Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا (کو بھی ہم نے علم و حکمت دیا اور اپنی رحمت میں داخل کیا) جب کہ پکارا اس نے اپنے پروردگار کو اے میرے پروردگار ! نہ چھوڑ مجھے اکیلا اور تو سب سے بہتر وارث ہے
زکریا (علیہ السلام) کا ذکر خیر : اللہ نے کئی ایک انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کرے فرمایا کہ ہم نے ان کو علم و حکمت دی اور ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا ۔ جب ان پر مصائب آئے تو انہوں نے صبر کیا تمام انبیاء اپنی حاجات اللہ ہی کے سامنے پیش کرتے تھے۔ گزشتہ آیات میں یونس (علیہ السلام) کی ابتلاء اور پھر ان کی مناجات کا ذکر تھا اور اب حضرت زکریا (علیہ السلام) اور پھر حضرت مریم ؓ اور ان کے فرزند حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آرہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے زکریا اور زکریا (علیہ السلام) کا حال بھی دیکھو۔ ہم نے ان کو علم اور حکمت دی وہ اللہ کے پاک نبی تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی جو قبول ہوئی۔ آپ کا ذکر سورة آل عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اولاد کے لئے دعا : فرمایا اور زکریا (علیہ السلام) نے اذ نادی ربہ جب کہ انہوں نے پکارا اپنے پروردگار کو رب لا تذرنی فردا اے پروردگار ! مجھے اکیلا نہ چھوڑوانت خیرالورثین اور تو سب سے بہتر وارث ہے سورة آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت مریم ؓ کی کفالت کے دوران جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم ؓ کے پاس بےموسم پھل دیکھے تو پوچھا اے مریم ! یہ کہاں سے آئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرے اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس پر زکریا (علیہ السلام) کے دل میں اولاد کی خواہش پیدا ہوئی ھنالک دعازکریا ربہ (آل عمران 38) تو اس وقت آپ نے اپنے پروردگار سے پاک اولاد کے لئے درخواست کی۔ سورة مریم میں ہے کہ آپ نے اپنی مناجات اس طرح شروع کی کہ اے پروردگار ! رب انی……………شیبا (آیت 40) میری ہڈیاں کمزور اور بال سفید ہوچکے ہیں۔ وانی خفت…………ورآء ی (آیت 50) مجھے خاندان کے لوگوں میں کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا جو میری نیابت کرسکے فھب لی من لدنک ولیا۔ لہٰذا اپنی طرف سے مجھے ایک وارث نصیب فرما۔ یرثنی………یعقوب (آیت 6) جو میری اور خاندان یعقوب کی نیابت کا کام انجام دے سکے۔ آپ نے صرف اولاد نہیں مانگی بلکہ فرمایا واجعلہ رب رضیا کہ وہ اولاد نافرمان اور بےدین نہ ہو بلکہ ایسی ہو جو پسندیدہ ہو۔ اور آیت زیر درس میں بھی زکریا (علیہ السلام) نے اس انداز میں دعا کی کہ پروردگار ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ دعا کی قبولیت : اللہ نے فرمایا فاستجبنالہ ہم نے ان کی دعا کو قبول فرمایا ووھبنا لہ یحیٰ اور ان کو یحییٰ جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا کیے اور وہ دونوں اللہ کے نبی تھے۔ اسی طرح زکریا (علیہ السلام) کو اللہ نے یحییٰ (علیہ السلام) بیٹا عطا فرمایا جو اللہ کے نبی تھے ، بڑے عبادت گزار اور پسندیدہ تھے فرمایا ہم نے زکریا (علیہ السلام) کو یحییٰ بیٹا عطا فرمایا اور اس سے پہلے واصلحنا لہ زوجہ ہم نے آپ کی بیوی کو بھی درست کردیا وہ بانجھ تھی ، اسے صحت عطا کی اور پھر پیرانہ سالی میں اولاد کی نعمت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب اور قادر مطلق ہے ، وہ ناممکن کو ممکن بنادینے پر قادر ہے۔ نیکیوں میں سبقت : اللہ نے فرمایا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ان کا خاندان اور باقی تمام انبیاء جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہوا ہے انھم انوایسرعون فی الخیرات بیشک وہ تمام نیکیوں میں سبقت کرنے والے تھے۔ یعنی اچھائی کے کام کی طرف دوڑ کر جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عام اہل ایمان کو بھی حکم دیا ہے۔ فاستبقوا………………جمیعا (البقرہ 148) کہ نیکیوں کی طرف جلدی کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے ، اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کردے گا۔ یہ بھی فرمایا وافعلوا الخیرلعلکم تفلحون نیکی کی بات کرو تاکہ تمہیں فلاں حاصل ہوجائے ، قانون ، شریعت اور عمل صالح کی پابندی کرو ، کفر ، شرک ، بدعات اور رسومات باطلہ سے باز آجائو۔ اللہ کے سارے نبی نیکیوں میں سبقت کرتے تھے۔ امید اور خوف : فرمایا اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی ایک صفت یہ بھی تھی ویدعوننا رغبا ورھبا وہ ہمیں پکارتے تھے۔ ہماری نعمتوں میں رغبت رکھتے ہوئے اور ہماری گرفت سے خوف کھاتے ہوئے۔ خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے کوئی بھی بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے مقرب نبی بھی اس کی نعمتوں کے امیدوار ہوتے ہیں اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ الایمان بین الخوف والرجاء ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے ایک طرف اللہ کی رحمت کی امید رکھو تو دوسری طرف اس کی گرفت سے ڈرتے رہو کہ کہیں کوئی آزمائش نہ آجائے غرضیکہ نہ امید کا دامن چھوٹنا چاہیے اور نہ خدا کا خوف اتر جانا چاہیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تقریر میں یہ جملہ موجود ہے ولا تایئسوا…………الکفرون (یوسف 87) یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو کہ یہ کافروں کا شیوہ ہے۔ اہل ایمان و توحید ہمیشہ اللہ کی طرف سے پر امید رہتا ہے۔ بہرحال علم عقائد علم کلام اور علم توحید میں یہ منقول ہے کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے اور یہی قول امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور دیگر سلف صالحین کا ہے۔ خشیت الٰہی : اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے نبیوں کی تین صفات بیان کی ہیں یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے تھے ، ہمیں امید اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور تیسری صفت یہ ہے وکانوا لنا خشعین کہ وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔ عام مومنین کے لئے بھی یہی قانون ہے جیسے فرمایا قد افلح………………خشعون (المومنون 2- 1) بیشک وہ مومن لوگ فلاح پاگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ غرور وتکبر اور خود پسندی کے بجائے نیاز مندی سے کام لیتے ہیں۔ چار مقصود چیزوں میں سے ایک نیاز مندی بھی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مدار سعادت چار خصلتیں ہیں 1) طہارت یعنی پاکیزگی ، 2) اخبات یعنی عاجزی ، خشوع و خضوع فرشتے انبیاء اور تمام بندے اللہ کے سامنے عاجزی اور نیازمندی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ بڑائی اسی کو سزاوار ہے ولہ الکبریاء اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے وربک فکین (المدثر 3) ہمیشہ اپنے پروردگار کی بڑائی اور کبریائی کا تذکرہ کرو۔ 3) سماحت یعنی انسان اعلیٰ خصائل کا حامل ہو اور ذیل خصلتوں سے بچتا رہے ، 4) عدل ہمیشہ انصاف کو پیش نظر رکھو۔ کسی کے ساتھ ظلم وتعدی کا معاملہ نہ کرو۔ بہرحال فرمایا کہ یہ سارے نبی ہمارے عاجز بندے تھے۔ حضرت مریم ؓ اور مسیح (علیہ السلام) : اب آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا والتی احسنت فرجھا اس عورت کو بھی ہم نے اپنی رحمت سے نوازا جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی۔ اس سے مراد حضرت مریم ؓ ہیں۔ آپ کے متعلق سورة مریم میں موجود ہے کہ جب فرشتہ آپ کو بیٹے کی خوشخبری دینے کے لئے آیا تو آپ نے یہی کہا کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوسکتا ہے۔ ولم …………بغیا (آیت 20) کہ نہ تو کسی انسان نے مجھے چھوا ہے اور نہ ہی مجھ میں کوئی برائی ہے۔ ادھر سے ارشاد ہوا کذلک جب ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسی طرح کر ڈالتے ہیں کہ بغیر ظاہری اسباب اور مرد کی قربت کے بچہ عطا کردیتے ہیں۔ بہرحال حضرت مریم ؓ کے متعلق فرمایا فنفخنا فیھا من روحنا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی۔ اصل میں فرشتے نے حضرت مریم ؓ کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے آپ کو حمل قرار پا گیا اور اس فعل کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ ہم نے روح پھونک دی۔ اور پھر یہ ہوا کہ حمل قرار پانے کے بعد بچہ پیدا ہونے میں نو ماہ انتظار نہیں کرنا پڑا بلکہ چند ہی گھنٹوں کے بعد درد زہ شروع ہوگیا اور پھر مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش ہوگئی۔ فرمایا وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین ہم نے حضرت مریم ؓ اور آپ کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو جہاں بھر کے لئے نشانی بنادیا۔ حضرت مریم ؓ بھی اللہ کی قدرت کی نشانی ہیں کہ اللہ نے آپ کو بڑی فضیلت عطا فرمائی۔ آپ کو طاہرہ اور صدیقہ بنایا اور پھر بغیر مرد کی قربت کے آپ کو عظیم المرتبت بیٹا عطا فرمایا اور وہ اللہ کا پاک نبی تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ ہم نے ماں اور بیٹا دونوں کو جہان والوں کے لئے نشانی بنادیا۔ اس جملہ میں عقیدہ انبیت والوں کا رد بھی ہوگیا ہے۔ وابنھما سے مراد مریم ؓ کا بیٹا ہے نہ کہ خدا کا بیٹا یا اس کا جزو یا تین خدائوں میں سے تیسرا۔ یہ غلط عقیدہ تو یونس نے مسیح (علیہ السلام) کے بعد وضع کیا تھا۔ وگرنہ ابتدائی دور میں مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے آپ کو حضرت مریم ؓ ہی کا بیٹا مانتے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے مقرب بندے تھے گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مریم ؓ کا بیٹا کہہ کر سارا مسئلہ حل فرمادیا۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والے کافر ، مشرک ، اور ابدی جہنمی ہیں۔ ملت واحدہ : آگے ارشاد ہوتا ہے ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ یہ تمہاری امت یعنی دین اور ملت ایک ہی ملت ہے۔ گویا تمام انبیاء (علیہم السلام) کا تعلق ایک ہی ملت سے ہے۔ دین بنیادی عقیدے کو کہا جاتا ہے اور ملت بڑے بڑے اصولوں کا نام ہے۔ اصول دین تو تمام انبیاء کے مشترک ہیں۔ البتہ ان کے شرائع میں اختلاف ہوتا ہے۔ بعض شرائع میں کوئی چیز حلال ہوتی ہے اور بعض میں حرام ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان (تفسیر ابن کثیر ص 186 ج 1 (فیاض) ہے۔ نحن معشر الانبیاء اولاد علات دیننا واحد ہم سارے انبیا علاتی بھائیوں کی طرح ہیں جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوتی ہیں۔ ہم سب کا دین یا ملت ایک ہے ، تمام بڑے بڑے اصول یکساں ہیں مگر شرائع یعنی جزئیات مختلف ہیں۔ اللہ نے یہ بات قرآن میں بھی سمجھادی ہے شرع لکم……………نوحا (الشوریٰ 13) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھی وہی دین مقرر کیا ہے جو نوح (علیہ السلام) اور آپ سے بعد والے نبیوں کے لئے مقرر کیا گیا۔ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنا ، قیامت پر یقین ، انبیاء کتب سماویہ اور ملائکہ پر ایمان ، اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا ہی دین ہے اور یہ سب کا مشترک ہے۔ فرمایا وانا ربکم فاعبدون اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ ہر نبی نے بھی یہی تعلیم دی یقوم……………غیرہ (الاعراف 65) اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ دین میں تفرقہ بازی : اللہ نے تو سب کا ایک ہی دین مقرر کیا تھا مگر اس پر متفق نہ رہ سکے۔ اللہ نے یہاں شکوہ کیا ہے وتقطعوا امرھم بینھم پھر ان لوگوں نے اپنے معاملے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ بعد میں آنے والوں نے دین کو بگاڑ کر اس میں فرقہ بندی پیدا کردی۔ دیکھ لیں یہودیوں کے کئی فرقے بنے اور وہ کفر اور شرک میں مبتلا ہوگئے۔ نصاریٰ نے بھی توحید الٰہی کو بگاڑ دیا اور شرک کو اختیار کرلیا۔ وہ بھی بہت سے فرقوں میں بٹ گئے۔ اسی طرح صابی ، مجوسی ، منکرین قیامت اور منکرین رسالت وغیرہ بہت سے فرقے معرض وجود میں آئے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے اصل دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بگاڑدیا اور خود گمر اہی میں مبتلا ہوگئے۔ حضور خاتم النبیین ﷺ نے بھی فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے تو میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ فرمایا صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا ، باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ ناجی فرقہ کون سا ہوگا۔ فرمایا (ترمذی ص 379 (فیاض) ما انا علیہ و اصحابی یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا۔ بعض لوگ فروعی اختلافات کو ہوا دے کر تیز کرتے ہیں اور اس طرح دین میں خرابی کا باعث بنتے ہیں اور پھر طرح طرح کے فتنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ بنیادی عقائد میں اختلاف پیدا کرکے صریح گمراہی میں جاگرتے ہیں۔ فرمایا ان لوگوں نے اپنے معاملے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ مگر یہ بچ کر نہیں جاسکتے کل الینا رجعون سب کے سب ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والے ہیں۔ ہم ان کا حساب لے لیں گے اور اختیار کردہ عقیدے اور عمل کے مطابق پورا پورا بدلہ دیں گے۔
Top