Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
مومنو ! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کریئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹّے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہوں۔ اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
(2) تمام آداب اور مناسک حج کو اپنے لئے حلال مت کرو اور نہ بےادبی کرو حرمت والے مہینے کی اور نہ اس قربانی کے جانور کو پکڑو جو بیت اللہ روانہ کیا جارہا ہے اور حرمت والے مہینے آنے کے لیے جن جانوروں کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہیں ان کو بھی مت پکڑو اور نہ ان لوگوں کو تنگ کرو جو بیت اللہ کے ارادہ سے جارہے ہوں اور وہ یمامہ کے حاجی بکر بن وائل کی قوم اور شرع بن ضہبہ کے تاجر ہیں اور وہ تجارت کے ذریعے روزی اور حج کی وجہ سے اپنے رب کی رضا کے طالب ہوں یا یہ کہ وہ تجارت کے ذریعے روزی اور حج کی وجہ سے اپنے رب کی رضا کے طالب ہوں یا یہ کہ وہ تجارت کے ذریعے اپنے رب کے فضل اور رضا کے طالب ہوں اور جس وقت تم ایام تشریق کے بعد حرم سے باہر آجاؤ تو اگر چاہو تو خشکی کے شکار کرلو اور ایسا نہ ہو کہ تمہیں مکہ والوں سے اس وجہ سے بغض ہو کہ تمہیں انہوں نے حدیبہ کے سال روک دیا تھا اگر اس طرح ہوا تو تمہارا یہ رویہ بکر بن وائل کے حاجیوں پر ظلم و زیادتی کا باعث نہ بن جائے، اطاعت خداوندی اور گناہ چھوڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور حد سے تجاوز کرنے پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور بکر بن وائل کے حاجیوں پر ظلم کرنے میں بھی کسی کا ساتھ نہ دو اور جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے اس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ جو اوامر خداوندی کو نظر انداز کرے، اللہ تعالیٰ اس کو سخت سزا دیتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا الا تحلوا“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ حاطم بن بکر ہندی مدینہ منورہ میں ایک قافلہ کے ساتھ غلہ لے کر آئے، اسے بیچ کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے بیعت کی اور اسلام قبول کیا جب وہ وہاں سے چلے تو آپ نے ان کی طرف دیکھا اور آپ کے پاس جو حضرات بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ میرے پاساس فاجر کی صورت لے کر آیا اور عہد شکن کی پشت کے ساتھ واپس گیا، چناچہ جب وہ یمامہ پہنچا تو مرتد ہوگیا اس کے بعد ماہ ذی قعدہ میں ایک قافلہ کے ساتھ غلہ لے کر مکہ مکرمہ کے ارادہ سے نکلا، جب صحابہ کرام کو اس کی آمد کی اطلاع ملی تو مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے اس کے قافلہ پر چھاپہ مارنے کا ارادہ کیا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے مومنو اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی مت کرو تو اس ہدایت کے آنے پر صحابہ کرام ؓ رک گئے کیونکہ صحابہ حکم الہی کے پابند تھے، نیز سدی سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) شان نزول : (آیت) ”ولا یجرمنکم“۔ الخ۔ ابن ابی حاتم ؒ نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو مشرکین مکہ نے بیت اللہ آنے روکا تھا، آپ مقام حدیبیہ میں تھے، سب پر یہ چیز بہت گراں گزری تھی ، اتنے میں مشرق والوں کے مشرکین کا ایک گروہ عمرہ کے ارادہ سے ان کے پاس سے گزرا، اس پر صحابہ کرام ؓ بولے کہ ہم بھی ان لوگوں کو روکتے ہیں جیسا کہ ہمیں روک دیا گیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top