Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اور نہیں بنائی اللہ نے (تمہاری یہ امداد فرشتوں کے نزول سے) مگر تمہارے لیے خوشخبری اور تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوں۔ اور نہیں ہے مدد مگر اللہ کی طرف سے جو غالب ہے اور کمال حکمت کا مالک ہے۔
ربط آیات : جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ قرآن پاک کے اس مقام پر اصل تذکرہ تو غزوہ احد کا ہے۔ تاہم درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مثال کے طور پر غزوہ بدر کا ذکر بھی کردیا ہے۔ تاکہ اہل اسلام کو تسلی رہے کہ جس مالک الملک نے انہیں نہایت بےسروسامانی کی حالت میں بدر کے مقام پر عظیم فتح سے نوازا تھا ، وہ اپنے بندوں کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ واقعہ بدر کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کی بشارت سنائی ، پھر تین ہزار کا وعدہ فرمایا ، نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر مشرکین کی جمعیت میں اچانک اضافہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ آسمانوں سے لیے پانچہزار فرشتوں کو نازل فرما دے گا ، جو اپنے گھوڑوں کو نشان لگانے والے ہوں گے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے نزول ملائکہ کی حکمت بیان فرمائی ہے اور واضح کیا ہے کہ فرشتوں کو اتارنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے کفار کے ساتھ براہ راست جنگ میں شریک ہوں گے ، بلکہ جنگ تو بہرحال مسلمانوں نے ہی لڑنی ہے۔ سورة انفال میں اس کا تفصیل سے ذکر ہے۔ تاہم بدر کے متعلق فرمایا۔ اذ تستغیثون ربکم۔ جب تم اپنے پروردگار کے سامنے فریاد کر رہے تھے ، تو اللہ نے تمہاری مدد کے لیے فرشتے اتار دیے ، اور تمہارے حق میں ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ تمہیں فتح مبین حاصل ہوگئی۔ فرشتے اللہ کی لطیف مخلوق ہے ان میں اللہ نے طاقت بھی بہت زیادہ رکھی ہے۔ جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ بدر کے مقام پر حضور ﷺ کے دائیں بائیں جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) تھے۔ وہ براہ راست لڑائی میں شریک نہیں تھے۔ البتہ اکا دکا ایسے واقعات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ جن میں کافروں کو کچھ اذیت بھی پہنچائی گئی۔ تاہم من حیث الجماعت لڑائی کرنا اہل ایمان ہی کا کام ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے یہاں پر نزول ملائکہ کا مقصد بھی بیان فرما دیا ہے۔ مقصد نزول ملائکہ : ارشاد ہوتا ہے۔ وما جعلہ اللہ۔ نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے نزول ملائکہ کو۔ الا بشری لکم۔ مگر تمہارے لیے خوشخبری۔ تاکہ تمہیں بشارت ہو کہ اللہ کے فرشتوں کی امداد تمہارے ساتھ ہے۔ تاہم فتح تو بہر صورت اللہ کے حکم سے ہی ہوگی ، مگر اطمینان قلب کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ مسلمانوں کو فرشتوں کی تائید بھی حاصل ہے دنیا کی اس زندگی میں اس قسم کے معاملات پیش آتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو حاکم اعلیٰ یا کسی بڑے چودھری کی حمایت حاصل ہو ، تو اسے دل میں تسلی ہوتی ہے۔ کہ کوئی بات نہیں ، فلا بڑی ہستی میرے ساتھ ہے ، مجھے کیا پروا ہے۔ اس پر قیاس کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ کہ ایک عام انسان کی حمایت دوسرے کے لیے تسلی و تشفی کا باعث ہوتی ہے تو جس کا حمایتی اور طرفدار خود احکم الحاکمین ہو ، اسے کس قدر سکون حاصل ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ نزول ملائکہ کا مقصد ایک تو تمہیں بشارت سنانا ہے اور دوسرے ولتمطئن قلوبکم بہ۔ تاکہ تمہارے دل اطمینان حاصل کریں۔ اور تم کسی خوف میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ جہاں تک نصرت غیبی کا تعلق ہے وہ تو مجانب اللہ ہی ہوتی ہے۔ سورة انفال میں موجود ہے۔ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر وحی نازل کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اور ان کو حکم دیا۔ فثبتوا الذین امنوا۔ کہ اہل ایمان کے دلوں کو مضبوط کریں۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ کے ملائکہ تو ویسے بھی مومنوں کے دلوں میں اچھے خیالات القا کرتے ہیں۔ جس طرح شیاطین در اندازی کرکے انسان کو برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں ، اسی طرح رحمت کے فرشتے اچھے کاموں کی طرف ابھارتے ہیں۔ بعض صحابہ نے فرشتوں کی تعریف کی کہ حضرت ! ہم نے ایسی بات دیکھی ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا۔ ذلک مدد من السماء الثالث۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کے لیے یہ فرشتے تیسرے آسمان سے نازل فرمائے ہیں۔ بہرحال فرشتوں کے اتارنے کا مقصد مسلمانوں کو بشارت دینا اور ان کے دلوں کو مطمئن کرنا تھا ، نہ کہ براہ راست جنگ میں شریک ہونا۔ نصرت الہی ! غزوہ یرموک کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے اس جنگ کے لیے پانچ صحابہ کو کمانڈر مقرر فرمایا۔ ان میں ابوعبیدہ بن جراح ، خالد بن ولید ، ابن حسنہ ، یزید بن ابی سفیان اور عیاض تھے۔ آپ حکم دیا تھا کہ بحیثیت مجموعی پوری فوج کی کمان حضرت ابوعبیدہ کے پاس ہوگی تاہم باقی جرنیل اپنے اپنے دستوں کے سردار ہوں گے اور اپنے اپنے یونٹوں میں فوجی انتظامات کے ذمہ دار ہوں گے جب رومیوں کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں نے کچھ کمزوری محسوس کی ، ان کے کئی مجاہد شہید ہوگئے۔ چناچہ انہوں نے امیر المومنین کو مزید کمک کے لیے خط لکھا۔ حضرت عمر نے جواباً لکھا کہ میں تمہاری راہنمائی اس ذات کی طرف کرتا ہوں جو کہ اعز نصرا ہے یعنی جس کی نصرت سب پر غالب ہے۔ اور جس کا لشکر ہر وقت حاضر ہے۔ میں تمہاری راہنمائی اس خداوند قدوس کی طرف کرتا ہوں ، جس نے مقام بدر پر اپنے نبی اور اس کے ساتھیوں کو فتح عظیم سے نوازا۔ لہذا تم مدد کے لیے اسی مالک الملک کی طرف رجوع کرو ، دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کرو ، مجھے دوبارہ خط نہ لکھنا۔ اللہ جل جلالہ نے بدر میں قلیل تعداد اور بےسروسامانی کی حالت میں تمہاری مدد کی تھی ، وہ زیادہ نفری اور وافر سازوسامان کے ساتھ کیوں تمہاری مدد نہیں فرمائے گا۔ تم اسی کی طرف رجوع کرو ، آئندہ میری طرف مراجعت نہ کرنا۔ اس روایت کے راوی حضرت عیاض ؓ فرماتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کا یہ خط جب مسلمانوں کو پہنچا ، تو انہوں نے نصرت الہی پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے ایسا زبردست حملہ کیا کہ دشمن کو چار کوس تک پیچھے بھگا دیا۔ ان کے پاؤں پھر نہ جم سکے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اس فتح نے شام اور فلسطین کو ہمیشہ کے لیے رومیوں سے پاک کردیا ، اور یہ علاقے مرکز اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ وما النصر الا من عنداللہ العزیز الحکیم۔ مدد تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ جو کہ غالب ہے اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ یہاں پھر وہی سوال دوبارہ ابھرتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں تو مسلمانوں کی بھرپور مدد فرمائی۔ لیکن اس کے میدان میں ایسا کیوں نہ ہوا۔ اس کا جواب پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے۔ کہ جب انسان پورے عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ جان کی بازی لگا دیتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال ہوتی ہے مگر احد کے میدان میں مسلمانوں میں کچھ کمزوری آگئی تھی۔ اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ عبداللہ بن ابی کے ہمراہ تین سو آدمیوں کا لشکر پہلے ہی علیحدہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ بعض مجاہدین نے نبی (علیہ السلام) کے حکم کے خلاف اپنے مرکز کو چھوڑ دیا۔ بعض لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی بھی ہوئی ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔ بہرحال اس کے بعد اللہ نے اہل اسلام کو مضبوط بھی کردیا۔ کفار کی ناکامی : آگے اللہ تعالیٰ نے نصرت الہی کا نتیجہ بیان فرمایا کہ اللہ کی مدد اس لیے آئی۔ لیقطع طرفا من الذین کفروا۔ تاکہ کفار کی جمعیت میں سے ایک گروہ کو قطع کردے۔ ان کی کمر توڑ کر رکھ دے اور ان کے غرور کا سر نیچا کردے چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جنگ بدر میں ستر بڑے بڑے آئمۃ الکفر مارے گئے جن میں ان کا سرغنہ ابوجہل اور امیہ بھی شامل تھے۔ ایک گروہ تو مارا گیا ، فرمایا او یکبتھم ، یا ان کو ذلیل کردے۔ چناچہ ستر قتل ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں قیدی بنا لیے گئے۔ جو کہ مشرکین مکہ کے لیے نہایت ہی ذلت و رسوائی کی بات تھی ، ان قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا پڑا۔ اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ بڑے جوش و خروش کے ساتھ مکہ سے نکلے تھے۔ کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کردیں گے۔ مگر خود پس کر رہ گئے۔ جو باقی بچ گئے۔ فینقلبوا خائبین۔ وہ سخت ناکام ہو کر لوٹے۔ مکہ والے فتح کی خوشخبری سننے کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ کہ انہیں ذلت اور رسوا کن شکست کی خبر سننا پڑی۔ غزوہ احد میں آزمائش : غزوہ بدر کے مختصر تذکرے کے بعد روئے سخن پھر غزوہ احد کی طرف ہوتا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی اپنی غلطی کی وجہ سے انہیں سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ ستر صحابہ کرام نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان میں سید الشہداء حضرت حمزہ ؓ بھی شامل تھے۔ بہت سے صحابہ کرام زخمی ہوئے۔ خود حضور نبی کریم (علیہ السلام) زخمی ہوگئے ۔ ایک کافر نے تلوار سے وار کیا۔ آپ کا خود کٹ گیا ، اور سر کے نیچے پیشانی تک زخم آ گیا۔ دائیں طرف کے نچلے چار دانتوں میں سے دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ زخم اتنا گہرا تھا کہ خون بند نہیں ہوتا تھا۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہ ڈھال میں پانی لاتی تھیں۔ اور حضرت علی ؓ زخم کو دھوتے تھے۔ پھر چٹائی جلا کر اس کی راکھ زخم میں رکھی تو خون بند ہوا۔ ان حالات میں حضور ﷺ نے کافروں کے حق میں بد دعا کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا۔ کیف یفلح قوم۔ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کردیا ، حالانکہ وہ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے بد دعا کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا۔ لیس لک من الامر شیء۔ اس معاملہ میں آپ کے لیے کوئی چیز (یعنی اختیار) نہیں ہے۔ یعنی آپ کو حکم اور حکومت میں اختیار نہیں ہے۔ کسی کو ایمان کی توفیق عطا کردے یا کسی کو کفر پر اڑا رہنے دے ، یہ سب اختیار اللہ کے پاس ہے۔ آپ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ آپ کا کام دعوت دینا ، جہاد کرنا اور صبر کا دامن تھامنا ہے۔ کسی کو منزل مقصود تک پہنچانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ کا کام یہ ہے۔ وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ آپ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کردیں۔ کسی کی کامیابی یا ناکامی اللہ مالک الملک ، کے اختیار میں ہے۔ آج کل لوگوں نے غلط عقیدے بنا کر رکھے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ مختار کل ہیں ، نہیں بھائی ! اللہ نے صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ کہ اختیار آپ کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ انک لاتھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء۔ آپ اپنی خواہش کے مطابق کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ ہدایت دیتا تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ اگر آپ کے بس میں ہوتا تو آپ اپنے مشفق ہمدرد اور خدمت گذار چچا ابو طالب کو دوزخ سے بچا لیتے۔ مگر اللہ نے یہ اختیار آپ کو عطا نہیں کیا۔ جزا اور سزا اللہ کے پاس سے : یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے۔ او یتوب علیھم۔ یا اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے۔ او یعذبھم۔ یا ان کو سزا دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو آگے چل کر ایمان کی دولت سے مشرف ہونے والے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ان کے خلاف بددعا کرنے سے روک دیا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ یہی لوگ جنہوں نے آپ کو اور اہل اسلام کو سخت اذیتیں پہنچائیں ، بعد میں اسلام لے آئے۔ چناچہ ابوسفیان ، عکرمہ بن ابوجہ۔ ل ، خالد بن ولید ، صفوان بن امیہ ، عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ انہی لوگوں میں شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرداً فرداً سب کو ایمان کی دولت عطا کی ، ابوسفیان اور عکرمہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے۔ خالد بن ولید اور صفوان بن امیہ فتح مکہ سے پہلے ہی اسلام لا چکے تھے۔ اور اسی طرح بعض دوسرے لوگ بھی حضور ﷺ کے جانثاروں میں شامل ہوگئے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت میں ہے کہ کون اس قابل ہے کہ اس کی توبہ قبول کرلی جائے۔ اور کون ہے جو دائمی سزا کا مستحق ہے۔ چناچہ بہت سے لوگوں کو ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ، وہ سزا کے مستوجب ٹھہرے۔ انہی کے متعلق فرمایا۔ فانھم ظالمون۔ ظلم کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بددعا کرنے سے منع فرما دیا۔ بعض دوسرے مواقع پر حضور ﷺ کی بد دعا کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ان لوگوں نے آپ پر بہت زیادتی کی ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ، تو آپ رک گئے ، کیونکہ کسی کو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہ کسی وقت بھی ہدایت دے سکتا ہے۔ لہذا آپ کو بدد عا کرنے سے روک دیا گیا۔ فرمایا۔ وللہ ما فی السموات و ما فی الرض۔ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی ہی ملکیت ہے۔ ہر چیز پر اسی کا تصرف ہے۔ ہر ہر مقام پر حکم اور حکومت اللہ جل شانہ کی ہے۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرنے والے ہیں۔ خدا کی خوشنودی کے کام انجام دینے والے ہیں۔ آپ دوسروں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لست علیھم بمصیطر۔ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں کہ آپ ان کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ بلکہ انما انت مذکر۔ آپ تو نصیحت کرنے والے ہیں۔ انما علیک البلاغ۔ آپ کے ذمہ ہماری شریعت اور دین ان تک پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد۔ وعلینا الحساب۔ ان سے حساب ہم خود لیں گے۔ فرمایا چونکہ سب کچھ خدا تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس لیے یغفر لمن یشاء۔ وہ جس کو چاہے معاف فرما دے۔ توبہ کی توفیق عنایت کردے اور وہ لوگ ایمان قبول کرلیں ، تو ان کی بخشش کا سبب بن سکتا ہے۔ چناچہ اکثر لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر بخشش کے مستحق بن گئے۔ اور پھر جنہوں نے ایمان قبول نہ کیا۔ ان کے متعلق فرمایا۔ و یعذب من یشاء۔ وہ جس کو چاہے سزا دے۔ آپ پر اس ضمن میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ دل برداشتہ ہو کر ان کے لیے بد دعا نہ کریں۔ واللہ غفور رحیم۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔ وہ جس کو چاہے گا ، تو بہ کی توفیق دے کر اس کے لیے بخشش کے دروازے کھول دے گا۔
Top