Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
پس آپ ﷺ اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے ذمہ دار نہیں، البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے ابھارو، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے
جہاد اور اس کی ترغیب تشریح : غزوہ احد میں ابوسفیان ؓ کے ساتھ عہدہوا تھا کہ ذیعقدہ میں بدر صغر ٰی میں جنگ کی جائے گی۔ تب نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو جہاد پر جانے کو کہا مگر لوگوں نے ٹال مٹول کیا۔ تب اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ اے نبی ! آپ خود ہی جہاد کے لیے نکل جائیں لوگوں کو کہیں ضرور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ٹھیک ہے آپ نے تو اپناہی حساب کتاب دینا ہے وہ خود اپنے ذمہ دار ہیں پھر فرمایا کہ آپ بالکل گھبرائیں نہیں ہوسکتا ہے کہ ہم ان کی جنگ کو ہی روک دیں اللہ رب نے اپنی مدد اور قوت کا وعدہ کیا اور فرمایا کہ اللہ رب العزت جنگ میں بھی شدید ہے اور سزا دینے میں بھی شدید ہے، لہٰذا فتح آپ کی ہی ہوگی اور انکار کرنے والوں کو سزا ضرور بھگتنا پڑے گی۔ پھر سفارش کی حقیقت بتائی جارہی ہے کہ نیک کام اور نیک مقصد کیلئے اگر کوئی سفارش کرے تو اس کو نیکی کا حصہ ملے گا لیکن اگر برے کام، برے مقصد اور برے شخص کے لیے سفارش کی جائے تو سفارش کرنے والا گناہ میں برابر کا حصہ دار ہوگا۔ یہ تمام معاملات اللہ رب العزت کی نظر سے ہرگز چھپے ہوئے نہیں وہ تو ہر پل اور ہر دل کا حال اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے خبرداررہنا چاہئے۔
Top