Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
اے ہمارے رب ! ہمیں سیدھے راستے پر لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما یقینا تو ہی (بخشش) عطا کرنے والا ہے
صاحب عقل لوگوں کی صدائے حال اس طرح ہوتی ہے : 23: مطلب یہ ہے کہ صاحب عقل لوگ اپنے رب سے اس طرح پکار پکار کر دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم کو اس راہ مستقیم پر قائم رکھ اور ہمارا حال بھی یہودو نصاریٰ کا سانہ ہوجائے جو کتاب و نبوت کے بعد گمراہ ہوگئے اور متشابہات میں ہی الجھ کر رہ گئے۔ یہ ساری دعا اور اسی طرح کی دوسری دعائیں الراسخون فی العلم ہی کی زبانوں سے نکلتی ہیں جو دعا کرتے وقت بھی سمجھ سوچ کر دعا کرتے ہیں اندھے بہرے ہو کر دعا نہیں کرتے۔ جن کے دل اس حقیقت پر یقین کر گئے ہیں ان کے دلوں میں یہ دعائیں اٹھ کر زبان سے جاری ہوجاتی ہیں اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ علم دین میں پختہ کاروں کی زبان سے نکل رہی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ اپنے رسوخ فی العلم اور پختہ کاری پر نازاں نہیں ہوتے بلکہ اس نعمت کے زوال سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں۔ انہیں خود انپے کسی علم پر نازیا دعویٰ نہیں ہوتا۔ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں ہمارے حسن عمل کے انعام میں راہ راست پر قائم رکھ بلکہ کہتے ہیں کہ محض اپنے فضل و کرم سے اور لطف و عنایت سے راہ راست پر مستقیم رکھ اور یہی ادب دعا ہے جس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں۔ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 00191 رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ 1ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ 00192 رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا 1ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ00193 رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ 1ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ 00194 (آل عمران) ” وہ ارباب عقل و دانش جو کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ، کھڑے ہوں۔ بیٹھے ہوں۔ لیٹے ہوں۔ ہر حال میں اللہ کی یاد ان کے دلوں میں بسی ہوتی ہے۔ جس کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی خلقت میں غورو فکر کرتے ہیں اور وہ پکار اٹھتے ہیں کہ خدایا ! یہ سب کچھ جو تو نے پیدا کیا ہے بلاشبہ بیکار و عبث نہیں پیدا فرمایا۔ یقیناً تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک بیکار کام اس صادر ہو۔ خدایا ! ہمیں عذاب آتش سے بچا لیجیو۔ اے اللہ ! اے ہمارے رب ! جس بدبخت کے لیے ایسا ہوا کہ تو نے اسے دوزخ میں ڈال دیا تو بلاشبہ تو نے اسے بڑی ہی خواری میں ڈالا یعنی یقیناً وہ بڑی ہی خرابی میں گر پڑا اور جس دن ایسا ہوگا تو اس دن ظلم کرنے والوں کے لیے کوئی مدد گار نہ ہوگا۔ “ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی منادی سنی جو ایمان کی طرف بلا رہا تھا وہ کہه رہا تھا کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور ایمان لے آئے۔ پس اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے ہماری برائیاں مٹا دے اور اپنے فضل و کرم سے ایسا کر کہ ہماری موت نیک کرداروں کے ساتھ ہو۔ ” الوہاب “ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یعنی ” عطا کرنے والا “ : 24: ” ھبہ “ کے معنی ہیں اپنی ملک بغیر عوض کے غیر کو دے دینا (غ) وھاب یعنی ہر ایک کو بقدر استحقاق دینے والا۔ جس سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوگئی کہ اللہ کی ذات ہی اس کی مستحق ہے کہ اس سے دعا کی جائے اس لیے کہ عطا کرنے والا صرف اور صرف وہی ہے۔ کیونکہ ہر ایک چیز کا مالک بھی وہی ہے اور مالک ہی کو حق ہے کہ وہ جس کو چاہے عطا کر دے ، رزق دینا ، صحت دینا بھی اسی سے خاص ہے اور خصوصاً دلوں کی کجی کو دور فرما کر ہدایت کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ نبی کریم ﷺ کے دل میں اپنی امت کے لیے اس قدر رحمت جوش مارتی تھی کہ ان کی تعلیم کے لیے آپ ﷺ اس دعا کو بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ چناچہ سیدہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ : عععان النبی ﷺ کان یقول یا مقلب القلوب تبث قلبی علی دینک ثم قراء رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً 1ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ 00 رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر مضبوط رکھ پھر آپ ﷺ یہ دعاپڑھتے : رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا الخ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی نسبت بھی روایت ہے کہ آپ سورة فاتحہ کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اس میں ایک مؤمن کو سکھایا گیا ہے کہ اپنے نفس پر بھروسہ نہ کرے بلکہ ہر حال میں اپنے رب ذوالجلال کی مدد کا طالب ہو۔
Top