Tafseer-e-Mazhari - Al-Insaan : 13
مُّتَّكِئِیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآئِكِ١ۚ لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًاۚ
مُّتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوں گے فِيْهَا : اس میں عَلَي الْاَرَآئِكِ ۚ : تختوں پر لَا يَرَوْنَ : وہ نہ دیکھیں گے فِيْهَا : اس میں شَمْسًا : دھوپ وَّلَا : اور نہ زَمْهَرِيْرًا : سردی
ان میں وہ تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ (کی حدت) دیکھیں گے نہ سردی کی شدت
متکئین فیھا علی الارائک . متکئین حال ہے یعنی جنت کے اندر مسہریوں پر وہ تکیے لگائے ہوں گے۔ ارائک۔ پردہ والی مسہریاں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : صرف پلنگ ‘ بغیر پردے اور چھتری کے اور صرف چھتری۔ پردہ بغیر پلنگ کے ارائک نہیں کہلاتا ‘ پلنگ مع چھتری اور پردہ کے ہو تو ارائک کہلاتا ہے۔ (بیہقی) لا یرون فیھا شمسا ولا زمھریرا . قاموس میں ہے زمھریر چاند کی سخت سردی۔ ازمھرت الکواکبُ ۔ ستارے چمکنے لگے۔ زمہریر سے مراد سخت سردی اور شمس سے مراد سخت گرمی ہے یعنی جنت کے اندر نہ گرمی ہوگی نہ سردی بلکہ ہمیشہ معتدل ہوا رہے گی۔ ابن مبارک نے بیان کیا اور عبداللہ بن احمد نے بھی زوائد میں تخریج کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : جنت سکون بخش ہے ‘ نہ اس میں گرمی ہے نہ سردی ‘ یا زمہریر سے مراد ہے چاند یا چمکتے ستارے۔ اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ جنت خود روشن ہے۔ نورِ رب سے منور ہے ‘ اس کو نہ سورج کی ضرورت ہے ‘ نہ چاند کی۔ شعیب بن جیحان نے بیان کیا۔ میں ابو العالیہ رباحی کے ساتھ سورج نکلنے سے پہلے باہر نکلا۔ ابو العالیہ نے فرمایا : جنت کی اسی طرح صفت کی جاتی ہے ‘ پھر آیت : وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ پڑھی۔ (بیہقی) میں کہتا ہوں کہ ابو العالیہ کی مراد نور صبح سے جنت کی تشبیہ دینا نہیں ہے ‘ صبح کا نور تو ضعیف ہوتا ہے جس میں تاریکی مخلوط ہوتی ہے بلکہ اس امر میں تشبیہ دینی مقصود ہے کہ (جس طرح) صبح کی روشنی پھیلتی جاتی ہے ‘ منقطع نہیں ہوتی (اسی طرح جنت کی روشنی رو بترقی ہوگی ‘ منقطع نہیں ہوگی) ۔ 1 ؂
Top