Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو ! نہ بےحرمتی کرو اللہ کے شعائر کی ار نہ حرمت کے مہینے کی اور نہ ان جانوروں کی جو اللہ کی نیاز کے طور پر کعبے شریف کی طرف لے جائے جاتے ہیں اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں یہ ڈالا جاتا ہے (اور ان کو قربانی کے لیے لے جاتے ہیں) اور ان لوگوں سے تعرض کرو جو بیت الحرام کا قصد کرتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کا فضل اور اسکی خوشنودی جس وقت تم احرام سے نکل جائو پس تم شکار کرلو اور نہ آمادہ کرتے تم کو کسی قوم کی دشمنی جنہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا۔ کہ تم زیادتی کرنے لگو۔ اور تعاون کرو آپس میں نیکی اور تقوے کی بات پر اور نہ تعاون کرو گناہ اور زیادتی کی بات پر اور اللہ سے ڈروبیشک اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے ۔
سورة بقرہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ اجتماعی زندگی میں انسانیت کی فلاح کا مدارسی پر ہے۔ شریعت کے تما احکام اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہدو پیمان ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔ چناچہ اللہ نے حلت و حرمت کے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ تمہارے لیے بہیمتہ الانعام کو حلال قرار دیا گیا ہے اور ان کے علاوہ وہ جانور حرام ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ البتہ احرام کی حالت میں حلال جانور کا شکار بھی نہیں کرسکتے جب تک کہ احرام سے باہر نہ نکل جائو۔ اس تمہید کے بعد آگے حرام جانوروں اور اشیاء کا ترتیب وار بیان آرہا ہے اہل ایمان کے لیے حلت و حرمت کی پابندی نہایت ضروری ہے اور اسی کو ایفائے عہد سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ (2) شائر اللہ کی تعظیم ارشاد ہوتا ہے یا ایھالذین امنو اے ایمان والو ! لا تحلو شعائر اللہ اللہ کے شعائعر کی بےحرمتی نہ کرو۔ شعائر ، شعیرہ کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت ار معمبودیت کا نشان ہیں۔ فرمایا ان کے بےحرمتی نہ کرو ، شعائر اللہ کا احترام ملت ابراہیمی کا ایک ضروری حکم اور ہمارے دین کا ضروری جزو ہے ۔ دین کے دیگر اہم اصولوں مثلاً اللہ کی وحدانیت پر ایمان ، اقامت صلوٰۃ ، مصیبت میں صبر ، اللہ کی نعمتوں کا شکر وغیرہ کی طرح تعظیم شعائر اللہ بھی ایک اہم اصول ہے ۔ شعائر اللہ میں حرم شریف ، بیت اللہ شریف ، جمرات ، صفاو مروہ ، قربانی ، احرام ، اذان ، نماز اور تما م احکام شریعیت داخل ہیں۔ صفا ومروہ کے متعلق خصوصاً فرمایا ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ یعنی صفا ومروہ پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ یہ چار چیزیں اعظم شعائر اللہ میں ہیں یعنی حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ، قرآن کریم ، بیت اللہ شریف اور نماز ، یہ سب سب بڑے نشانات قدرت ہیں۔ ان کی تعظیم بہت ضروری ہے۔ سورة حج میں اللہ کا فرمان ہے ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوجو شخص شعائر اللہ کی تعظیم کرلے گا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے دل میں تقویٰ موجود ہے جو آدمی تقویٰ سے خالی ہے اس سے تعظیم شعائر اللہ کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ فرمایا اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو ولا السھر الحرام اور نہ حرمت والے مہینوں کی بےحرمتی کرو۔ حرمت یا ادب والے مہینے چار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں فرمایا ہے کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین کو پیدا کیا ہے ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا اس کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے منھا اربعۃ حرم جن میں سے چار حرمت والے ہیں ، جن میں لڑائی کرنا جائز نہیں۔ محمرم مہینوں کے نام تو قرآن پاک میں موجود نہیں ہیں تاہم حضور نبی کریم ﷺ نے ان کی وضاحت فرمائی ہے کہ ان میں سے ایک علیحدہ ہے اور تین اکٹھے یعنی رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ملت ابراہیمی میں بھی یہی حکم ہے کہ ان متبرک مہینوں میں لڑائی کی ابتدا نہیں کرنی چاہیے اگر کفارہ کی طرف سے ابتدا ہو تو پھر دفاع کی اجازت ہے ۔ اس کے متعلق سورة بقرہ میں موجود ہے ۔ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنا سخت گناہ کی بات ہے ۔ مگر کافروں نے چونکہ اس بھی بڑے گناہ کا ارتکاب کیا لہذا ان سے لڑائی کی اجازت ہے۔ تاہم حتی الامکان ان مہینوں میں جنگ سے گریز کی جائے گی ۔ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کا احترام خود کفارہ بھی کرتے تھے ، ہتھیاراتار کر رکھ دیتے تھے ، کسی سے تعرض یا چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے ۔ البتہ بعض اوقات ایک اور قباحت کا ارتکاب کرتے تھے جسے نسئی کہا گیا ہے اور جس کا ذکر سورة توبہ میں موجود ہے انما النسئیء زیادۃ فی الکفر کفار کے لیے نسی کا ارتکاب بری بات ہے۔ وہ کرتے یہ تھی کہ اگر جنگ کہ دوران کوئی حرمت والا مہینہ آجاتا تو جنگ بند کرنے کی بجائے جاری رکھتے اور اس مہینے کی بجائے کوئی دوسرا مہینہ از خود حرمت والا مقرر کرلینے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ادب والے مہینوں کا احترام ضروری ہے۔ قربانی کے جانور فرمایا بےحرمتی نہ کرو اللہ کے شعائر کی اور حرمت والے مہینوں کی ولا لھدی اور نہ قربانی کے جانوروں کی۔ عام قربانی کے جانوروں کو تواضیحہ کہا جاتا ہے مگر جو جانور اللہ تعالیٰ کی نیاز کے لیے حرم شریف کی طرف لے جائے جاتے ہیں ان کو ہدی کہتے ہیں۔ فرمایا اللہ کے ہاں یہ بھی محترم ہیں ان کے بےحرمتی بھی نہ کرو۔ پھر یہ ہے کہ قربانی کے ایسے جانوروں کے گلے میں پٹہ یا ہار ڈال دیا جاتا تھا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا تھا کہ یہ قربانی کے جانور ہیں جو حرم شریف جا رہے ہیں ، لہذا راستے میں کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ فرمایا ولا القلائد اور پٹے والے جانور کی بھی حرمتی نہ کرو ، کیونکہ اللہ کے راستے میں قربانی کے لیے جا رہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بھی عام طور پر ایسے جانوروں کا احترام کیا جاتا تھا۔ عازمین حج وعمرہ فرمایا ولا امین البیت الحرام بیت اللہ شریف کی طرف قصد کر کے جانے والے لوگ بھی محترم ہیں۔ جو لوگ حج یا عمرہ کے ارادے سے سفر کر رہے ہیں ان سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا لڑائی بھڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے گھر کی طرف جا رہے ہیں۔ ہوسکے تو ان کی خدمت کرو ، ورنہ انہیں ایزانہ پہنچائو۔ حضور ﷺ اپنے چودہ سو صحابہ ؓ کے ہمراہ 6؁ھ میں عمرہ کے ارادہ سے نکلے تھے لیکن مشرکین نے ان کو حدیبہ کے مقام پر روک دیا۔ قربانی جانور ان کے ہمراہ تھے مگر کفار نے انہیں عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی اور اس بات پر صلح ہوگئی کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں گے البتہ اگلے سال عمرہ ادا کرسکیں گے ۔ چناچہ صلح کی شرائط کے مطابق صحابہ کرام ؓ نے جانور وہیں ذبح کردیے اور مدینہ طیبہ واپس آگئے پھر آپ نے 7؁ھ میں عمرہ قضا کیا ۔ اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے فرمایا کہ حج وعمرہ قضا کیا۔ اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے فرمایا کہ حج وعمرہ کے ارادہ سے حرم شریف جانے والے لوگوں کے ساتھ بھی کسی قسم کا تعرض نہیں کرنا چاہیے ، ان کی بےحرمتی کرو بلکہ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھو۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو یبتغون فضلا من ربھم و رضوانا اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔ سورة فتح میں اللہ تعالیٰ نے یہی دو صفات حضور ﷺ کے صحابہ کی بیان فرمائی ہیں ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ یعنی حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ تر ھم سجدا یتبتعون فضلا من اللہ ورضوانا آپ ان کو رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں دیکھتے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ فضل سے مراد ارتفاق ہے اور رضوان سے مراد اقتراب ہے۔ آپ نے اپنی حکمت میں یہ دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ارتفاق زندگی خوش اسلوبی سے بسر کرنے کو کہتے ہیں اور اس کا دارومدار رزق حلال پر ہے۔ لہذا فضل کو رزق حلال سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔ سورة جمعہ میں آتا ہے ۔ کہ جب نماز جمعہ ادا کرلو تو زمین میں پھیل جائو وابتغو من فضل اللہ اور اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔ رزق حلال فضل میں سر فہرست ہے اور اسلام میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جائز ذرائع سے روزی تلاش کرو اس پر کوئی پابندی نہیں۔ آپ جمعہ کو بھی کاروبار کرسکتے ہیں۔ اس دن مکمل طور پر کام کاج بند کردینا ضروری نہیں ، ہاں اگر مصلحت کی خاطر مکمل تعطیل بھی کردی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ غرضیکہ فضل سے مراد یہ ہے کہ زندگی کو خوش اسلوبی سے بسر کرنے کے لیے اپنے اور اپنے لواحقین کے لیے رزق حلال حاصل کیا جائے۔ حضرت اما م شاہ ولی اللہ نے رضوان کا معنی اقتراب کیا ہے ۔ یعنی اللہ کا قرب۔ اور یہ چیز نیکی ، عبادت اور احکام الہٰی کی تعمیل سے حاصل ہوتی ہے ۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا شعائر اللہ کی تعظیم بھی اقتراب الہٰی کا ایک ذریعہ ہے۔ بہر حال فرمایا کہ ان عازمین حج وعمرہ کا بھی احترام کرو جو اللہ کا فضل اور اسکی خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ حج اور تجارت اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سفر حج یا عمرہ کے دروان اگر جائز ذرائع سے اکتساب رزق کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نیت محض تجارت کی نہ ہو۔ نیت خالص حج کے لیے کرکے اگر تجارت یعنی اللہ کا فضل بھی تلاش کرتا ہے ، تو اس کی معمانت نہیں ہے ۔ سورۃ بقرہ میں بھی موجود ہے ۔ لیس علیکم جناح ان تبتغو فضلا من ربکم تم پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو یعنی تجارت وغیرہ کرو۔ بعض لوگوں کی ابتداء نیت ہی محض مال لے جانے اور وہاں سے مال لانے کی ہوتی ہے۔ اس قسم کی حج درست نہیں ہوتا ، بلکہ یہ تجارت ہوتی ہے ۔ بعض لوگ صرف سیرو تفریح کے لیے حج کا سفر اختیار کرتے ہیں ، یورب اور امریکی کی سیر نہ کی ، مکہ اور مدینہ کی کرلی۔ یہ بھی درست نہیں ہے۔ نیت خالص حج یا عمرہ کی ہونی چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑی عبادت ہے اس سفر میں مال خرچ کرنے کے علاوہ جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس میں بڑی پابندیاں ہیں اور یہ اعلیٰ درجے کی عبادے ہے۔ جسے خلوص کے ساتھ ہی ادا کرنا چاہیے ۔ تاہم ضمناً تجارت بھی مباح ہے۔ شکار کی اباحت اس سورة کی پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ بعض جانوروں کو چھوڑ کر تم پر مویشی حلال کیے گئے ہیں غیر خلی الصید وانتم حرم البتہ احرام کی حالت میں شکار کر نیکی منانعت ہے۔ جب کوئی شخص حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے میقات سے احرام باندھ لیتا ہے ، تو اس پر بعض پابندیاں عاید ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً مر د سلا ہوا کپڑا نہیں بن سکتا ، پورا جوتا اور جراب نہیں پہن سکتا ، خوشبو استعمال نہیں کرسکتا ، چہرہ نہیں ڈھانپ سکتا خشکی کا شکار نہیں کرسکتا حتیٰ کہ کسی سے لڑائی جھگڑا گالی گلوچ نہیں کرسکتا ، خشکی کا شکار نہیں کرسکتا حتیٰ کہ کسی جاندار کو ایذا نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ سب عارضی پابندیاں ہوتی ہیں جو احرام کھلنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ پہلی آیت میں شکار پر جو پابندی عائد کی تھی ، یہاں اس کے متعلق فرمایا واذ حللتم فاصطارہ۔ جب تم حلال ہو جائو یعنی احرام کھول دو تو تمہیں شکار کی اجازت ہے۔ احرام کی حالت میں ممنوع ہوگیا تھا ، اب یہ تمہارے کے لیے مباح ہے۔ تعدی کی ممانعت فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کو حج ، عمرہ اور طواف یعنی زیارت بیت اللہ کی اجازت نہیں تھی ۔ کفار مکہ نے مسلمانوں کا یہ حق سلب کرلیا تھا۔ چناچہ 6؁ھ میں جب صحابہ کی ایک جماعت حضور ﷺ کی میعت میں عمرہ کے لیے آئی تو مشرکین نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا ، لہذا مسلمانوں کو عمرہ کیے بغیر واپس لوٹنا پڑا۔ آیت کے اگلے حصہ میں کفار کی طرف سے اسی قسم کی اسلام دشمنی کی طرف اشارہ ہے ارشاد ہے ولا یجر منکم شغان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام جس قوم نے تمہیں مسجد سے روکا ، اس قوم کی دشمنی تمہیں آمادہ نہ کردے۔ ان تعتدو ا کم تم بھی ان پر تعدی کرو۔ اسلام کی کمزوری کے دوران جو کچھ ہوگیا ، اس پر درگزر کرو اور جب کہ اللہ نے تمہیں غلبہ دے دیا ہے ۔ تو اب تم بھی ان پر اسی طرح زیادتی نہ شروع کردو جس طرح مشرکین تم پر کرتے رہے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ یہ مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دے۔ مفسر قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ جس طرح الحب فی اللہ میں حد سے بڑھنا خرابی کا باعث ہے ، اسی طرح البغض فی اللہ بھی ایک حد تک ہونا چاہیے مشرکین سے نفرت ضرور ہے اور یہ ہے بھی محض رضائے الہٰی کی خاطر مگر یہ نفرت ان کے خلاف دشمنی کا رنگ نہ اختیار کر جائے۔ انہوں نے بلا شبہ تم پر زیادتی کی ، تمہیں تکالیف پہنچائیں مگر تمہیں ان پر زیادتی کر نیکی اجازت نہیں ہے ۔ تعاون اور عدم تعاون اور دوسری بات یہ فرمائی وتعاونو علی البر التقوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو ولا تعانو علی الاثم والعد وان نیز گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے تعاون نہ کرو۔ اچھائی سے تعاون اور برائی سے عدم تعاون ایک اہم اصول ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہاں پر بیان فرمایا ہے ۔ یہ قرآن اور اسلام کا موضوع ہے کہ اقوام عالم میں جہاں بھی کوئی مسلمان موجود ہے ، نیکی میں اس کے لیے دست تعاون بڑھا جائے۔ مگر اس زمانے میں اس چیز کا فقدان ہے۔ اب نیکی بجائے برائی کے کام میں تعاون کیا جاتا ہے ، اب موضوع ہی بدل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی ایسے ہی نکلیں گے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ، فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف تقویٰ کی روح ہے اور مومنوں کا عالمی پروگرام ہے اللہ نے یہی حکم دیا ہے ان اللہ یا مر بالعد وا لا حسان یعنی عدل و انصاف پر قائم رہو اور احسان کرو۔ مگر اب انصاف کی جگہ ظلم نے لے لی ہے ۔ اسی لیے قرآن پاک نے اس مقام پر یاد دلایا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو ، اور برائی خواہ عقیدے میں ہو یا عمل میں ، اس کے ساتھ ہرگز تعاون نہ کرو۔ فرمایا واتقو اللہ اللہ سے ڈر جائو۔ اللہ نے ایفائے عہد کا حکم دیا ہے اس کو پورا کرو ۔ اگر اس کے حکم کی خلاف ورزی کرو گے تو یادرکھو ان اللہ شدید العقاب بیشک اللہ سخت عذاب والا ہے ۔ جب وہ مجرمین کی گرفت کریگا ، تو پھر ان کو چھوڑے گا نہیں اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔ کوئی شخص جو اللہ کے قوانین کے خلاف کرتا ہے حلال و حرام سے بےنیاز ہے۔ شعائر اللہ کی بےحرمتی کرتا ہے ، برائی میں تعاون کرنے والا ہے ، وہ اسکی گرفت سے بچ نہیں سکتا ۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو۔
Top