Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو ! اللہ کے شعائر (علامات) کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ (بےحرمتی کرنا) مقدس مہینے کی۔ اور نہ (بےحرمتی کرنا) ہدی کی اور نہ (بےحرمتی کرنا) پٹوں (والے جانوروں) کی۔ اور نہ (بےحرمتی کرنا) ان لوگوں کی جو بیت الحرام کی طرف قصد کر کے جا رہے ہیں ‘ محض اپنے رب کا فضل اور اسکی رضا مندی چاہتے ہیں۔ اور جب حلال ہوجائو (احرام کھول لو) پس تم شکار کرو اور نہ تمہیں اکسائے (یہ بات) عداوت و دشمنی پر (اس) قوم کی کہ (وہ) تم کو روکتی تھی مسجد حرام سے اور مدد کرو ایک دوسرے کی نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) میں اور نہ مدد کرو ایک دوسرے کی گناہ اور سرکشی (کے کاموں) میں۔ اللہ سے ڈرو۔ بیشک اللہ کا عذاب (بہت) سخت ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللہِ وَلَا الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَلَآئِدَ وَلَآ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَانًا ط وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْ م وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص وَاتَّقُوا اللہ َ ط اِنَّ اللہ َ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ (المائدہ : 2) (اے ایمان والو ! اللہ کے شعائر (علامات) کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ (بےحرمتی کرنا) مقدس مہینے کی۔ اور نہ (بےحرمتی کرنا) ہدی کی اور نہ (بےحرمتی کرنا) پٹوں (والے جانوروں) کی۔ اور نہ (بےحرمتی کرنا) ان لوگوں کی جو بیت الحرام کی طرف قصد کر کے جا رہے ہیں ‘ محض اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں۔ اور جب حلال ہوجاؤ (احرام کھول لو) پس تم شکار کرو اور نہ تمہیں اکسائے (یہ بات) عداوت و دشمنی پر (اس) قوم کی کہ (وہ) تم کو روکتی تھی مسجد حرام سے اور مدد کرو ایک دوسرے کی نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) میں اور نہ مدد کرو ایک دوسرے کی گناہ اور سرکشی (کے کاموں) میں۔ اللہ سے ڈرو۔ بیشک اللہ کا عذاب (بہت) سخت ہے) گزشتہ آیت کی تشریح میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ کسی بھی صاحب اقتدار کے اقتدار کو تسلیم کرنے کی علامت یہ ہے کہ آپ اس کو صحیح غلط ‘ جائزناجائز اور حلت و حرمت کی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے صاحب اقتدار کے اقتدار کو تسلیم کرلیا اور تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کے اقتدار کو ماننے سے انکار کردیا۔ اب اس دوسری آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ خدا پرستی اور اللہ کے عطاکردہ نظام زندگی سے وفاداری کی کچھ علامتیں ہیں جن کا احترام کرنا اور ان سے واقعی وابستگی باقی رکھنا اللہ کو اور اللہ کے دین کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ ان علامتوں کو شعائر اللہ کا نام دے کر ان کے احترام کا حکم دیا گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہلے شعائر کا مفہوم سمجھ لیا جائے تاکہ شعائر اللہ کی اہمیت کا احساس ہو۔ شعائر اللہ کی تعریف شعائر ” شَعِیْرَۃ “ کی جمع ہے اور ” شعائر “ ان چیزوں کو کہتے ہیں جو کسی بھی ملک ‘ قوم اور مذہب کے رویوں ‘ اس کی حکومت ‘ اس کی حاکمیت اور اس کی عام عزت و افتخار کی علامت ہوتے ہیں۔ مثلاً ملک کا جھنڈا ‘ فوج کی وردی ‘ ملک کی مہر ‘ ملک کا سکہ ‘ عبادت گاہیں ‘ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کی اگر کوئی بےحرمتی کرے تو کوئی ملک و قوم اس کو گوارا نہیں کرتے۔ جیسے کہ روس جب دنیا کے سر پر سوار تھا تو سب جانتے تھے کہ ہتھوڑا اور درانتی اس کی علامتیں ہیں اس لیے اسکی بےحرمتی نہیں کرسکتے تھے۔ اسی طرح کسی بھی مذہب کی کچھ علامات ہوتی ہیں۔ مثلاً عیسائیت ہی کو دیکھ لیں ‘ صلیب ‘ قربان گاہ اور گرجے ان کی عزت کی علامتیں ہیں۔ سکھوں میں کیس کڑے ‘ کرپان اور گردوارے ‘ ہندوئوں میں چوٹی ‘ زنار اور مندر وغیرہ ان کی علامتیں اور شعائر ہیں۔ اسی طرح اسلام نے جن چیزوں کو اللہ اور دین کی عظمت کی علامتیں قرار دیا ہے ‘ یہاں ان میں سے چند چیزوں کا ذکر ہے ‘ حتیٰ کہ حضور ﷺ کے حوالے سے اگر میں ایک بات کہوں ‘ آپ اس پر غور کریں کیونکہ کسی بھی بات پر غور کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ وہ یہ کہ داڑھی کو شعائر اسلام میں شامل کیا گیا ہے۔ یعنی داڑھی نہ رکھنا اور بات ہے ‘ لیکن داڑھی کی توہین کرنا خلاف ایمان ہی نہیں ‘ ناقابل برداشت بھی ہے۔ یہ شعائر اللہ میں سے ہے کیونکہ اس کا تعلق حضور ﷺ کی ذات مبارکہ سے ہے اور اس کی بےحرمتی کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے چہرے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اسی طرح اور بہت سی چیزیں جن کا تعلق اللہ ‘ حضور ﷺ اور اسلام سے ہے ‘ وہ سب چیزیں شعائر اللہ ہیں۔ مثلاً ” صفا ومروہ “ اس کی پہچان ہیں اسی لیے ان کو اللہ کے شعائر قرار دیا گیا۔ اَشْھَرِ حُرُمْ ” شَھْر “ کی جمع ” اَشْھُرْ “ ہے۔ یہ چار مہینے ہیں -1 ذیقعد ‘ -2 ذی الحجہ ‘ -3 محرم ‘ -4 رجب۔ پہلے تین مسلسل اور ایک الگ ہے۔ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہ ِیَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضَ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (التوبہ : 36) اللہ نے جس دن آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا ‘ اسی دن سے اس نے اس کے بارہ مہینے طے کردیئے تھے اور ان میں چار مہینے عزت والے رکھے تھے “ ان میں لڑائی کی اجازت نہیں لیکن اگر کبھی لڑائی ناگزیر ہوجائے تو یہ ایک مجبوری ہے لیکن ان کو لڑائی کے لیے کبھی حلال نہ سمجھنا۔ ان چار مہینوں میں سے کوئی سا بھی مہینہ ہو اس کی عزت کو پامال نہ کرنا۔ اگرچہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ حضور ﷺ کی شریعت میں اس حکم کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ لیکن محتاط اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اگر ان مہینوں میں لڑائی کی ضرورت پڑے بھی تو اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔ وَلاَ الْھَدْیَ وَلاَ الْقَلآَئِدَ (اور نہ (بےحرمتی کرنا) ہدی کی اور نہ (بےحرمتی کرنا) پٹوں (والے جانوروں) کی) ہَدْی وہ جانور ہے جو اس زمانے میں عمرہ کرنے یا حج کرنے والے اللہ کے نام پر قربانی کے لیے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے۔ اب زمانہ ترقی یافتہ ہوگیا ہے ‘ لہٰذا لوگ اپنے ساتھ تو جانور لے کر نہیں جاتے البتہ وہیں سے جانور خرید کر قربانی کی جاتی ہے ” ہدی “ اسی قربانی کے جانور کو کہتے ہیں۔ قَلَآئِدْ جمع ہے ” قلادہ “ کی۔ ” قلادہ “ اس پٹے کو کہتے ہیں جو جانور کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ عرب کا رواج یہ تھا کہ وہ اس جانور کے گلے میں پٹہ ڈال دیتے جسے اللہ کے نام پر قربانی کے لیے لے جایا جا رہا ہوتا تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ قربانی کا جانور ہے اور کوئی اس سے تعرض نہ کرے۔ اس لیے آیت کا ترجمہ تو بظاہر یہ ہے کہ نہ بےحرمتی کرو پٹوں کی لیکن اصل میں کہا جا رہا ہے کہ نہ بےحرمتی کرو پٹوں والے جانوروں کی۔ اس لیے یہاں مضاف محذوف ہے اور وہ ہے ” ذَوات “۔ یعنی وَلاَ ذَوَاتَ الْقَلآَئِدَ ” نہ بےحرمتی کرنا پٹوں والے جانوروں کی “ مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی جانور کے گلے میں پٹہ دیکھو تو جان لو کہ یہ جانور اللہ کے نام پر قربانی کے لیے جا رہا ہے۔ اس کی توہین نہ کرنا ‘ اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ وَلآَ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْن فَضْلاً مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَانًا ط (اور نہ (بےحرمتی کرنا) ان لوگوں کی جو بیت الحرام کی طرف قصد (سفر) کر کے جا رہے ہوں (اور وہ) محض اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا مندی چاہتے ہوں) اٰمِّیْنَ کا مطلب ہوتا ہے ” قصد کرنے والے “ یعنی جو لوگ عمرے یا حج کے لیے جا رہے ہیں ‘ ان کو راستہ میں تنگ مت کرنا۔ شعائر اللہ کی تعظیم ہرحال میں لازم ہے وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاطجب تم احرام کھول کر حلال ہوجاؤ تو اب تم شکار کرسکتے ہو کیونکہ حالت احرام میں شکار ممنوع تھا ‘ اب جائز ہے۔ اسی طرح احرام کی وجہ سے جو دوسری پابندیاں تھیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احرام سے نکلنے سے عدل و احسان کی پابندیاں بھی ختم ہوگئیں۔ اس کی وضاحت کے لیے ارشاد فرمایا : وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا م (اور نہ تمہیں اکسائے کسی قوم کی دشمنی کہ تم حد سے تجاوز کرو اس بات پر کہ انھوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا) اس آیت میں مختلف باتیں ہیں کیونکہ یہ سورة غالباً 6 ہجری کے آخر میں یا 7 ہجری کے شروع میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت فراہم کردی تھی اور اس سے قبل کفار نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ زخم بھی ہرا تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ حج کے مہینوں میں عرب جب اپنی عادت کے مطابق عمرہ یا حج کرنے جائیں تو مسلمان یہ سوچیں کہ اگر انھوں نے ہمارے لیے اللہ کے گھر کو ممنوع قرار دے دیا تھا تو ہم بھی انھیں حج نہیں کرنے دیں گے۔ بہت سارے قبائل کا راستہ مکہ جانے کے لیے مدینے کے پاس سے گزرتا تھا۔ اگر مسلمان چاہتے تو بڑی آسانی سے ان کا راستہ بند کرسکتے تھے۔ فرمایا کہ تمہارا اصل کام شعائر اللہ کا احترام ہے ‘ جو خود بھی کرنا ہے اور دوسروں سے بھی کروانا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ شعائر اللہ کا احترام اس قدر ضروری ہے کہ وہ لوگ بھی جو بےدین ہیں ‘ جو اللہ ‘ اس کے رسول اور اللہ کے دین کو نہیں مانتے ‘ ان کی اپنی عبادت (جو کہ بلا شبہ غلط ہے) میں بھی جتنا حصہ شعائر اللہ کا ہے ‘ اس کا احترام ضروری ہے ‘ اس بارے میں قانون شکنی نہیں کرنی یعنی اگر وہ ھدی (قربانی کا جانور) لے کر جا رہے ہیں تو اس میں اتنی بات تو ٹھیک ہے کہ حج کے لیے قربانی کا جانور جانا چاہیے۔ اگر وہ احرام باندھ کر جا رہے ہیں تو یہ اللہ کے سامنے عاجزی کا ایسا ذریعہ ہے جسے تم بھی درست خیال کرتے ہو ‘ اس لیے ان کی کسی ایسی چیز کو نقصان مت پہنچائو۔ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یعنی مسلمان کو ایک طریقہ سکھلایا گیا کہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کا نفاذ ‘ تمہاری زندگی کا اصل مقصد ہے۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ ظاہر ہے تمہارا تمام باتوں میں اتفاق تو نہیں ہوسکتا ‘ لیکن اتنی مخالفت کرو جتنی ضروری ہو۔ ان کی خدا پرستی میں اگرچہ شرک کی آمیزش ہے ‘ اس کی مخالفت شرک کی وجہ سے ہونی چاہیے ‘ نہ کہ خدا پرستی کی وجہ سے۔ اس لیے جتنے خدا پرستی کے اجزاء ان میں موجود ہیں ‘ ان کی عزت و حرمت کا پاس رکھنا تمہارے لیے بھی ضروری ہے۔ جیسے مندر اور گرجے وغیرہ میں وہ جا کر دیوتائوں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو پوجتے ہیں ‘ یہ غلط ہے۔ لیکن یہ مندر اور گرجے بنائے تو اللہ کی یاد کے لیے جاتے ہیں ‘ لہٰذا دیکھنا ! کہیں اس میں ہونے والے شرک سے مشتعل ہو کر انھیں کوئی نقصان مت پہنچانا۔ جو باتیں ان میں درست ہیں ان کی قدر کرو اور ان کو نقصان مت پہنچائو۔ دوسری بات یہ کہی کہ اگر دشمن نے تمہارے ساتھ حد سے تجاوز کر کے ظلم کا راستہ اختیار کیا ہے تو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں ہونا چاہیے۔ برائی کے بدلے میں اگر نیکی کی گنجائش ہے ‘ تو عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں نیکی کرنی چاہیے۔ جیسے اگر انھوں نے تمہیں بیت اللہ سے روکا ہے تو اس کا بدلہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تم بھی انھیں بیت اللہ سے روک دو بلکہ انھیں جانے دو ‘ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارا اخلاق دیکھ کر راہ راست پر آجائیں۔ صرف نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو فرمایا کہ آئندہ زندگی گزارنے کے لیے تمہارے رویے کی بنیاد تعاون پہ ہونی چاہیے۔ تعاون انسانی زندگی کی بقا کے لیے ایک لازمی امر ہے۔ جس زندگی میں تعاون نہیں ہے ‘ وہ زندگی گزر ہی نہیں سکتی۔ جیسے درس قرآن کی مجلس بہت سارے احباب کے تعاون سے وجود میں آتی ہے۔ کسی نے کرسیاں لگائیں ‘ کسی نے لائوڈ سپیکر چلایا ‘ کوئی درس دے رہا ہے ‘ کوئی سن رہا ہے۔ یہ سارا تعاون ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اگر تعاون نہ ہو تو درس ہو ہی نہ پائے۔ کوئی بڑے سے بڑا آدمی چھوٹے سے چھوٹے تعاون سے مستغنی نہیں ہے۔ بادشاہ جو تخت پر براجمان ہے ‘ اس کا تخت بھی کسی بڑھئی نے بنایا ہے۔ انواع و اقسام کے کھانے جن سے وہ لذت حاصل کرتا ہے ‘ وہ کسی کے پکائے بغیر نہیں پکتے۔ ایک دانہ گندم بھی کسان کے علاوہ کئی چیزوں اور کئی افراد کا محتاج ہے۔ فوج ‘ پولیس ‘ اجتماعی ادارے یہ سب تعاون کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن یہی تعاون جب منفی بنیادوں پر اٹھتا ہے تو انسان نہیں بلکہ انسانیت کو پامال کر کے رکھ دیتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگ مل کر ڈاکے ڈالنے کے لیے ایک گروہ بنالیں۔ یہ بھی تعاون کی ایک شکل ہے۔ جس سے ظلم کا دروازہ کھلے گا اور نجانے کہاں تک جائے گا۔ اس لیے اسلام نے کہا کہ ” تعاون تو کرو مگر نیکی اور تقویٰ میں “۔ نیکی کیا ہے ؟ عام آدمی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا کیوں کہ یہ ایک عام لفظ ہے۔ نیکی ” فعل الخیرات “ اچھائیاں کرنے کو کہتے ہیں اور تقوی ” ترک المنکرات “ برائیاں چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ تم تعاون کرونیکیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کی جڑ مارنے میں اور جس تعاون سے اسلام نے روکا ہے وہ یہ ہے ” ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان “ اثم کہتے ہیں ” گناہ اور نافرمانی کرنے کو “ اور عدوان کہتے ہیں ” حد سے گزر جانے کو “ یعنی ظلم کرنے کو۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ ظلم کرو اور نہ گناہ کرو۔ گناہ بجائے خود انسانیت کے لیے داغ ہے اگر اس میں تعاون کیا جائے تو اس کے نقصانات کی وسعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ظلم میں تعاون نہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کی نوکری کو ہمارے علماء سلف نے حرام قرار دیا ہے۔ منصور نے امام ابوحنیفہ ( رح) کو کہا تھا کہ میں اپنے بعد سلطنت کا دوسرا بڑا عہدہ آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ آپ کو چیف جسٹس بناتا ہوں ‘ میرا حکم بھی آپ کی مہر کے بغیر نہیں چلے گا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ مجھے نہیں چاہیے۔ اس نے اصرار کیا ‘ لیکن امام صاحب نہ مانے ‘ حتیٰ کہ اس نے قسم کھالی کہ آپ کو یہ عہدہ ضرور قبول کرنا ہوگا۔ آپ نے بھی جواباً قسم اٹھائی کہ میں اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عقل سے کام لو امیر المؤمنین کے مقابلے میں قسم کھاتے ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ مجھ سے زیادہ آسانی سے کفارہ دے سکتے ہیں۔ بالآخر منصور نے انھیں قید میں ڈال دیا حتیٰ کہ زہر دے کر مار ڈالا۔ لیکن امام صاحب نے اس کا عہدہ قضاء قبول نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کا کوئی حکم میری مہر کے بغیر نہیں چلے گا اور وہ ظلم کا حکم دے گا ‘ مجھے مجبوراً مہر لگانی پڑے گی اور اس طرح میں بھی ظلم میں شریک ہوجاؤں گا۔ امام صاحب نے فرمایا تھا کہ امیر المؤمنین آپ اس بات کو سمجھیں ‘ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی کے ناحق قتل کا حکم دیں اور میں اس پر مہر لگا دوں۔ آپ اس کے لیے اگر مجھے دجلہ میں ڈبونے کا حکم دیں گے ‘ تو میں ڈوبنا پسند کروں گا لیکن اس ظلم کا حصہ نہیں بنوں گا۔ حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد تو یہاں تک ہے کہ اگر کوئی آدمی ظلم کی تقویت کا باعث بنایا ظالم کے ساتھ چلا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بلائے گا (ظالم کو بھی اور ان کا ساتھ دینے والوں کو بھی اور جنھوں نے قلم دوات بھی تیار کی انھیں بھی بلائے گا) اور تابوت میں بند کر کے ان سب کو جہنم میں پھینک دے گا۔ اندازہ کریں کہ ظلم کا ساتھ دینے کا معنی کیا ہے اور ہم ظلم کا کس کس طرح ساتھ دے رہے ہیں ؟ ” وَاتَّقُوْ اللہ َ اِنَّ اللہ َ شَدِیْدُ الْعِقَابْ “ ہوسکتا ہے کہ تم دنیا میں تو ظلم کر کے آرام سے بیٹھ جاؤ ‘ لیکن یہ خیال رکھنا کہ ایک بہت بڑی ذات تمہاری نگران ہے ‘ اس کے سامنے جواب دہی کی تیاری کرنا ‘ وہ بڑا سخت عذاب دینے والی ہے۔
Top