Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
یہ بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتادی ہے کہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں ۔ فتح ونصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا اور بینا ہے
قرآن کریم نے اسلامی تصور حیات میں مشیئت الٰہی کی کارفرمائی پر بہت زور دیا ہے ۔ اور اسے ہر شک وشبہ سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کا باربار ذکر کیا ہے کہ دنیاوی اسباب کسی صورت میں موثر نہیں ہوتے ۔ اللہ کی قدرت اور مومن کے دل و دماغ کے درمیان ایک خاص رابطہ ہوجاتا ہے ۔ اللہ اور بندے کے درمیان حائل پردے اٹھ جاتے ہیں ۔ اللہ اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق قائم ہوجاتا ہے اور اس میں کبھی کوئی رکاوٹ قائم نہیں ہوتی ۔ جس طرح عالم موجودات میں اور عالم حقائق میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس قسم کی ہدایات بار بار دہرائی جاتی ہیں ‘ مختلف اسالیب میں ان کی تاکید کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے دل میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جاتی ہے ‘ وہ اس حقیقت کا ایک عجیب گہرا ‘ روشن اور سنجیدہ شعور رکھتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی اس کائنات کے تمام امور میں فاعل اور مؤثر ہے ‘ انہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور ہیں کہ وہ اسباب ووسائل فراہم کریں ‘ جدوجہد کریں اور ہر کام کے سلسلے میں اپنی سی کوشش کریں ‘ لیکن اس حقیقت کا بھی انہیں پختہ شعور ہو کہ ہوگا وہی جو اللہ کی مشیئت چاہے لیکن اس پختہ یقین کے ساتھ ساتھ وہ اطاعت کرتے ہیں اور شعوری توازن کے ساتھ ہر وقت وہ متحرک رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود قرآن کریم نے یہ شعور ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کی فکر میں بٹھایا ۔ کچھ واقعات پیش آئے ‘ ان واقعات نے مسلمانوں کی تربیت کی ‘ ان واقعات سے نتائج اخذ کئے گئے اور اس سورت میں ایسی تربیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان آیات میں بدر کا منظر نظروں کے سامنے ہے ۔ اس منظر میں رسول اکرم ﷺ اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے خصوصی امداد نازل ہوگی بشرطیکہ وہ صبر وثبات سے کام لیں اور معرکے میں انسانوں سے ڈرنے کے بجائے صرف تقویٰ اور اللہ خوفی کی راہ اختیار کریں ۔ عین اس وقت جب ان کا کفار کے ساتھ آمنا سامنا ہو ‘ اس کے بعد یہاں قرآن کریم نزول ملائکہ کے بھی پس منظر میں جاکر یہ باور کراتا ہے کہ اصل قوت فاعلہ ذات باری ہے ۔ تمام امور اس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کے ارادے کے تابع ہیں اور صرف اس کے اذن اور اس کے ارادے سے فتح ونصرت نصیب ہوگی ۔ وَللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ……………” اور اللہ ہی بڑی قوت والا اور بینا ہے۔ “ وہ بڑی قوت والا ہے ‘ صاحب اقتدار ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ نصرت اور فتح عطاکرے اور اس کے ساتھ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی قدرت دانائی کے مطابق جاری وساری ہے ۔ اور وہ فتح اس لئے عطا کرتا ہے کہ اس میں اس کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔
Top