Tafseer-e-Saadi - Adh-Dhaariyat : 20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت) سی نشانیاں ہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو تفکر و تدبر اور عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے : (و فی الارض ایت للموقنین) ” اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں نشانیاں ہیں۔ “ یہ آیت کریمہ زمین اور اس کی موجودات کو شامل ہے مثلاً پہاڑ، سمندر، دریا، درخت اور نباتات، جو غور و فکر کرنے والے اور اس کے معانی میں تدبر کرنے والے کو اپنے خالق کی عظمت، اس کی وسیع طاقت، اس کے احسان عام اور ظاہر و باطن پر اس کے علم کے محیط ہونے کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح خود بندے کی ذات میں بیشمار عبرتیں، حکمتیں اور رحمتیں پنہاں ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک اور بےنیاز ہے، اس نے مخلوق کو بےکار اور بےفائدہ پیدا نہیں کیا۔ (وفی السماء رزقکم) ” اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے۔ “ یعنی تمہارے رزو کا مادہ مثلاً بارش، رزق دینی اور رزق دنیاوی کی مختلف مقدار (وما توعدون) یعنی دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا جو وعدہ کیا گیا ہے، یہ جزا و سزا دیگر تقدیروں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت الٰہی کو بیان کرکے ان پر اس طرح متنبہ فرمایا جس سے عقل مند اور ذہین شخص تنبہ حاصل کرتا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اس کا وعدہ اور اس کی جزا و سزا حق ہیں۔ تب ظاہر اور واضح ترین چیز سے اس کو تشبیہ دی اور وہ نطق ہے۔ چناچہ فرمایا : (فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون) ” پس آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم ! یہ اسی طرح حق ہے جس طرح تم باتیں کرتے ہو “ جس طرح تمہیں اپنے نطق لسان میں کوئی شک نہیں اسی طرح تمہیں قیامت اور جزا و سزا میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
Top