Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا،204 ۔ وہ وہ ہے جو مکہ میں ہے (سب کے لیے) برکت والا اور سارے جہان کے لیے رہنما ہے،205 ۔
204 ۔ (دنیا میں بہ طور عبادت گاہ کے) مراد خانہ کعبہ ہے جس کی اولین تعمیر حضرت آدم (علیہ السلام) نے کی تھی اور اس کے منہدم ہوجانے کے بعد از سر نو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) نے۔ (آیت) ” وضع للناس “۔ یعنی لوگوں کی طاعت و عبادت کے لیے بنا۔ ای وضعہ اللہ موضعا للطاعات والخیرات والعبادات (کبیر) ای لعموم الناس لعبادتھم ونسکھم یطوفون بہ ویصلون بہ ویعتکفون عندہ (ابن کثیر) وضع للناس بعبداللہ فیہ (معالم) (آیت) ” اول بیت “۔ حدیث نبوی ﷺ اوراقوال تابعین سب میں اس اولیت اوراقدمیت کی تشریح ملتی ہے۔ ثبت فی صحیح مسلم عن ابی ذر قال سالت رسول اللہ ﷺ من اول مسجد وضع فی الارض قال المسجد الحرام (قرطبی) قال مجاھد خلق اللہ موضع ھذا البیت قبل ان یخلق شیء من الارض بالفی سنۃ (قرطبی ( 205 ۔ (بہ طور قبلہ کے) کعبہ کو سب سے پہلے معبد بتا کر یہود کو یہ بھی جتلا دیا گیا کہ کعبہ تو بیت المقدس سے بھی قدیم تر ہے۔ بکۃ۔ مکہ ہی کا دوسرا نام ہے۔ عربی میں ایک قاعدہ ہے جس سے حرف م اور حرف ب میں اکثر تبادلہ ہوجاتا ہے، مثلا لازم اور لازب میں یاراتم اور راتب میں یا نمیط اور نبی ط میں۔ اسی قاعدہ کا عمل یہاں بھی ہوا۔ ھی علم لبلد الحرام ومکۃ وبکۃ لغتان فیہ (کشاف) بکۃ لغۃ فی مکۃ عند الکثرین (روح) قال مجاھد بکۃ ھی مکۃ۔ (قرطبی) من اسماء مکۃ علی المشھور (ابن کثیر) ایک قول یہ بھی ہے کہ مکہ نام ہے کل شہر کا اور بکہ کا اطلاق ہے مسجد حرام اور مطاف پر (آیت) ” بکۃ “۔ ھو موضع المسجد (ابن عباس ؓ بکۃ موضع البیت ومکۃ ماسوی ذلک (ابن جریر عن ابن مالک) بکۃ موضع البیت ومکۃ سائر البلد عن مالک بن انس (قرطبی) قال ابو مالک وابو صالح وابراھیم النخعی وعطیۃ العوفی ومقاتل بن حبان بکۃ موضع البیت ماسوی ذلک مکۃ (ابن کثیر) بائبل میں بھی ایک جگہ ذکر وادی مکہ کا تحریفات کے باوجود رہ گیا ہے ” وہ بکا کی وادی میں گزر کرتے ہوے ایک کنواں بتاتے “ (زبور 84:6) بائبل کے قدیم مترجمین نے اپنی تحریف کی عادت مستمرہ کے مطابق ترجموں میں اسے بجائے علم کے اسم نکرہ قرار دے کر اس کا ترجمہ رونے کی وادی کرڈالا صدیوں کے بعد اب غلطی کا احساس ہوا اور اب جیوش انسائیکلوپیڈیا میں اقرار ہے کہ یہ ایک مخصوص (بےآب) وادی کا نام ہے (جلد 2 صفحہ 4 15) اللہ ان کو اتنا سمجھنے کی توفیق اور دے دے کہ یہی ” بےآب وادی “ مکہ معظمہ ہے۔ (آیت) ” مبرکا “۔ یہ وہ مقام ہے جس میں مادی اور روحانی دنیوی اور دینی برکتیں جمع کردی گئی ہیں۔ (آیت) ” للذی “ میں لام تاکید کا ہے۔ واللام توکید (قرطبی) مکہ کی قدامت پر بادل ناخواستہ مسیحی مؤرخین کو بھی اب شہادت دینی پڑی (ملاحظہ ہوحواشی تفسیر انگریزی۔
Top