Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : اور جو هُمْ : وہ فِيْ صَلَاتِهِمْ : اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَ : خشوع (عاجزی) کرنے والے
جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں
الذین ہم فی صلاتہم خشعون۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔ اس آیت کے نزول ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر نیچے جھکا لیا۔ ابن مردویہ کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے ‘ رسول اللہ ﷺ آسمان میں ادھر ادھر نظر گھما لیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی نماز کے اندر آسمان کی طرف اپنی نظر اٹھا لیا کرتے تھے جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو سجدہ گاہ پر نظر جمانے لگے۔ ابن ابی حاتم نے ابن سیرین کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ صحابہ نماز کے اندر آسمان کی طرف نظریں اٹھا لیتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ قَدْ کسی امر متوقع کے ثبوت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے لَمَّاکسی امر متوقع کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ قَدْاگر ماضی پر داخل ہو تو تحقق وقوع کے علاوہ قرب حال کا مفہوم بھی اس کے اندر آجاتا ہے۔ قَدْ قَامَابھی کھڑا ہوگیا۔ قَدْ اَکَلابھی ابھی وہ کھاچکا) ۔ مؤمنوں کو اللہ کے فضل سے فلاح کی توقع تھی قد کے لانے سے فلاح یاب ہونے کی مسلمانوں کے لئے بشارت ہوگئی (گویا مسلمان فلاح یاب ہوچکے) ۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے فلاح کامیابی اور (کسی قابل خوف چیز سے) نجات اور امر خیر میں باقی رہنا۔ فلاح دنیوی بھی ہوتی ہے اور آخرت کی بھی اس جگہ فلاح اخروی مراد ہے۔ کامل فلاح اخروی یہ ہے کہ بالکل عذاب نہ ہو نہ قبر میں نہ حساب کے وقت (حساب فہمی کی سختی کی شکل میں) نہ شدائد قیامت میں مبتلا ہو کر ‘ نہ دوزخ میں داخل ہونے کی صورت میں ‘ نہ صراط پر سے گزرنے میں (خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر سے حساب فہمی کی سختی سے شدائد قیامت سے ‘ روز قیامت کی ظلمت سے ‘ دوزخ کی آگ اور ہر طرح کی تکلیفوں سے اور پل صراط پر گزرنے کی دشواری سے بالکل نجات مل جائے) اور اس نجات کے بعد جنت میں داخلہ مل جائے۔ مرتبۂ قرب اور دیدارِباری تعالیٰ نصیب ہوجائے اور مولیٰ کریم کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ رہی فی الجملہ ناقص کامیابی تو اس کی خصوصیت انہی اہل ایمان کے ساتھ نہیں ہے جن کی صفات کا تذکرہ اس آیت میں کیا گیا ہے بلکہ ہر وہ شخص جو لا الٰہ الا اللہ کا قائل ہو وہ (آخرت میں) ضرور فلاح یاب ہوگا۔ (خواہ اس کی فلاح کامل نہ ہو) اللہ نے فرما دیا ہے۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ جو ذرہ (یا چھوٹی سرخ چیونٹی کے) برابر نیکی کرے گا وہ اس کی نظر کے سامنے آئے گی اور جو ذرہ برابر بدی کرے گا وہ بھی اس کی نظر کے سامنے آئے گی اور نفس ایمان و توحید تمام نیکیوں کا سرگروہ ہے (اس لئے ہر مؤمن کا فلاح یاب ہونا ضروری ہے خواہ کسی قدر گناہ گار ہو۔ ) اسی لئے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا توحید کی تصدیق کرنے والے سعادت یاب ہوں گے اور جنت میں (ہمیشہ) رہیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ اللہ نے جنت عدن کو پیدا کیا اور اس کے درختوں میں پھل لٹکائے۔ (یعنی درختوں میں اتنی کثرت سے پھل پیدا کئے کہ ان کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھک گئیں اور پھل لٹک گئے) اور جنت کے اندر نہریں نکالیں پھر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا بات کر ‘ جنت نے عرض کیا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ اللہ نے فرمایا قسم اپنی عزت و جلال کی کوئی بخیل تیرے اندر میرے قریب بھی نہیں آئے گا۔ رواہ الطبرانی۔ میں کہتا ہوں اس حدیث میں شاید بخیل سے مراد کافر ہے کیونکہ کافر اللہ کا حق توحید ادا کرنے میں بخیل ہوتا ہے۔ دوسری سند سے طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ نے جنت عدن کو پیدا کیا تو اس کے اندر ایسی چیزیں پیدا کیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی شخص کے دل میں ان کا خیال آیا ‘ پھر فرمایا بات کر ‘ جنت نے عرض کیا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ بزار ‘ طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابو سعید ؓ خدری کی روایت سے بھی ایسی ہی مرفوع روایت نقل کی ہے۔ بیہقی نے مجاہد اور کعب ؓ کی روایت سے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے ‘ حاکم کا بیان حضرت انس ؓ کی روایت سے اسی طرح آیا ہے ‘ ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنت میں حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے جنت عدن کو ایک سفید موتی اور یاقوت سرخ اور زمرد سبز کی اینٹوں سے بنایا ہے اس کا پلاستر مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے اس کی پتھریاں موتی ہیں اور اس کی مٹی عنبر ہے اور فرمایا بات کر۔ جنت نے عرض کیا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ اللہ نے فرمایا ‘ قسم ہے اپنی عزت کی تیرے اندر میرے قرب میں کوئی بخیل نہیں آئے گا۔ حضرت مؤلف نے کہا ہوسکتا ہے کہ آیت میں فلاح سے مراد جنت کا داخلہ ہو خواہ عذاب کے بعد ہی مل جائے ‘ اس وقت المؤمنون سے تمام مؤمن مراد ہوں گے کیونکہ کسی نہ کسی وقت سب مؤمنوں کا جنت میں داخلہ کیا جائے گا جیسا کہ احادیث مذکورہ سے ثابت ہے۔ اس تفسیر پر آیت میں مؤمنوں کی جو صفات بیان کی ہیں وہ قید احترازی کے طور پر نہ ہوں گی (کہ جن مؤمنوں میں وہ صفات نہ ہوں وہ فلاح یاب نہ ہوں) بلکہ صفات مدحیہ ہوں گی۔ مؤمن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ان صفات کا حامل ہو اگر ان صفات کو قید احترازی قرار دیا جائے اور فلاح سے کامل فلاح مراد ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ کامل فلاح پانے والے وہ مؤمن ہوں گے جو ان صفات کے حامل ہوں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو مؤمن اپنے اندر یہ صفات نہیں رکھتے ہوں گے وہ مطلقاً فلاح یاب نہ ہوں گے۔ ہم مفہوم مخالف کے قائل نہیں۔ خواہ مفہوم مخالف کسی صفت کی تقیید سے پیدا ہوا ہو یاشرط کے ذکر سے اصول فقہ میں یہ تحقیقی مسئلہ بیان کردیا گیا ہے کہ کسی صفت یا شرط کے ذکر کی صورت میں (بےشک حکم اس صفت اور شرط پر مرتب ہوتا ہے لیکن) جس میں وہ صفت یا شرط موجود نہ ہو اس کا حکم معلوم نہیں ہوتا اس کی طرف سے سکوت سمجھا جاتا ہے۔ نفی حکم تعیین کے ساتھ نہیں ہوتی ‘ احتراز کا یہی مطلب ہوتا ہے (کہ جس میں صفت یا شرط مذکور موجود نہ ہو اس سے نہ نفی حکم تعیین کے ساتھ سمجھی جائے نہ اثبات حکم۔ گویا تعیین نفی سے احتراز ہوتا ہے) ۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ جو گناہگار مؤمن بغیر توبہ کے مرجائیں وہ جنگ میں) بالآخر ضرور داخل ہوں گے اللہ کو اختیار ہے کہ سزا دینے کے بعد جنت میں داخل فرما دے یا معاف فرما دے اور بغیر عذاب دیئے جنت میں بھیج دے۔ اَلْخَاشِعُوْنَسے کون لوگ مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ترجمہ کیا ‘ عاجزی کرنے والے ‘ اللہ کے سامنے اظہار عجز کرنے والے۔ حسن نے کہا ڈرنے والے۔ مقاتل نے کہا تواضع کرنے والے اور اپنے آپ کو پست قرار دینے والے۔ مجاہد نے کہا نظریں نیچی اور آواز پست رکھنے والے۔ ایک روایت میں حضرت علی ؓ : کا قول آیا ہے (نماز میں) اِدھر ادھر التفات نہ کرنا خشوع ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا خشوع یہ ہے کہ یہ معلوم بھی نہ ہو کہ کون دائیں طرف ہے اور کون بائیں طرف اور دائیں بائیں نظر نہ ڈالے۔ عمرو بن دینار نے کہا خشوع سے مراد ہے سکون اور حسن ہیئت علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ خشوع سے مراد ہے سجدہ گاہ سے نظر نہ ہٹانا۔ عطاء نے کہا اپنے بدن کے کسی حصے سے نہ کھیلنا مثلاً بےوجہ نہ کھجانا مراد ہے۔ بعض نے کہا نماز میں خشوع نام ہے توجہ کی یکسوئی کا کہ دوسری طرف خیال نہ جائے اور زبان سے جو الفاظ ادا کر رہا ہے اس پر غور کرتا جائے ‘ نماز سے ادھر ادھر نہ ہٹے۔ دائیں بائیں نظر نہ گھمائے۔ کسی طرف مائل نہ ہو ‘ انگلیاں نہ چٹخائے ‘ کنکریوں کو (جو زمین پر پڑی ہوں) کو الٹ پلٹ نہ کرے اور نماز کے ساتھ نامناسب کوئی حرکت نہ کرے۔ حضرت ابو درداء نے فرمایا خشوع سے مراد ہے قولی اخلاص (اللہ کے سامنے) تعظیم کے ساتھ کھڑا ہونا ‘ کامل یقین اور پوری توجہ و یکسوئی۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے خشوع کا معنی ہے خضوع یعنی تواضع یا خشوع کا مفہوم تواضع کے قریب ہے۔ یا خشوع کا تعلق اعضائے بدن سے ہوتا ہے اور خضوع آواز (کی پستی و عاجزی) اور نگاہ اور سکون اور اظہار عجز سب سے متعلق ہے۔ نہایہ میں ہے خشوع نگاہ اور آواز میں ہوتا ہے جیسے خضوع کا تعلق اجزائے بدن سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک بندہ نماز میں ادھر ادھر نظر کو متوجہ نہیں کرتا۔ جب بندہ ادھر ادھر التفات کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف سے توجہ پھیر لیتا ہے۔ رواہ احمد و ابو داؤد والنسائی والدارمی۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے التفات فی الصلوٰۃ کے متعلق دریافت کیا ‘ فرمایا یہ ایک جھپٹا ہوتا ہے جو شیطان بندے کی نماز میں سے اچک لیتا ہے۔ رواہ الشیخان فی الصحیحین۔ حضرت انس بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگ نماز کے اندر اپنی نگاہ آسمان کی طرف کیوں اٹھاتے ہیں ‘ حضور ﷺ کا فرمان اس معاملہ میں اتنا سخت تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا لوگوں کو اس حرکت سے باز آجانا چاہئے ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔ رواہ البغوی۔ مسلم اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا نماز میں دعا کے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے سے لوگوں کو باز آجانا چاہئے ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔ حضرت جابر بن سمرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کے اندر آسمان کی طرف نظر اٹھانے سے لوگوں کو باز آجانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نگاہیں واپس نہ آئیں۔ رواہ مسلم و ابو داؤد و ابن ماجہ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز کے اندر اپنی داڑھی سے کھیلتے دیکھا فرمایا اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اعضاء بدن میں بھی ہوتا۔ رواہ الحکیم الترمذی فی نوادر الاصول بسند ضعیف۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نفاق والے خشوع سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نفاق والا خشوع کیسا ہوتا ہے فرمایا بدن کا خشوع اور دل کا نفاق (یعنی دل کسی اور طرف مشغول ہو اور بظاہر اعضاء نماز میں ہوں) ۔ مجاہد کا بیان ہے حضرت عبداللہ بن زبیر نماز میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لکڑی کا تھم (اپنی جگہ) کھڑا ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بھی یہی حالت تھی۔ حضرت اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیق ؓ راوی ہیں کہ ان کی والدہ حضرت ام رومان نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے نماز میں ادھر ادھر جھکتے دیکھا تو اتنا سخت ڈانٹا کہ قریب تھا کہ میں نماز توڑ دوں ‘ اور فرمایا میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے جب تم میں سے کوئی نماز کو کھڑا ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں میں سکون رہنا چاہئے ‘ یہودیوں کی طرح ادھر ادھر نہ جھکے ‘ نماز میں ہاتھ پاؤں کا ساکن رہنا نماز کا جزء تکمیل ہے۔ (ازالۃ الخفاء) حضرت ابو الاحوص راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی نماز کو کھڑا ہوجائے تو پتھریوں کو صاف نہ کرے کیونکہ (اللہ کی) رحمت اس کے منہ کے سامنے ہوتی ہے (اس کی توجہ نہ ہٹائے) رواہ البغوی ‘ امام احمد ‘ ابن عدی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ اور ابن حبان نے یہ حدیث حضرت ابوذر کی روایت سے بیان کی ہے۔ فصلحضرت انس ؓ : کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ‘ اپنی نظر سجدہ کرنے کے مقام پر رکھا کرو۔ رواہ البیہقی فی سننہ الکبیر۔ یہ بھی حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا بیٹے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے سے پرہیز رکھ۔ نماز کے اندر ادھر ادھر نظر کرنا (نماز کی) بربادی ہے اگر مجبوری ہو تو نفل میں (ایسا کرسکتا ہے) فرض میں نہیں۔
Top