Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
(اور وہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب، پھیر نہ دینا ہمارے دلوں کو (راہ حق و صواب سے) اس کے بعد کہ تو (اپنے کرم سے) ہمیں نواز چکا ہے (حق و) ہدایت (کی دولت) سے اور عطا فرما دے ہمیں اپنی طرف سے رحمت بیشک تو (اے ہمارے مالک ! ) بڑا ہی بخشنے والا (سب کچھ عطا کرنے والا) ہے،3
16 وہّاب کا معنی و مفہوم ؟ : یعنی " الوھاب " چونکہ مبالغے کا صیغہ ہے، اس لئے اس کا مفاد یہ ہے کہ وہ سب کچھ بخشنے والا، ہر کسی کو بخشنے والا، اور بےحد و حساب عطاء کرنے والا ہے۔ اور اس کی بخشش وعطاء کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک لمحہ کے اندر اس کی نعمتوں کے جس قدر خزانے تقسیم ہو رہے ہیں، ان کی بھی نہ کوئی حد ہے نہ حساب۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نیز چونکہ یہاں پر مبتداء و خبر دونوں معرفہ ہیں، اس لئے اس میں حصر کا معنی پیدا ہوگیا کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ملتا ہے، جو وہ محض اپنی رحمت و عنایت سے عطا فرماتا ہے۔ جل و علاشانہ ۔ واضح رہے کہ اسی لفظِ " وہاب " کے ساتھ جو کہ اللہ پاک کی ایک عظیم الشان صفت ہے یائے نسبت لگانے سے لفظ " وہابی " بنتا ہے جس کو اہل بدعت اہل حق کے خلاف طعن وتشنیع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایک عظیم الشان شرف ہے، کہ اس کے معنی ہیں وہّاب والا، یعنی " اللہ والا "، مگر اہل بدعت چونکہ اس کو بری نیت سے اور اہل حق کے خلاف طعن و تشینع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس لئے وہ دوہرا نقصان اٹھاتے ہیں کہ اس طرح ایک طرف تو یہ لوگ لاشعوری طور پر حضرات اہل حق کی حقانیت کا اقرار کرتے، اور ان کو یہ لوگ خود " اللہ والا " قرار دیتے ہیں، اور دوسرا نقصان وہ اس طرح اٹھاتے ہیں کہ چونکہ وہ " وہابی " کے اس لفظ کو طعن وتشنیع کیلئے استعمال کرتے ہیں، اس لئے اس طرح وہ اپنی محرومی اور بدنصیبی کو اور پکا کرتے جاتے ہیں۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے شرک و بدعت کی نحوست کا کہ اس سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے، اور اس کی کھوپڑی الٹی اور اوندھی ہوجاتی ہے جس سے وہ سیدھی بات کو بھی الٹا دیکھنے لگتا ہے اور راہ حق و ہدایت سے بہک اور بھٹک کر کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top