Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 8
فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا١ؕ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِئِیْنَ
فَالْتَقَطَهٗٓ : پھر اٹھا لیا اسے اٰلُ فِرْعَوْنَ : فرعون کے گھر والے لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لَهُمْ : ان کے لیے عَدُوًّا : دشمن وَّحَزَنًا : اور غم کا باعث اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَجُنُوْدَهُمَا : اور ان کے لشکر كَانُوْا : تھے خٰطِئِيْنَ : خطا کار (جمع)
تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اٹھا لیا اس لئے کہ (نتیجہ یہ ہونا تھا کہ) وہ ان کا دشمن اور (انکے لئے موجب) غم ہو بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر چوک گئے
8 تا 9۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا مکان دریائے نیل کے کنارہ پر تھا ان کی ماں نے ایک صندوق بنایا اور اس میں بچھونا بچھایا اب فرعونیوں کے خوف سے دودھ پلانے کے بعد بچہ کو اس صندوق میں ڈال کر صندوق کو دریا میں چھوڑ دیاوہ بہ گیا یہاں تک کہ فرعون کے محل کے نیچے سے وہ صندوق گزرا لونڈیوں نے اس کو اٹھا کر حضرت آسیہ ؓ کے پاس پہنچا یا ان کو خبر نہ تھی کہ اس میں کیا ہے کھولا تو ایک لڑکا تھا اس کی محبت خدا نے حضرت آسیہ ؓ کے دل میں ڈالی یہ اس واسطے کہ خدا نے آسیہ ؓ کو نیک بخت اور فرعون کو بدبخت بنانے کا ارادہ کیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے مار ڈالنے کا ارادہ کیا مگر حضرت آسیہ ؓ نے فرعون کو اس ارادہ سے روکا اور کہا کہ یہ لڑکا میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے فرعون نے کہا تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میری نہیں فرعون سے یہ بات اللہ تعالیٰ نے کہلوائی کیوں کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوا کہ خدا نے موسیٰ ( علیہ السلام) کے سبب سے حضرت آسیہ کو ہدایت دی اور فرعون مردود کو ہلاک کیا حضرت آسیہ ؓ نے یہ بھی کہا کہ ہم اس لڑکے کو لے پالک بیٹا بنالیں گے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کی خبر اس کو نہ تھی۔ لیکون لھم عدوا وحزنا کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ دین کی باتوں میں تو موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور فرعونیوں کے دشمن تھے اور دنیا میں فرعون اور فرعونیوں کی بربادی کا سبب تھے یہی مطلب آیت کے اس ٹکڑے کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق قصہ کے انجام کے طور پر بڑھا کر آخر میں وھم لایشعون فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کو اس انجام کی خبر نہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ لوگ فرعون کا لے پالک بیٹا جان کر یہ خیال جو کرتے ہیں کہ فرعونی بادشاہت کو موسیٰ (علیہ السلام) کے سبب سے کچھ مدد پہنچے گی ان لوگوں کا یہ خیال اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) کے سبب سے فرعونی بادشاہت برباد ہو کر مصر سے فرعون پرستی بالکل جاتی رہے گی۔ کانو خاطیٔن کا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) بڑھ کر انہی لوگوں کے طریقہ پر رہیں گے یہ خیال بھی غلط ہے موسیٰ (علیہ السلام) تو بڑھ کر مصر کو فرعون پرستی سے بالکل صاف وپاک کردیں گے۔ سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ انسان کو غیب کا علم نہیں ہے اس لیے انسان بعض باتوں کو اپنے حق میں اچھا جانتا ہے لیکن علم الٰہی میں وہ باتیں اس کے حق میں اچھی نہیں ہوتیں یہی حاصل موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کہ قصہ کا ہے کہ فرعونی لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کا لے پالک بیٹا جان کر جن اچھے خیالوں میں لگے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ان کے وہ خیالات بےاصل تھے۔ معتبر سند سے مسند امام احمدمسند بزار اور مسند ابی یعلی میں ابو سعید ؓ خدری سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی ایمان دار شخص کسی بات کو اپنے حق میں اچھا جان کر اللہ تعالیٰ سے اس بات کے پورے ہوجانے کی دعاء کرتا ہے اور علم الٰہی میں وہ بات اس شخص کے حق میں اچھی نہیں ہوتی تو بجائے اس کے پوری ہونے کے کوئی برائی اس شخص پر جو آنے والی تھی وہ ٹل جاتی ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ فرعونی لوگ اللہ کو نہیں پہچانتے تھے بلکہ فرعون کو اپنا معبود جانتے تھے اس واسطے ان کے دلی خیالات بھی پورے نہیں ہوئے اور خیالات کے پورے نہ ہونے کے عوض میں ڈوب کر مرنے کی برائی جو ان لوگوں پر آنے والی تھی وہ بھی ان کے سر پر سے نہ ٹلی مگر ایماندار لوگوں پر اللہ کی یہ رحمت ہے کہ ان کی کوئی خواہش ان کے حق میں اچھی نہیں ہوتی تو بجائے اپنی خواہش کے پورے ہونے کے کوئی آفت ان کے سر پر سے ٹل جاتی ہے۔ (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 478 ج 2۔ باب الترغیب فی کثرۃ الدعاء الخ )
Top