Tafseer-e-Usmani - Al-Muminoon : 2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ
الَّذِيْنَ : اور جو هُمْ : وہ فِيْ صَلَاتِهِمْ : اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَ : خشوع (عاجزی) کرنے والے
جو اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں1
1 " خشوع " کے معنی ہیں کسی کے سامنے خوف وہیبت کے ساتھ ساکن اور پست ہونا، چناچہ ابن عباس نے " خَاشِعُوْنَ " کی تفسیر " خائفون ساکنون " سے کی ہے۔ اور آیت (اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ) 41 ۔ فصلت :39) بھی دلالت کرتی ہے کہ " خشوع " میں ایک طرح کا سکون و تذلل معتبر ہے۔ قرآن کریم میں " خشوع " کو وجوہ، ابصار، اصوات وغیرہ کی صفت قرار دیا ہے۔ اور ایک جگہ آیت (اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ) 57 ۔ الحدید :16) میں قلب کی صفت بتلائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل خشوع قلب کا ہے اور اعضائے بدن کا خشوع اس کے تابع ہے۔ جب نماز میں قلب خاشع و خائف اور ساکن و پست ہوگا تو خیالات ادھر ادھر بھٹکتے نہیں پھریں گے، ایک ہی مقصود پر جم جائیں گے۔ پھر خوف وہیبت اور سکون و خضوع کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہوں گے مثلاً بازو اور سرجھکانا، نگاہ پست رکھنا، ادب سے دست بستہ کھڑا ہونا، ادھر ادھر نہ تاکنا، کپڑے یا ڈاڑھی وغیرہ سے نہ کھیلنا، انگلیاں نہ چٹخانہ، اور اسی قسم کے بہت افعال و احوال لوازم خشوع میں سے ہیں۔ احادیث میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے منقول ہے کہ نماز میں ایسے ساکن ہوتے تھے جیسے ایک بیجان لکڑی، اور کہا جاتا تھا کہ یہ نماز خشوع ہے فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا نماز بدون خشوع کے صحیح و مقبول ہوتی ہے یا نہیں۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ خشوع اجزائے صلوٰۃ کے لیے شرط نہیں۔ ہاں قبول صلوٰۃ کے لیے شرط ہے میرے نزدیک یوں کہنا بہتر ہوگا کہ حسن قبول کے لیے شرط ہے۔ واللہ اعلم۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ احیاء العلوم اور اس کی شرح میں تفصیل ملاحظہ کی جائے بہرحال انتہائی فلاح اور اعلیٰ کامیابی ان ہی مومنین کو حاصل ہوگی جو خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ان اوصاف سے موصوف ہیں جو آگے بیان کیے گئے ہیں۔
Top