Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
وفی الارض ایت للموقنین . اور یقین لانے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اکثر اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ اس جملہ کا اور اس کے بعد آنے والے سارے معطوفات کا تعلق اِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ سے ہے اور دونوں کے درمیان کے تمام جملے معترضہ ہیں۔ میرے نزدیک اس کا عطف ان مدحیہ جملوں پر ہے جو سابق کلام میں محسنین کے حالات کی تشریح میں ذکر کیے گئے ہیں۔ اصل مطلب یہ ہے کہ زمین میں ان محسنین کے لیے (اللہ کی قدرت تامہ ‘ علم محیط اور ربوبیت و الوہیت کی) نشانیاں ہیں۔ وہ ان نشان ہائے قدرت کو اندھوں ‘ بہروں کی طرح دیکھ کر گزر نہیں جاتے بلکہ بینا آنکھوں سے دیکھ کر غور کرتے اور سوچتے ہیں کہ زمین کیسے پیدا ہوئی ‘ کیسے بچھائی گئی۔ آدمیوں کے رہنے کے لیے اس کا کچھ خشک حصہ کیسے ابھار دیا گیا ہے۔ زمین کے مختلف اجزاء کی مختلف کیفیات ‘ حالات اور متضاد خاصیات کیسے اور کیوں ہیں ‘ چشمے پھوٹ کر ‘ نہریں بن کر دریا کس طرح اور کس حکمت کے زیر اثر بہتے ہیں۔ زمین کے اندر قیمتی جواہر کی کانیں کیسے بن جاتی ہیں۔ زمین کے اوپر غیر محدود اَن گنت نباتات اور حیوانات کا پھیلاؤ کتنا ناقابل فہم ہے ‘ یہ سب انواع ‘ اجناس ‘ کیفیات ‘ خاصیات اشکال اور الوان کا تعدد دلالت کر رہا ہے کہ ان کا کوئی بنانے والا واجب الوجود ‘ خالق کل ‘ ہمہ گیر علم اور قدرت کاملہ کا مالک ہے۔ اسی نے اپنی رحمت اور حکمت سے ان چیزوں کو بنایا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ زمین پر اور زمین کی موجودات پر اللہ کی رحمت کی کیسی بارش ہو رہی ہے۔ وجود اور بقائے وجود کی اللہ کی طرف سے کس قدر برکتیں نازل ہو رہیں ہیں اور موجودات ارضی کی ہر چیز اپنی ساری ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے اللہ کی رحمت کے سامنے دست سوال پھیلا رہی ہے۔ کُلَّ یُوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ ۔
Top