Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا
: اور نہیں
جَعَلَهُ
: کیا۔ یہ
اللّٰهُ
: اللہ
اِلَّا
: مگر وہ صرف
بُشْرٰى
: خوشخبری
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَلِتَطْمَئِنَّ
: اور اس لیے اطمینان ہو
قُلُوْبُكُمْ
: تمہارے دل
بِهٖ
: اس سے
وَمَا
: اور نہیں
النَّصْرُ
: مدد
اِلَّا
: مگر (سوائے
مِنْ
: سے
عِنْدِ اللّٰهِ
: اللہ کے پاس
الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ
: حکمت والا
اور نہیں بنایا اس کو اللہ تعالیٰ نے مگر تمہارے لیے بشارت تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں اور مدد نہیں آتی مگر اللہ کی جانب سے جو غالب اور حکمت والا ہے
وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی لَـکُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُـکُمْ بِہٖ ط وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَکِیْمِ ۔ لا لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْیَـکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآئِبِیْنَ ۔ (اور نہیں بنایا اس کو اللہ تعالیٰ نے مگر تمہارے لیے بشارت تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں اور مدد نہیں آتی مگر اللہ کی جانب سے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ تاکہ اللہ کافروں کے ایک حصے کو کاٹ دے یا انھیں رسوا کر دے کہ وہ خوار ہو کر لوٹیں) (126 تا 127) فرشتوں کا اترناصرف بشارت ہے، مدد اللہ کی جانب سے ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو فرشتوں کے نازل کرنے کی خوشخبری سنائی ہے اس سے بظاہر یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ بھی اگر کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنے فرشتوں کا محتاج ہے۔ جیسے بڑے سے بڑا بادشاہ کسی دشمن کو زیر کرنے یا اپنے کسی مخلص کی مدد کرنے کے لیے اپنی فوجوں کا محتاج ہوتا ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ انسان چونکہ ظاہری اسباب کی خوشخبری سے متأثر ہوتا اور اس کا پریشان دل ایسی خوشخبری سے مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہاں بھی یہ خوشخبری اس لیے سنائی گئی تاکہ تین سو منافقین کے الگ ہونے سے جو ایک دھچکا لگا ہے اور اندیشہ ہائے دور دراز سے مسلمان دوچار کردیے گئے ہیں اس کا ازالہ ہوجائے اور مسلمانوں کے دلوں کو ایک اطمینان ملے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید فرشتوں کی شکل میں ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ یہ محض تمہاری تسلی کے لیے ہم نے فرشتے بھیجے یا ان کی آمد کی خوشخبری سنائی ورنہ تمہاری مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کی ہرگز احتیاج نہیں، وہ کسی کام میں کسی کا محتاج نہیں۔ البتہ فرشتے ہر کام میں اس کے محتاج ہیں۔ مدد جب بھی آتی ہے اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ حقیقی مدد دینے والا وہی ہے۔ مخلوقات میں سے اگر کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے کرتا ہے۔ تو وہ مدد بھی درحقیقت اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ نے ریت کے کنکروں کی مٹھی بھر کے پھینکی تو اس سے قریش کے لشکر کے پائوں اکھڑ گئے۔ قرآن کریم نے اس کے بارے میں فرمایا : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (وہ مٹھی آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی) یعنی اس میں قوت اور اثر پیدا کرنا اللہ کی قدرت سے تھا، آپ کی قدرت سے نہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے بارے میں فرمایا : فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ ( مسلمانو ! تم نے کافروں کو قتل نہیں کیا انھیں تو اللہ نے قتل کیا ہے) یعنی اللہ کی تائید و نصرت نہ آتی تو تم کافروں کو قتل نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بھروسہ اور توکل اللہ پر رکھو مدد کے لیے ہاتھ اسی کے سامنے پھیلائو۔ قدرتوں کا مالک اسی کو جانو۔ درمیان کے واسطے سب اسی کی توفیق سے ہیں۔ کسی کو حقیقی قدرت کا مالک نہ جانو۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو ہمیشہ مسلمان کی قوت کا باعث رہا ہے اور اسی میں کمزوری پیدا ہوجانے سے مسلمان دردر کی ٹھوکریں کھانے لگا ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ مسلمانوں کی تائید و نصرت بجائے خود مقصود نہیں بلکہ وہ اس لیے نوازے جا رہے ہیں کہ ان کے ذریعے سے کفر کی طاقت کو توڑنا اور ان کو ذلیل و خوار کرنا مقصود ہے۔ جب تک مسلمانوں کے پیش نظر اعلائے کلمتہ الحق، غلبہ دین اور دین کے دشمن کو ناکام کرنا رہے گا اس وقت تک اللہ کی تائید ان کے شامل حال رہے گی۔ لیکن جب ان کے اندر کمزوریاں پیدا ہوں گی اور وہ خدائی فوجدار بننے کی بجائے اپنی ذات کی سربلندی یا کسی اور کی سربلندی کے لیے کام کرنا شروع کردیں گے تو پھر وہ اللہ کی تائید و نصرت سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ کی نافرمانی اور اس کی تائید و نصرت ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔ جب بھی اس کی نافرمانی ہوگی مسلمان تائید و نصرت سے محروم ہوجائیں گے۔ چاہے اللہ کا رسول بھی ان میں موجود ہو۔ چناچہ جنگ بدر میں فتح کی صورت میں اسی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کی گئی اور جنگ احد میں شکست کی صورت میں مسلمانوں کو یہی سبق دیا گیا۔ منافقین کے علیحدہ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی۔ آنحضرت ﷺ انہی کو لے کر احد کی طرف بڑھے۔ دشمن پہلے سے وہاں پہنچ چکا تھا۔ آپ دشمن کو ایک طرف رکھ کر چکر کاٹتے ہوئے احد کے سامنے پہنچ گئے۔ پہاڑ کو پشت پر رکھ کر آپ نے صف آرائی کی۔ حضرت مصعب بن عمیر ( رض) کو علم عنایت کیا، حضرت زبیر ابن العوام ( رض) رسالے کے افسر مقرر ہوئے۔ حضرت حمزہ ( رض) کو فوج کے اس حصے کی کمان دی گئی جو زرہ پوش نہ تھے۔ پشت کی طرف سے احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے حملہ نہ کر دے کیونکہ کوہ احد اور جبل الرماۃ کے درمیان درّے کی صورت میں ایک گزرہ گاہ تھی۔ جہاں سے دشمن کو راستہ مل سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ اس ٹیلے پر متعین فرمایا جسے اب جبل الرماۃ کہا جاتا ہے۔ اب تو اس کی بلندی بہت کم رہ گئی ہے اور وسعت بھی شاید تجاوزات کا شکار ہوگئی ہے۔ لیکن اس وقت وہ یقینا قابل ذکر ایک چھوٹا پہاڑ تھا ان تیر اندازوں کے افسر عبداللہ بن جبیر ( رض) مقرر کیے گئے اور انھیں ہدایت کی گئی کہ لڑائی کا نتیجہ کچھ بھی ہو تمہیں کسی صورت اپنی جگہ سے نہیں ہٹنا۔ تمہارے سامنے ہماری بوٹیاں کیوں نہ نوچ لی جائیں تم اپنی جگہ ڈٹے رہنا۔ قریش نے بھی جنگ بدر کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صف بندی کی اور نمایاں لوگ نمایاں جگہوں میں مقرر کیے گئے۔ سب سے پہلے طبل جنگ کی بجائے خاتونانِ قریش دف پر اشعار پڑھتی ہوئی آگے بڑھیں، جن میں کشتگانِ بدر کا ماتم اور انتقامِ خون کے رجز تھے۔ ھند آگے آگے اور چودہ عورتیں ساتھ ساتھ تھیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں یہ اشعار پڑھ رہی تھیں ؎ نَحْنُ بَنَاتُ طَّارِقِ (ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں) نَمْشَیْ عَلَی النَّمَُارِقِ (ہم قالینوں پر چلنے والیاں ہیں) اِنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقُ (اگر تم بڑھ کر لڑو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گی) اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقُ (اور پیچھے قدم ہٹایا تو ہم تم سے الگ ہوجائیں گی) قریش کا علمبردار طلحہ صف سے نکل کر پکارا ” کیوں مسلمانو ! تم میں کوئی ہے جو مجھ کو جلد دوزخ میں پہنچا دے اور یا خود میرے ہاتھوں بہشت میں پہنچ جائے ؟ “ حضرت علی مرتضی ( رض) نے صف سے نکل کر کہا ” میں ہوں۔ “ یہ کہہ کر تلوار ماری اور طلحہ کی لاش زمین پر تھی۔ طلحہ کے بعد اس کا بھائی عثمان رجز پڑھتا ہوا آگے بڑھا، علم ہاتھ میں لیا۔ حضرت حمزہ ( رض) مقابلہ کو نکلے اور شانہ پر تلوار ماری کہ کمر تک اتر گئی۔ ساتھ ہی ان کی زبان سے نکلا ” میں ساقی حجاج کا بیٹا ہوں۔ “ اب عام جنگ شروع ہوگئی۔ حضرت حمزہ ( رض) ، حضرت علی ( رض) ، حضرت ابو دجانہ ( رض) فوجوں کے دل میں گھسے اور صفوں کی صفیں الٹ ڈالیں۔ اچانک آنحضرت ﷺ نے نیام سے تلوار نکالی اور ہوا میں لہرائی۔ فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا ؟ حضرت علی، حضرت عمر اور حضرت ابو دجانہ ( رض) اور کئی بہادروں نے ہاتھ بڑھائے لیکن ابو دجانہ ( رض) کی قسمت نے یاوری کی۔ آپ ﷺ نے اپنی تلوار انھیں عنایت فرمائی۔ حضرت ابودجانہ ( رض) سر پر سرخ پٹی باندھ کر تلوار ہوا میں لہراتے ہوئے مستانہ وار آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ چال اللہ کو پسند نہیں لیکن آج یہی چال پسند ہے۔ حضرت ابو دجانہ ( رض) فوجوں کو چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشیں گراتے ہوئے بڑھتے چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہند سامنے آگئی۔ اس کے سر پر تلوار رکھ کر اٹھا لی کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار اس سے بلند ہے کہ عورت پر آزمائی جائے۔ حضرت حمزہ ( رض) دو دستی تلوار مارتے جاتے تھے اور جس طرف بڑھتے تھے صفوں کی صفیں صاف ہوتی جاتی تھیں۔ اسی حالت میں سباغ غبثانی سامنے آگیا۔ پکارے ” او ختانۃ النساء کے بچے کہاں جاتا ہے “ یہ کہہ کر تلوار ماری وہ خاک پر ڈھیر تھا۔ وحشی جو ایک حبشی غلام تھا اور جس سے جبیر بن مطعم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تو حضرت حمزہ کو قتل کر دے تو آزاد کردیا جائے گا۔ وہ حضرت حمزہ کی طاق میں تھا۔ حضرت حمزہ ( رض) برابر آئے تو اس نے چھوٹا سا نیزہ جس کو حربہ کہتے ہیں اور جو حبشیوں کا خاص ہتھیار ہے پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور پار ہوگیا۔ حضرت حمزہ ( رض) نے اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن لڑکھڑا کر گرپڑے اور روح پرواز کرگئی۔ لڑائی اپنے عروج پر تھی، بہادر بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دے رہے تھے، کفار کے علمبردار ایک ایک کر کے کٹتے جا رہے تھے۔ بالآخر مسلمانوں کی ہمت، شجاعت اور اللہ کی تائید و نصرت کام آئی کہ کافروں کے پائوں اکھڑ گئے۔ اور وہ بہادرانِ اسلام کا مقابلہ کرنے کی بجائے پائوں سر پر رکھ کر بھاگے۔ بہادر نازنین جو رجز سے دلوں کو ابھار رہی تھیں بدحواسی کے ساتھ پیچھے ہٹیں اور مطلع صاف ہوگیا۔ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں نے لوٹ شروع کردی۔ یہ دیکھ کر تیر انداز جو پشت پر مقرر کیے گئے تھے وہ بھی غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ( رض) نے بہت روکا، لیکن وہ رک نہ سکے۔ خالدبن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن اس وقت بھی دوربینی اور شجاعت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کی نگاہ بیدار نے جب تیر اندازوں کی جگہ خالی دیکھی تو پہاڑ کا چکر کاٹ کر سواروں کے دستے کے ساتھ نہایت بےجگری سے حملہ کیا۔ لوگ لوٹنے میں مصروف تھے، مڑ کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں۔ بدحواسی میں دونوں فوجیں اس طرح باہم مل گئیں کہ خود مسلمان مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ حضرت مصعب بن عمیر ( رض) جو آنحضرت ﷺ سے صورت میں مشابہ اور علمبردار تھے ابن قمیہ نے ان کو شہید کردیا۔ شور مچ گیا کہ آنحضرت ﷺ شہید کردیے گئے ہیں۔ اب کچھ نہ پوچھئے مسلمانوں پر کیسی قیامت یں گزریں ؟ جیتی ہوئی بازی ہار میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن یہ بات ثابت ہوگئی کہ صبر وتقویٰ کے بغیر اللہ کی تائید و نصرت شامل حال بھی ہو تو واپس پلٹ جاتی ہے۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کے ساتھ رسول موجود بھی ہو تو تو اللہ کی نصرت نہیں اترتی۔ اسی سورت میں آگے چل کر پروردگار نے اس بات کا ذکر فرمایا ہے : وَلَقَدْ صَدَقَـکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ ج حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُالدُّنْیَا وَ مِنْـکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُالْاٰخِرَۃَ ج ثُّمَّ صَرَفَـکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَـکُمْ ج (152) (اور اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب کہ تم خدا کے حکم سے ان کافروں کو تہہ تیغ کر رہے تھے یہاں تک کہ تم نے کمزوری دکھائی اور تعمیلِ حکم میں اختلاف کیا اور اس وقت نافرمانی کی جب کہ خدا نے تمہیں تمہاری محبوب چیز ” فتح “ دکھا دی، تم میں کچھ دنیا کے طالب ہوئے اور کچھ آخرت کے تو اللہ نے تمہارا رخ ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائش میں ڈالے) اسی افراتفری میں آنحضرت ﷺ زخمی ہو کر ایک کھائی میں گرپڑے۔ مغفر کی دو کڑیاں چہرہ مبارک میں چبھ کر رہ گئیں۔ جانثاروں نے جانیں دے کر آپ ﷺ کو محفوظ رکھا۔ لیکن آپ ﷺ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ انتہائی تأسف کی حالت میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ وہ قوم کیا فلاح پاسکتی ہے جو اپنے پیغمبر کو زخمی کرتی ہے۔ چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ اس پر اگلی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
Top