Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 111
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى١ؕ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَنْ : ہرگز يَّضُرُّوْكُمْ : نہ بگاڑ سکیں گے تمہارا اِلَّآ : سوائے اَذًى : ستانا وَاِنْ : اور اگر يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے يُوَلُّوْكُمُ : وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد نہ ہوگی
یہ لوگ معمولی تکلیف 101 پہنچانے کے سوا تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اگر یہ لوگ تم سے جنگ کریں تو دم دبا کر بھاگ نکلیں گے پھر انہیں کہیں سے بھی مدد نہ مل سکے گی
101 یعنی گالی دینا، برا بھلا کہنا، تمہارے خلاف سازشیں اور غلط پراپیگنڈا اور ستانے کے دوسرے کام ہی کرسکتے ہیں، اور ایسے کام عموماً ذہنی طور پر ہزیمت خوردہ فریق ہی کرتا ہے۔ رہا جوان مردوں کی طرح مقابلے میں آنا تو اس بات کی ان میں سکت ہی نہیں اور اگر کریں گے تو بری طرح پٹ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اور اس وقت منافق بھی ان کی کچھ مدد نہ کرسکیں گے، جو ان سے ساز باز کرتے اور مدد کو پہنچنے کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اہل کتاب کے حق میں یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ سب سے پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جلاوطن کیا گیا۔ پھر بنو نضیر کو، پھر بنو قریظہ کی باری آئی تو وہ قتل کیے گئے اور لونڈی غلام بنائے گئے، پھر خیبر میں زک اٹھائی تو مزارعہ کی حیثیت سے رہے اور بالآخر حضرت عمر ؓ نے انہیں وہاں سے نکال دیا اور نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے لگے۔ غرض ہر میدان میں ان لوگوں نے زک اٹھائی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ پھر کیا ان کے حق میں یہ بات بہتر نہ تھی کہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزارتے اور مسلمانوں کے جملہ حقوق میں برابر کے حصہ دار بن جاتے۔
Top