Madarik-ut-Tanzil - Al-Qasas : 8
فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا١ؕ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِئِیْنَ
فَالْتَقَطَهٗٓ : پھر اٹھا لیا اسے اٰلُ فِرْعَوْنَ : فرعون کے گھر والے لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لَهُمْ : ان کے لیے عَدُوًّا : دشمن وَّحَزَنًا : اور غم کا باعث اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَجُنُوْدَهُمَا : اور ان کے لشکر كَانُوْا : تھے خٰطِئِيْنَ : خطا کار (جمع)
تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اٹھا لیا اس لئے کہ (نتیجہ یہ ہونا تھا کہ) وہ ان کا دشمن اور (انکے لئے موجب) غم ہو بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر چوک گئے
8: فَالْتَقَطَہٗٗ آلُ فِرْعَوْنَ (فرعون کے لوگوں نے موسیٰ کو اٹھا لیا) لے لیا۔ قولِ زجاج۔ : فرعون اصطخر کا رہنے والا فارسی تھا۔ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا (تاکہ وہ ان کا دشمن بن جائے) ۔ یعنی تاکہ معاملہ یہاں تک پہنچے۔ یہ مراد نہیں کہ انہوں نے اس مقصد کی خاطر اٹھایا۔ جیسا کہتے ہیں۔ للموت ماتلد الوالدۃ۔ ماں موت کے لئے جنتی ہے۔ حالانکہ ماں نے تو موت کے لئے نہیں جنا لیکن انجام تو موت ہی ہے۔ زجاج : نے اسی طرح کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے اس لام کو لام عاقبت وصیرورت کے نام سے موسوم کیا ہے۔ صاحب ِکشاف (رح) کا قول : یہ لام کَیْ ہے جو تعلیل کا معنی دیتی ہے۔ جیسا کہتے ہیں۔ جئتک لتکرمنی۔ میں تیرے پاس آیا تاکہ تو میرا اکرام کرے۔ مگر اس میں تعلیل کا معنی بطور مجاز وارد کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب ان کے اٹھانے کا یہ نتیجہ نکلا تو اس فعل کو داعی کے اس فعل سے تشبیہ دی۔ وہ داعی کہ فاعل اپنا فعل اس کی خاطر کرلے۔ اور وہ اکرام ہے جو کہ تشریف آوری کا ہی نتیجہ ہے۔ وَحَزَنًا (اور غم کا باعث) ۔ علی و حمزہ نے حُزنًا پڑھا ہے۔ دیگر نے حَزَنًا۔ یہ دونوں لغات ہیں۔ اس کی نظیر العُدْم اور العَدَم ہے۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا کَانُوْا خٰطِپیْنَ (بیشک فرعون ٗ ہامان اور ان کا لشکر غلطی کرنے والے تھے) ۔ خاطئین تخفیف کے ساتھ ابوجعفر نے پڑھا۔ ای کانوا مذنبین وہ گناہ گار تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی۔ کہ میرا رب ان کا دشمن تھا۔ اور وہ بھی جو ان کے سامنے ہلاک ہونے کا سبب بنے۔ نمبر 2۔ وہ ہر چیز میں خطا کرنے والے تھے۔ اپنے دشمن کی تربیت کرنا یہ ان کی کوئی پہلی غلطی نہ تھی۔
Top