Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اور اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے (ذریعہ) بشارت بنایا یعنی اس لئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے
آیت 126 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا احسان یاد دلایا ہے، اور انہیں اپنی وہ مدد یا ددلائی ہے جو بدر کے موقع پر ہوئی۔ جب وہ کمزور تھے، ان کی تعداد بھی کم تھی، اور سامان بھی۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد اور سامان جنگ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ غزوہ بدر ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوا۔ نبی ﷺ مدینہ منورہ سے تین سو دس سے چند افراد زیادہ کی تعداد میں اپنے صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ آپ قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں نکلے تھے۔ جو شام سے آرہا تھا۔ مشرکین کو اطلاع ملی تو وہ اپن قافلے کو بچانے کے لئے پوری طرح تیار ہو کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ وہ تقریباً ایک ہزار جنگ جو تھے جن کے پاس مکمل سامان رسد، بکثرت ہتھیار اور بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ایک چشمے کے پاس ہوا، جسے ” بدر “ کہتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم مدد فرمائی۔ چناچہ انہوں نے مشرکین کے ستر بہادر سردار قتل کئے اور ستر کو جنگی قیدی بنایا اور ان کی لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا۔ جیسے سورة انفال میں انشاء اللہ بیان ہوگا۔ اس کی تفصیل کا اصل مقام وہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صرف اس لئے کیا ہے کہ مسلمان اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کا شکر کریں۔ اس لئے فرمایا : (فاتقوا اللہ لعلکم تشکرون) ” اللہ ہی سے ڈرو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ “ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہی اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جو تقویٰ ترک کردیتا ہے، وہ شکر گزار نہیں ہوتا۔ اے محمد ﷺ ! یاد کیجیے جب بدر کے دن آپ مومنوں کو فتح کی خوش خبری دیتے ہوئے ان سے فرما رہے تھے : (الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملٰئکۃ منزلین) ” کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ہوگا کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ؟ “ (بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا) ” بلکہ اگر تم صبر اور پرہیز گاری کرو، اور وہ اپنے اس جوش سے تمہارے مقابلے میں آئیں۔ “ (من فورھم ھذا) کا مطلب ہے (من مقصدھم ھذا) ” اپنے کسی ارادے اور عزم کے ساتھ “ اس سے زوہ بدر مراد ہے۔ (یمددکم ربکم بخمسۃ الف من الملٰئکۃ مسومین) ” تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا، جو نشان دار ہوں گے “ یعنی ان پر بہادروں کا خصوصی نشان ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کی مدد کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں : صبر، تقویٰ اور مشرکین کا فوری جوش و جذبہ کے ساتھ آنا۔ یہ وعدہ مذکورہ بالا فرشتوں کے بطور امداد فوج کے نازل ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن فتح اور دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے اللہ نے پہلی دو شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ جیسے کہ پیل فرمان الٰہی گزرا ہے۔ (وان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدھم شیئاً ) (ال عمران :120/3) ” اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کے منصوبے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے “ اس کے بعد فرمایا : (وما جعلہ اللہ الا بشریٰ ) ” اللہ نے اس چیز کو (یعنی فرشتے اتار کر تمہیں کمک پہنچانے کو) صرف خوش خبری بنایا ہے “ تاکہ اس سے تمہیں خوشی حاصل ہو۔ (ولتطمئن قلوبکم بہ) ” اور اس بشارت سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں۔ “ (وما النصر الا من عند اللہ) ” ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے “ لہٰذا اپنے اسباب پر اعتماد نہ کرو بلکہ اسباب صرف تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے ہیں۔ اصل فتح، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ تو اللہ کی مشیت ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کی مدد کرنے کا ارادہ فرما لے وہی فتح یاب ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس فریق کی مدد کرے جس کے پاس اسباب ہیں، جیسے عام طور پر مخلوق ہیں اس کی سنت جاری ہے اور اگر چاہے تو کمزور اور معمولی فریق کی مدد کرے، تاکہ اس کے بندوں کو معلوم ہوجائے کہ سب کام اس کے ہاتھ میں ہیں اور سب معاملات کا دار و مدار اس کی مرضی پر ہے۔ اس لئے فرمایا : (وما النصر الا من عند اللہ العزیز) ” مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے “ کوئی مخلوق اس کے آگے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کی تدبیر اور غلبے کے آگے کمزور اور مجبور ہیں۔ (الحکیم) ” حکمتوں الا ہے “ جو ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ بعض اوقات کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ کفار کا یہ غلبہ مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (ولویشآء اللہ لانتصرمنھم ولکن لیبلوا بعضکم ببعض) (محمد :3/83) ” اگر اللہ چاہتا تو خود ہی بدلہ لے لیتا، لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے سے لے۔ “
Top