Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اور یہ تو اللہ نے اس لیے کیا کہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہیں اس سے دلجمعی حاصل ہوجائے، ورنہ نصرت تو بس زبردست اور حکمت والے اللہ ہی کی طرف سے ہے،259 ۔
259 ۔ (نہ کہ فرشتوں، یا اور کسی مخلوق کی طرف سے) یہ گویا صاف طور پر بتادیا کہ حقیقۃ متصرف ذات باری تعالیٰ ہے، فرشتے ہوں یا کوئی اور، کسی کا بھی ذریعہ امداد ہونا سبب ظاہری کے درجہ سے زیادہ نہیں، ملائکہ پرستی، دیوتا پرستی کی جڑ یہیں سے کٹ جاتی ہے۔ ضمنا اس جانب بھی اشارہ ہوگیا کہ اسلام کی کامیابی، اور فتح مندی حقیقۃ تمامتر تائد غیبی کا نتیجہ ہے۔ (آیت) ” وما جعلہ “ میں ضمیر اسی وعدہ امداد ملائکہ کی جانب ہے۔ الھاء للوعد او الامداد (قرطبی 9 ای الا مداد (روح) (آیت) ” الا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ “۔ یعنی یہ تو فتح نصرت کا صرف مقدمہ تھا۔ (آیت) ” وما النصر “ سے مراد نصرت حقیقی وواقعی ہے۔ (آیت) ” العزیز “۔ اس پر قادر کہ جب اور جیسے بلااسباب ظاہر، بلکہ خلاف اسباب ظاہر فتح دلا دے اور کامیاب کرادے۔ (آیت) ” الحکیم “۔ عام فطرت بشری کی رعایت سے اسباب ظاہری کا جمع کردینے والا۔
Top