Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ تو نہایت بخشنے والا ہے
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْـکَ رَحْمَۃً ج اِنَّـکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ۔ رَبَّنَـآ اِنَّـکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ۔ ع (اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ تو نہایت بخشنے والا ہے۔ اور ہمارے پروردگار ! تو یقینا سب لوگوں کو ایک ایسے دن میں جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا) (8 تا 9) راسخین فی العلم کی دعا یہ ان لوگوں کی دعا ہے جنھیں اللہ نے علم میں رسوخ عطا فرمایا ہے اور جن کی فکر میں پختگی پیدا فرمائی ہے۔ وہ چونکہ علم کی حدود سے آشنا ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جب خواہشاتِ نفس کا عقل پہ غلبہ ہوجاتا ہے تو پھر عقل اللہ کی بہت بڑی نعمت ہونے کے باوجود خواہشات کی ایجنٹ بن جاتی ہے۔ نفس کی حکمرانی ہوجاتی ہے اور دل آہستہ آہستہ موت کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ کش مکش ہے جو انسانی قلب و دماغ میں کجی کا باعث بنتی ہے۔ جس آدمی نے اپنے دل میں ایمان و یقین کی شمع روشن کرلی اور پھر اس میں اللہ کی توفیق سے اسے بجھنے سے محفوظ رکھا تو کج فکری کے ہزار حملوں میں بھی محفوظ رہتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سلامتیِ فکر اور ایمان کی صحت کے لیے اپنے اللہ سے دعا مانگتا رہے۔ وہ بجائے خود پر اعتماد کرنے کے اللہ سے توفیق مانگے۔ اللہ کی عطا کردہ ہدایت کو حقیقی سرمایہ سمجھے اور اس کی حفاظت کے لیے اللہ سے اس طرح مدد کا طلبگار ہو جس طرح اس آیت کریمہ میں تعلیم دی گئی ہے۔ آدمی اپنی ذات کی مکمل نفی کر دے اور اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر نہایت عاجزی سے عرض کرے کہ یا اللہ ! دل و دماغ تیرے قبضے میں ہیں۔ میں نہایت کمزور آدمی ہوں۔ میری کاوشیں کج فکری کے حملوں میں کہیں ناکام نہ ہوجائیں۔ الٰہی ! اپنی طرف سے رحمت کی کمک بھیج تاکہ نہایت نازک مواقع میں بھی میرے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور پھر دوسری آیت کریمہ میں اس عقیدے میں پختگی مانگی ہے جو عقیدہ آدمی کو ہر طرح کے نازک لمحات میں محفوظ رکھتا ہے وہ عقیدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ پر یقین رکھے کہ وہ ایک نہ ایک دن قیامت برپا کرے گا اور جس کے برپا ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ وہاں وہ سب لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں بلائے گا۔ ایک ایک حساب کے مرحلے سے گزرے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اللہ نے جن و انس سے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ چونکہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتا اس لیے قیامت کا آنا اور جزاء و سزا کا واقع ہونا ایک لازمی حقیقت ہے۔ وہ اس یقین کی پختگی کے لیے اللہ سے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ میں خواہشات کے ہجوم اور لادینیت کے دبائو میں راہ راست پر اس وقت تک کھڑا رہ سکتا ہوں جب تک آخرت کا یقین مجھے سہارا دے۔ میرے دل و دماغ میں یہ بات اتر جائے کہ میرا ایک ایک عمل اللہ کی نگاہوں میں ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کے نتیجے میں میں پھونک پھونک کر قدم رکھوں گا اور یہی وہ قوت ہے جس کے سہارے سے میں بڑے سے بڑے بہلاوے اور لالچ کا مقابلہ کرسکوں گا۔ میرے پروردگار ! دل و دماغ میں یہ یقین کی قوت پیدا کرنے والا صرف تو ہے اس لیے میں تیرے دروازے پر اسی دولت کے لیے بھکاری بن کر آیا ہوں تو میرے دامن کو اس دولت سے بھر دے۔
Top