Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 111
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى١ؕ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَنْ : ہرگز يَّضُرُّوْكُمْ : نہ بگاڑ سکیں گے تمہارا اِلَّآ : سوائے اَذًى : ستانا وَاِنْ : اور اگر يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے يُوَلُّوْكُمُ : وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد نہ ہوگی
اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مدد بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی
111: لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ ٓاذًی ط وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَایُنْصَرُوْنَ ۔ (وہ ہرگز تمہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ مگر معمولی) یعنی تھوڑی تکلیف جو زبانی طور پر دین میں طعن کرنے کی حد تک ہو۔ یا اسی طرح کی دوسری تکلیف دھمکی وغیرہ۔ وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْ کُمُ الْاَدْبَارَ (اگر وہ تم سے لڑ پڑیں تو پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں) یعنی شکست کھا کر۔ وہ تمہیں قتل و قید کا نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ ثُمَّ لَایُنْصَرُوْنَ (پھر انکی مدد نہ کی جائیگی) پھر ان کو کسی طرف سے مدد نہ ملے گی اور نہ تم سے بچا سکیں گے۔ اس میں ان لوگوں کیلئے جو ایمان قبول کرنے والے ہیں تسلی دی۔ کیونکہ ان کو یہود ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے۔ نحو : یہ جملہ ابتدائیہ ہے اس کا عطف جملہ شرطیہ پر ہے۔ یُوَلُّوْکُمُ پر عطف نہیں اگر اس پر عطف ہوتا تو عبارت اس طرح ہوتی ثُمَّ لَایُنْصَرُوْا۔ نکتہ : یہ جملہ مستانفہ لائے تاکہ اعلان کردیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کسی صورت میں مدد نہ کریں گے خواہ وہ لڑیں یا نہ لڑیں تقدیر کلام اس طرح ہے : اُخْبرکم انہم اِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ ینھز موا ثُم اخبرکم انہم لَایُنْصَرُوْنَ ۔ میں تمہیں بتلا رہا ہوں کہ اگر وہ تم سے لڑائی کرینگے تو شکست کھا جائیں گے پھر میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ انکی مدد نہ کی جائیگی۔ ثُمَّ : رتبہ میں تراخی کیلئے استعمال ہوا ہے کیونکہ ان پر رسوائی کا مسلط ہونا ان کے پیٹھ پھیر کر بھاگنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔
Top