Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو کج نہ کر بعد اس کے کہ تو ہمیں سیدھی راہ دکھا چکا اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا کر،22 ۔ بیشک تو ہی بڑا عطا کرنے والا ہے،23 ۔
22 ۔ یعنی ہم کو اس صراط مستقیم پر قائم رکھ اور ہمارا حال کہیں یہود ونصاری کا سانہ ہوجائے، جو کتاب ونبوت کے بھی بھی گمراہ ہوگئے، یہ ساری دعا (آیت) ” الرسخون فی العلم “ کی زبان سے ہے۔ یعنی علم دین میں پختہ کاروں کی زبان سے، یہ لوگ اپنے رسوخ فی العلم اور پختہ کاری پر نازاں نہیں ہوتے بلکہ اس نعمت کے زوال سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” من لدنک رحمۃ “۔ انہیں خود اپنے کسی عمل پر نازیا دعوی نہیں ہوتا۔ یہ نہیں کہتے کہ ہمارے حسن عمل کے انعام میں راہ راست پر قائم رکھ بلکہ کہتے ہیں کہ محض اپنے فضل وکرم لطف و عنایت سے راہ ہدایت پر مستقیم رکھ۔ ای من عندک ومن قبلک فضلا لا عن سبب بین ولا عمل (قرطبی) گویا اس میں ادب دعا کی تعلیم بھی آگئی۔ (آیت) ” رحمۃ “ کا صیغہ نکرہ اس کی عظمت اور بڑائی کے لیے ہے۔ وتنوینہ للتتفخیم ‘(روح) 23 ۔ (تو ایسے کے لیے اس درخواست کا قبول کرلینا مشکل کیا ہے) مفسر قرطبی نے کہا ہے کہ جاہل صوفیہ اور باطنیہ زنادقہ نے اس آیت سے یہ من گھڑت مسئلہ نکالا ہے کہ علم وہی ہے جو اللہ کی طرف سے محض وہبی ہو، کسبی نہ ہو اور علم کتابی حجاب کے حکم میں ہے۔
Top