈریں اور اس کی سزا سے اپنے آپ کو بچائیں اور تقوی اور خدا خوفی کے ذریعے اپنے نفس پر قابو پائیں ۔ اس کی لگام کھینچ کر رکھیں اور اپنے اندر برداشت اور رواداری پیدا کریں ۔ اللہ سے ڈریں اور اس کی رضا ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے ۔ یہ اسلام کا کمال تھا کہ اس کی تربیت نے عرب قوم جیسی اجڈ اور جاہل قوم کو ضبط نفس عطا کر کے ان کے اندر اس سلسلے میں نہایت ہی قوی شعور پیدا کردیا اور انہوں نے نہایت ہی مشفقانہ اور کریمانہ رویہ اپنایا حالانکہ وہ ایسی قوم تھی کہ ان سے اس سطح تک بلند اخلاقی اور حسن سلوک کی کم ہی توقع کی جاسکتی تھی کیونکہ ان کے تمدن کا رخ ہی اس سمت کے خلاف تھا ۔ عربی طرز علم اور اس بارے میں ان کا رویہ یہ تھا ۔ (انصر اخاک ظالما او مظلوما) (اپنے بھائی کی امداد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو) یہ جاہلانہ حمیت تھی اور دور جاہلیت کی عصبیت تھی ، ان کے نزدیک گناہ اور ظلم پر باہم تعاون کرنا ‘ نیکی اور تقوی کے معاملات میں تعاون کرنے سے زیادہ پرکشش تھا ، وہ ہمیشہ باطل وگمراہی پر باہم تعاون کے معاہدے کرلیتے تھے اور حق اور سچائی پر ان کا اجتماع بہت ہی کم ہوا کرتا تھا ۔ تاریخ جاہلیت میں سچائی پر کم ہی حلف منعقد ہوئے ۔ اور یہ ہر اس معاشرے کا قدرتی خاصہ ہے جس کا رابطہ اور تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ نہ ہو اور جس کی عادات اور تقالید اسلامی منہاج اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق نہ ہوں ۔ یہ اصول جاہلیت کے اس مشہور مقولے کے اندر پوری طرح منضبط تھا کہ بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہے یا مظلوم ۔ اور اس اصول کو ایک جاہلی شاعر نے اس پیش کیا ہے ۔ وھل انا الامن غزیۃ ان غوت غویت وان ترشد غزیۃ ارشد : (میں تو بس غزیہ قبیلے کا ایک فرد ہوں ‘ گر وہ گمراہ ہوجائے تو میں گمراہ ہوں گا اور اگر وہ راہ ہدایت پالے تو میں بھی پالوں گا) اسلام آیا ‘ اسلامی نظام تربیت آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا : (آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام ان تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ، واتقوا للہ ، ان اللہ شدید العقاب “۔ (5 : 2) ” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘ اسلام نے آکر دلوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔ اخلاق اور اقدار حیات کے لئے اللہ کے پیمانے میدان میں آگئے اسلام نے عربوں اور پوری انسانیت کو حمیت جاہلیہ سے نکالا ۔ نعرہ عصبیت سے منع کیا ‘ ذاتی میلانات ‘ شخصی تاثرات ‘ خاندانی اور قبائلی محدود سوچ سے نکالا اور دو ستون اور دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت صرف انسانیت کو محور بنایا ۔ غلبہ اسلام کے بعد جزیرۃ العرب کے اندر ایک نیا انسان پیدا ہوا ‘ یہ انسان الہی اخلاق سے مزین تھا یوں عربوں کو ایک نیا جنم ملا اور جب یہ روشنی دنیا میں پھیلی تو تمام کرہ ارض پر انسانیت کو ایک جدید جنم ملا ۔ اسلام سے قبل جزیرۃ العرب پورے کا پورا جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ جس کا نعرہ یہ تھا ” بھائی کی مدد کرو ‘ ظالم ہو یا مظلوم ہو “ بلکہ پوری دنیا اسی نعرہ جاہلیہ کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ جاہلیت کے گہرے گڑھے اور اسلام کے روشن افق کے درمیان بہت ہی دوری اور بعد ہے اور یہ دوری ان دو اقوال سے کس قدر خوبصورتی سے واضھ ہوتی ہے ۔ ایک بات یہ کہ ” بھائی کی مدد کرو ظالم ہے یا مظلوم “ اور دوسرا قول باری تعالیٰ کا ہے ۔ ” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘
Top