Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
فرشتوں سے مدد کی خبر اللہ نے تمہیں صرف اس لیے دی ہے کہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد 115 تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا زبردست اور حکمت والا ہے
115 میدان بدر میں اللہ نے جو نزول ملائکہ کی تمہیں خوشخبری دی تھی وہ تو محض اس لیے تھی کہ تمہارے دل مضبوط ہوجائیں اور تم پورے وثوق کے ساتھ جم کر لڑائی کے میدان میں اترو اور فرشتوں پر ہی کیا منحصر ہے مدد کی جو بھی صورت ہو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ چناچہ بدر کے میدان میں اللہ نے چار طرح سے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔ مثلاً (1) اللہ نے ہوا کا رخ کفار کے لشکر کی طرف موڑ دیا اور ریت نے اڑ اڑ کر ان کے لشکر کو بدحال بنادیا۔ (2) بارش کا نزول جس سے کفار کے پڑاؤ میں تو پھسلن اور دلدل مچ گئی۔ جبکہ مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت جم کر بیٹھ گئی۔ نیز انہیں استعمال کے لیے وافر پانی میسر آگیا۔ (3) فرشتوں کا نزول چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے بدر کے دن فرمایا : یہ جبریل آن پہنچے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے، لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے (بخاری، کتاب المغازی، باب شہود الملائکہ بدرا) نیز حضرت رفاعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگے : آپ اہل بدر کو کیسا سمجھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : سب مسلمانوں سے افضل یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا : جبریل کہنے لگے : اسی طرح وہ فرشتے جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) اور (4) مسلمانوں کی مدد کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ کفار کو مسلمان مجاہدین کی تعداد اصل تعداد سے دوگنی نظر آنے لگی تھی۔
Top