Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جو لوگ کافر ہوئے ان کے حق میں تمہارا (اے محبوب) ڈرانا یا نہ ڈرانا (دونوں) برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے
کفر کی چار اقسام : علماء نے کفر کی چار قسمیں بیان کی ہیں : ایک کفر جیسا فرعون کا کفر تھا کہ وہ اللہ کی ذات کا ہی دل و زبان دونوں سے منکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کو دل سے ماننا زبان سے اقرار نہ کرنا جیسے ابلیس کا کفر۔ دل و زبان دونوں سے خدا کو ماننا لیکن اس کا حکم نہ ماننا جیسے ابو طالب اور اہل کتاب کفر۔ کفر منافقوں کا کہ زبان سے سب کچھ کہنا اور دل میں کچھ نہیں۔ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں جن لوگوں کا حالت کفر میں مرنا ٹھہر چکا ہے، ان کے دلوں میں حق بات کے سمجھنے کی اور ان کے کانوں میں حق بات کے سننے کی کچھ گنجائش نہیں اور نبی کے معجزات دیکھنے سے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ترمذی اور نسائی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی شام سے ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے۔ اگر اس گناہ سے اس نے توبہ کرلی اور آئندہ گناہوں سے باز رہا تو وہ داغ مٹ گیا اور دل صاف ہوگیا، ورنہ یہ داغ روز بروز بڑھتے بڑھتے تمام دل کو گھیر لیتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے آیت کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون میں ران سے (دل کا زنگ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب گناہ کی شامت سے دلوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو کفر کی شامت سے دلوں کا یہی حال ہونا چاہیے کہ اللہ کی طرف سے ان پر مہر لگ گئی ہے۔ نہ ایمان ان میں سما سکتا ہے، نہ کفر ان میں سے نکل سکتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔
Top