Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
اے پروردگار ! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کردیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما۔ تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے
آیت نمبر : 8۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا لا تزغ قلوبنا اس کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام ہے یقولون وہ کہتے ہیں اور یہ راسخین کی جانب سے بطور حکایت ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ معنی اس طرح ہو قل یا محمد ﷺ (اے محمد ﷺ آپ کہئے) اور کہا جاتا ہے : ازاغۃ القلب (دل کو ٹیڑھا کرنے) سے مراد فساد برپا کرنا اور دین سے اعراض برتنا ہے کیا وہ خوفزدہ ہو رہے تھے حالانکہ انہیں ہدایت دے دی گئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں فساد کی طرف منتقل کر دے گا ؟ تو جواب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انکی راہنمائی فرما دی تو وہ یہ التجا کرنے لگے کہ وہ انہیں اعمال میں سے کسی ایسے عمل کے ساتھ نہ آزمائے جوان پر ثقیل اور بھاری ہو اور وہ اس سے عاجز آجائیں، جیسا کہ ارشاد ہے : (آیت) ” ولو انا کتبنا علیھم ان اقتلوا انفسکم اواخرجوا من دیارکم “۔ (النسائ : 66) ترجمہ : اور اگر ہم فرض کردیتے ان پر کہ قتل کرو اپنے آپ کو یا نکل جاؤ اپنے اپنے گھروں سے۔ ابن کسان نے کہا ہے : انہوں نے التجا کی کہ وہ ٹیڑھے نہ ہوجائیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دے، جیسے یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم “۔ (الصف : 5) ترجمہ : پس جب انہوں نے کجروی اختیار کی تو اللہ نے بھی انکے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ یعنی تو ہمیں اپنی ہدایت پر ثابت قدم رکھ جب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمادی ہے اور یہ کہ ہم ٹیڑھے نہ ہوجائیں کہ ہم مستحق بن جائیں کہ تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا کر دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ماقبل کلام سے منقطع ہے اور وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل الزیغ (ٹیڑھا ہونے والے) کا ذکر کیا تو اس کے پیچھے اسے لائے کہ اس کے ساتھ اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ سے مانگنے کی دعا سکھائی کہ وہ اس برے گروہ میں سے نہ ہوجائیں جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور وہ اہل زیغ ہیں۔ اور المؤطا میں حضرت ابو عبداللہ الصنابحی سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں مدینہ طیبہ میں حاضر ہوا اور مغرب کی نماز آپ کے پیچھے ادا کی، تو آپ نے پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ قصار مفصل میں سے ایک سورت کی قرات کی، پھر جب تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو میں آپ کے اتنا قریب تھا کہ میرے کپڑے آپ کے کپڑوں کے ساتھ مس کرنے کے قریب ہوگئے تو میں نے آپ کو سورة فاتحہ کے ساتھ یہ آیت (آیت) ” ربنا لا تزغ قلوبنا “۔ الآیہ پڑھتے ہوئے سنا (1) (موطا امام مالک، کتاب الصلوۃ صفحہ 63، وزارت تعلیم، اسلام آباد) علماء نے کہا ہے : آپ کا یہ آیت پڑھنا قنوت اور دعا کی ایک قسم ہے کیونکہ آپ کے دور میں مرتدین کا معاملہ (خاصا پریشان کن) تھا اور اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک مغرب کی نماز میں قنوت پڑھنا جائز ہے اور ہر نماز میں جب مسلمانوں پر ایسا شدید امر چھا جائے جو انہیں خوفزدہ اور مضطرب کر دے اور وہ اس سے اپنے آپ پر خوف محسوس کرنے لگیں۔ اور ترمذی نے شہر بن حوشب کی حدیث روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا میں نے حضرت ام سلمہ ؓ کو کہنا، اے ام المومنین ! رسول اللہ ﷺ اکثر کون سی دعا مانگا کرتے تھے جب آپ کے پاس ہوتے ؟ تو انہوں نے بیان فرمایا : آپ ﷺ کی اکثر دعا یہ ہوتی، ” یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک “۔ (اے دلوں کو بدلنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ) تو میں عرض کرتی : یا رسول اللہ ﷺ آپ اکثر یہ دعامانگتے ہیں ” یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک “۔ تو آپ نے فرمایا : یا ام سلمۃ انہ لیس آدمی الاوقلبہ بین اصبعین من اصابع اللہ فمن شاء اقام ومن شاء ازاغ (اے ام سلمہ ! بیشک کوئی آدمی نہیں مگر اس کا دل رب العالمین کے دست قدرت کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے پس وہ جسے چاہے اسے سیدھا رکھے اور جسے چاہے ٹیڑھا کر دے) حضرت معاذ ؓ نے یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ” ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا “۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے (2) (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، جلد 2، صفحہ 190) اور یہ آیت معتزلہ کے اس قول میں ان کے خلاف حجت ہے : بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کو گمراہ نہیں کرتا، اگر دلوں کو ٹیڑھا کرنا اس کی جانب سے نہ ہو تو پھر یہ جائز نہیں کہ اسے دور کرنے کے بارے دعا، اس سے کی جائے جس پر اس کا کرنا جائز ہی نہیں ہوتا۔ ابو واقد الجراح نے (آیت) ” ربنا لا تزغ قلوبنا “۔ فعل کی نسب قلوب کی طرف کرتے ہوئے قرات کی اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف انتہائی رغبت اور میلان ہے اور دونوں قراتوں پر آیت کا معنی یہ ہے کہ تیری جانب سے ذیغ (ٹیڑھا پن) کو دلوں میں پیدا کرنا نہ ہو کہ وہ ٹیڑھے ہوجائیں (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 404 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وھب لنا من لدنک رحمۃ “۔ یعنی اپنے پاس سے اور اپنی جانب سے فضل و رحمت عطا فرما نہ کہ ہمارے کسی سبب سے اور نہ عمل سے، اس میں تابعداری اور عجز و انکساری کا اظہار ہے۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 404 دارالکتب العلمیہ) اور لدن میں چار لغتیں ہیں، ایک لدن یعنی لام کے فتحہ، دال کے ضمہ اور نون کی جزم کے ساتھ اور یہی زیادہ فصیح ہے، اور دوسری لام کے فتحہ، دال کے ضمہ اور نون کے حذف کے ساتھ (یعنی لد) اور تیسری لام کے ضمہ، دال کی جزم اور نون کے فتحہ کے ساتھ (یعنی لدن) اور چوتھی لام کے فتحہ، دال کے سکون اور نون کے فتحہ کے ساتھ (یعنی لدن) شاید جاہل متصوفہ اور زنادقہ باطنیہ اس آیت اور اس کی مثل آیات سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ؛ علم تو وہی ہے جو بغیر کسب کے ابتداء اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور کتابوں اور اوراق میں دیکھنا تو حجاب ہے۔ یہ (نظریہ) مردود ہے اس کا بیان اپنے محل میں آئے گا۔ اور آیت کا معنی ہے : ہمیں رحمت سے صادر ہونے والی نعمتیں عطا فرما، کیونکہ رحمت صفت ذات کی طرف راجع ہے اور اس میں ہبہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 405 دارالکتب العلمیہ) کہا جاتا ہے : وھب یھب یہ اصل میں یوھب ھا کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ اور جس نے کہا ہے کہ یہ یوھب ھا کے فتحہ کے ساتھ ہے تو اس نے خطا اور غلطی کی ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا جیسے اس نے کہا ہے تو پھر واؤ حذف نہ ہوتی جیسا کہ یوجل میں حذف نہیں ہوئی، بلاشبہ واؤ کسرہ اور یا کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے حذف کردی گئی پھر اس کے حذف کے بعد کسرہ کو فتحہ میں بدل دیا گیا۔ کیونکہ اس میں ھا حروف حلقی میں سے ایک ہے۔
Top