Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 8
فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا١ؕ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِئِیْنَ
فَالْتَقَطَهٗٓ : پھر اٹھا لیا اسے اٰلُ فِرْعَوْنَ : فرعون کے گھر والے لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لَهُمْ : ان کے لیے عَدُوًّا : دشمن وَّحَزَنًا : اور غم کا باعث اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَجُنُوْدَهُمَا : اور ان کے لشکر كَانُوْا : تھے خٰطِئِيْنَ : خطا کار (جمع)
تو فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھا لیا، تاکہ آخر ان کے لیے دشمن ہو اور غم کا باعث ہو۔ بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔
فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ : ”اِلْتَقَطَ“ کا معنی ہے کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا۔ اُمّ موسیٰ کا گھر دریائے نیل کے کنارے پر فرعون کے محل کے بالائی جانب تھا۔ انھوں نے موسیٰ ؑ کو ایک صندوق میں بند کر کے اسے پانی سے محفوظ بنا کر دریا میں ڈال دیا، جو بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا، اس کے لوگوں نے اسے دیکھا تو دریا سے نکال کر فرعون کے پاس لے آئے۔ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا : اس ”لام“ کو اکثر مفسرین ”لام عاقبت“ کہتے ہیں، یعنی آل فرعون کے اسے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے غم کا باعث بنے۔ مگر اسے لام تعلیل بھی بنا سکتے ہیں، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تھی کہ آل فرعون نے اسے اٹھا لیا، تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم بنے۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ۔۔ :”خٰطِـــــِٕيْنَ“ ”أَخْطَأَ یُخْطِئُ“ (افعال) کا معنی ہے بھول کر خطا کرنا اور ”خَطِئَ یَخْطَأُ“ (ع) کا معنی ہے جان بوجھ کر گناہ کرنا، جیسا کہ فرمایا : (نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ) [ العلق : 16 ] ”پیشانی کے ان بالوں کے ساتھ جو جھوٹے ہیں، خطا کار ہیں۔“ اس کا مصدر ”خِطْأٌ“ (خاء کے کسرے کے ساتھ) ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا) [ بني إسرائیل : 31 ] ”بیشک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔“ اور سورة یوسف میں ہے : (اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ) [ یوسف : 29 ] ”یقیناً تو ہی خطا کاروں سے تھی۔“ ”اِنَّ“ کے ساتھ عموماً پہلی بات کی علت بیان کی جاتی ہے، یعنی موسیٰ ؑ ان کے لیے دشمن اور باعث غم کیوں بننے والے تھے ؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطاکار تھے، جنھوں نے ہزاروں بچوں کو ذبح کردیا اور بنی اسرائیل پر بےپناہ ظلم کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی کے پروردہ کو ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنادیا۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ ”چوکنے والے“ کیا ہے، مگر ”خَاطِئٌ“ کا لغوی معنی اس ترجمے کا ساتھ نہیں دیتا۔
Top