Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اور اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے (ذریعہ) بشارت بنایا یعنی اس لئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر : 126 تا 127۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما جعلہ اللہ الا بشری لکم “۔ اس میں ضمیر مدد کے لئے ہے اور وہ ملائکہ ہیں یا وعدہ ہے یا امداد ہے، اور اس پر قول باری تعالیٰ (آیت) ” یمددکم “۔ دلالت کرتا ہے یا پھر ضمیر تسویم (نشان لگانا) یا انزال (اتارنا) یا معنوی طور پر عدد کے لئے ہے، کیونکہ خمسۃ آلاف عدد ہے، (آیت) ” ولتطمئن قلوبکم بہ “۔ اس میں لام، لام کی ہے، یعنی ” ولتطمئن قلوبکم بہ جعلہ “۔ (تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں ایسا کیا) اسی طرح یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وزینا السماء الدنیا بمصابیح وحفظا “۔ ای حفظا لھا جعل ذالک (اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں کے ساتھ آراستہ کیا اور اس کی حفاظت کے لئے اسے بنایا) (آیت) ” وما النصر الا من عند اللہ “۔ یعنی مومنین کی مدد ونصرت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس میں کافروں کی مدد وداخل نہیں ہے، کیونکہ انہیں جو غلبہ ہوتا ہے وہ بلاشبہ رسوائی، برے انجام اور خسارے سے بھرا اور گھرا ہوتا ہے۔ (آیت) ” لیقطع طرفا من الذین کفروا “۔ ترجمہ : یعنی تاکہ وہ قتل کے ساتھ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے۔ اور نظم آیت اس طرح ہے : ولقد نصرکم اللہ ببدرلیقطع۔ (تحقیق اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن تمہاری مدد فرمائی تاکہ وہ کاٹ دے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی ہے وما النصر الا من عند اللہ لیقطع (مدد نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے تاکہ وہ کاٹ دے۔ ) اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ یمدد کم کے متعلق ہو، (یعنی وہ تمہاری مدد کرے گا تاکہ وہ کاٹ دے) اور معنی ہے : مشرکین میں سے جو بدر کے دن قتل کئے گئے، حسن وغیرہ سے یہ منقول ہے، سدی نے کہا ہے : یعنی اس کے ساتھ جو مشرکین غزوہ احد کے دن قتل کئے گئے اور وہ اٹھارہ آدمی تھے۔ اور ” یکبتھم “۔ کا معنی ہے ” یحزنھم ‘۔ (یا وہ انہیں پریشان اور غمزدہ کردے۔ اور المکبوت کا معنی محزون (غمگین) ہے اور روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے پاس آئے تو ان کے بیٹے کو پریشان اور غمزدہ دیکھا، تو فرمایا :” اسے کیا ہوا ہے ؟ “ تو عرض کی گئی : اس کا اونٹ مرگیا ہے، اور اس کی اصل جو کہ بعض اہل لغت نے بیان کی ہے یکبدھم ہے ای یصیبھم بالحزن والغیظ فی اکبادھم (1) (معالم التنزیل، جلد 1 صفحہ 545، ) (یعنی وہ انہیں غم وانددوہ اور غیظ وغضب ان کے دلوں (کلیجوں) میں پہنچائے) پھر دال کو تا سے بدل دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سبت راسہ اور سبدہ میں دال کو تا سے بدلا گیا ہے یعنی اس نی اس کا سر مونڈ دیا (2) (ایضا) کبت اللہ العدوکبتا (یہ تب کہا جاتا ہے) جب اللہ تعالیٰ دشمن کو پھیر دے اور اسے ذلیل ورسوا کر دے، اور کبدہ کا معنی ہے اصابہ فی کبدہ (یعنی اس نے اس کے دل میں تکلیف پہنچائی) کہا جاتا ہے : قداحرق الحزن کبدہ (غم نے اس کے دل کو جلا دیا) اور احرقت العداوۃ کبدہ (دشمنی نے اس کا جگر جلا دیا) اور عرب دشمن کے لئے کہتے ہیں : اسود الکبد۔ (جگر سیاہ ہوگیا) اعشی نے کہا ہے : فما اجشبت من اتیان قوم سم الاعداء والاکباد سود : اس میں الاکباد سود جگر سیاہ ہونے کے معنی میں ہے۔ گویا کہ شدت عداوت کے سبب جب جگر جل جاتا ہے تو وہ سیاہ ہوجاتا ہے، اور ابو مجلز نے او یکبدھمدال کے ساتھ پڑھا ہے اور الخائب سے مراد وہ ہے جسکی امید ٹوٹ چکی ہو (کچھ ہاتھ نہ آئے) خاب یخیب اذا لم ینل ماطلب یعنی جو طلب کیا جب وہ اسے نہ پائے تو اس کے لئے خاب یخیب کا لفظ کہا جاتا ہے، اور الخیاب یعنی ایسا عیب ہے جسے وہ چھپا نہ سکتا ہو۔
Top