Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 149
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ
وَنُفِخَ : اور پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَاِذَا هُمْ : تو یکایک وہ مِّنَ : سے الْاَجْدَاثِ : قبریں اِلٰى رَبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف يَنْسِلُوْنَ : دوڑیں گے
اور پھونکا جائے گا صور میں ، پس اچانک وہ لوگ قبروں سے اٹھ کر اپنے پروردگار کی طرف دوڑیں گے
ربط آیات اپنی آیات قدرت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کی مذمت بیان فرمائی اور یہ بھی کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آگے پیش آنے والے حالات کے لیے کچھ تیاری کرلو ، اور جو اعمال پیچھے چھوڑ آئے ہو ان کے متعلق بھی غور و فکر کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے تو یہ لوگ نشانات قدرت دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا اعتراض کرنے لگتے ہیں۔ پھر اللہ نے ان میں سے مالداروں کی حالت کا ذکر بھی کیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے غرباء اور مساکین پر بھی خرچ کرو تو کہتے ہیں کہ جن کو خود خدا تعالیٰ بھوکا رکھنا چاہتا ہے یعنی ان کو نادار بنایا ہے ، بھلا ہم ان کی اعانت کریں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ تو نہایت ہی گمراہی کی بات ہے ، بلاشبہ ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر یہ اس کا طریق کار ہے کہ کسی کو بالواسطہ روزی پہنچاتا ہے اور کسی کو بلاواسطہ وہ ان محتاجوں کو مالداروں کے واسطہ سے روزی پہنچانا چاہتا ہے مگر یہ حیلے بہانے سے ان کا حق ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نیز اللہ نے یہ فرمایا کہ وہ ہر ایک کی آزمائش کرتا ہے ، کسی کو مال و دولت دے کر آزماتا ہے اور کسی کو محروم رکھ کر آزمائش میں ڈالتا ہے۔ پھر اللہ نے قیامت کا ذکر بھی کیا کہ کافر لوگ اس کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر واقعی قیامت آنے والی ہے اور محاسبہ اعمال ہونے والا ہے تو وہ قیامت آ کیوں نہیں جاتی۔ اللہ نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ قیامت بھی اپنے مقررہ وقت پر ہی آئے گی جب وہ وارد ہوجائے گی تو پھر کسی کو ایک گھڑی بھر بھی مہلت نہیں ملے گی۔ حتی کہ کوئی شخص نہ تو کوئی وصیت کرسکے گا اور نہ ہی اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ سکے گا کہ ان کے ساتھ کوئی بات چیت ہی کرلے بلکہ جس مقام پر بھی ہزوگا وہیں اس کو ختم کردیا جائے گا۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت اور لوگوں کی بعثت کے متعلق بعض حالات ذکر کئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ونفخ فی الصور اور صور میں پھونکا جائے گا۔ وقوع قیامت کا عمل صور پھونکنے سے ہوگا۔ اللہ کا ایک فرشتہ منہ (ترمذی ص 467) میں سینگ کی شکل کا ایک بگل تھامے کھڑا ہے اور منتظر ہے کہ کب اللہ کا حکم ہو تو وہ اس صور میں پھونک مارے۔ جب یہ صور پھونکا جائے گا تو اس سے سارے جاندار ہلاک ہوجائیں گے۔ قرآن پاک میں موجود ہے کہ صور دو دفعہ پھونکا جائے گا اور دونوں (مسلم ص 406 ج 3 و بخاری ص 735 ج 2) کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا۔ جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہوجائے گی پھر چالیس سال کے بعد جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور میدان حشر میں اپنے رب کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ اس مقام پر اسی دوسرے صور پھونکنے کا ذکر ہو رہا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا فاذاھم من الاجداث الی ربھم ینسلون تو اچانک سب لوگ قبروں سے اٹھ کر اپنے رب کی طرف دوڑتے ہوئے جائیں گے ، جس طرف سے آواز آرہی ہوگی اس طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔ سورة المعارج میں ہے کہ اس تیزی کے ساتھ دوڑیں گے کانھم الی نصب یوفضون (آیت 43) جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف یا تیر اپنے نشانے کی طرف تیزی سے جاتا ہے۔ اس وقت ساری مخلوق سخت پریشانی میں مبتلا ہوگی۔ قرآن میں اس کی تفصیلات موجود ہیں کہ سخت دھوپ ، اس کی تپش ، لوگوں کا عظیم اجتماع اور بھوک پیاس کی شدت ہوگی اور لوگ سخت گھبراہٹ کے عالم میں ہوں گے۔ اور اس وقت قالوا یویلنا من بعثنا من مرقدنا کہیں گے ہائے افسوس ! ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کس نے اٹھا دیا۔ مرقد لیٹنے یا آرام کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ صور پھونکے جانے کے بعد جب لوگ اچانک اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ اسے اپنے آرام میں خلل تصور کریں گے۔ یہاں پر یہ شکال وارد ہوتا ہے کہ قبر کی زندگی تو برزخی زندگی ہے جس میں ہر نیک و بد کو جزا اور سزا کا احساس بھی ہوتا رہتا ہے مگر آیت زیر درس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ مکمل آرام کی حالت میں ہوں گے اور وہ صور میں پھونکنے سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مرنے کے بعد برزخ کی جزا یا سزا آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ چیز اہل سنت والجمات کے عقیدے میں داخل ہے یہ جزا یا سزا معمولی نوعیت کی اور عارضی ہوگی جب کہ حقیقی جزا یا سزا میدان حشر میں جزائے عمل کا فیصلہ ہونے کے بعد شروع ہوگی۔ مفسرین (روح المعانی ص 32 ج 33 و مظہری ص 90 ج 8) کرام اس اشکال کو دو طریقے سے رفع کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلے صور پھونکے جانے کے بعد دوسرے صور تک چالیس سال کے عرصہ میں کوئی ثواب یا عذاب نہیں ہوگا۔ گویا اس دوران سزا موقوف رہے گی۔ پھر جب لوگ دوبارہ اٹھیں گے تو محسوس کریں گے کہ وہ تو آرام سے سوئے ہوئے تھے ، یہ کس نے جگا کر ان کے آرام میں خلل ڈالا۔ مفسرین کرام ( مظہری ص 90 ج 8) اس کی دوسری توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یرزخ کی سزا تو معمولی نوعیت کی ہوگی ، پھر جب وہ دوبارہ اٹھ کر حشر کی تلخی کو دیکھیں گے تو وہ برزخ کی سزا کو بھول جائیں گے ، گویا انہیں کوئی سزا ملی ہی نہیں تھی لہٰذا وہ کہیں گے کہ ہمیں خواب گاہوں سے کس نے جگا دیا ، ہم تو آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوگا ھذا ما وعد الرحمن وصدق المرسلون یہی وہ چیز ہے جس کا وعدہ خدائے رحمان نے کیا تھا اور جس کے متعلق خدا کے رسولوں نے سچ فرمایا تھا کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب تم سب قبروں سے دوبارہ اٹھائے جائو گے ، پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی اور ہر ایک کو اپنے اپنے کیے کا بدلہ چکھنا پڑے گا۔ پھر کیا ہوگا ؟ ان کانت الا صیحۃ واحدۃ ایک ہی آواز آئے گی فاذا لھم جمیع لدنیا محضرون پس اچانک سب کے سب ہمارے پاس حاضر کردیئے جائیں گے صور پھونکنے کی دیر ہے کہ ہر شخص بھاگم بھاگ اللہ کے سامنے پیش ہوگا پھر ہر عمل کا محاسبہ ہوگا اور جزا یا سزا کے فیصلے ہوں گے۔ کوئی متنفس ادھر ادھر بھاگ نہیں سکے گا۔ دنیا میں تو ملزم روپوش یا مفرور بھی ہوجاتے ہیں مگر وہاں کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا جب تک کہ اس کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ فرمایا فالیوم لا تظم نفس شیا اس دن کسی جان پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی ، بلکہ ہر فرد کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اس دن کسی کی ذرہ برابر بھی کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی برائی کی چھوٹ ہوگی بلکہ سب کو مکمل جزا یا سزا مل کر رہے گی۔ ولا تجزون الا ما کنتم تعملون اور تمہیں صرف تمہارے کردہ اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ آگے نیکو کاروں کی جزا کے متعلق فرمایا ان صاحب الجنۃ الیوم فی شغل فکھون پھر جن خوش قسمتوں کے حق میں جنت کا فیصلہ ہوگاوہ مشغلے میں ہوں گے اور آپس میں خوشی خوشی باتیں کریں گے ، انہیں ہر قسم کا عیش و نشاط حاصل ہوگا اور تمام ناگوار ناپسندیدہ چیزیں ان سے ہٹالی جائیں گی۔ پھر ان کو نہ کوئی جسمانی اذیت پہنچے گی اور نہ روحانی کوفت ہوگی۔ ھم و ازواجھم فی ظلل علی الا رائک متکون وہ اور ان کی بیویاں تختوں پر ٹیک لگائے سایوں میں بیٹھے ہوں گے۔ اریکہ کا معنی تخت ، پلنگ ، بینچ یا آج کی اصطلاح میں صوفہ سیٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جنتی لوگ جنت میں نہایت آرام و سکون کے ساتھ اپنی پسند کی اعلیٰ جگہوں پر بیٹھیں گے۔ بڑا خوشگوار ماحول ہوگا اور وہ آپس میں خوشی خوشی باتیں کریں گے۔ انہیں ہر قسم کی تفریح میسر ہوگی اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ لھم فیہا فاکھۃ وہاں ان کے لیے مختلف الانواع پھل ہوں گے جن کو وہ استعمال کریں گے۔ ولھم ما یدعون اور اس کے علاوہ انہیں ہر وہ چیز حاصل ہوگی جس کا مطالبہ کریں گے۔ ان کی خواہشات اور مطالبات بھی نہایت پاکیزہ قسم کے ہوں گے اور کوئی کمزور اور ردی خواہش پیدا ہی نہیں ہوگی۔ بہرحال انہیں منہ مانگی مراد ملے گی ان کو ظاہری اور جسمانی لذتوں کے علاوہ ہر قسم کی نفسانی اور روحانی آسائش بھی حاصل ہوگی۔ سورة حم سجدہ میں ہے۔ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون (آیت 31) وہاں ہر وہ چیز ملے گی جس کو دل چاہے گا اور ہر وہ چیز جس کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پروردگار کا سلام ان مادی نعمتوں کے علاوہ فرمایا سلم سلامتی ہوگی قولا من رب الرحیم یہ پروردگار کی طرسے قول ہوگا جو کہ نہایت ہی مہربان ہے ۔ اللہ فرمائے گا کہ اے جنت والو ! میری طرف سے تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلامتی نصیب ہو۔ سورة النحل میں فرشتوں کے سلام کا ذکر بھی آتا ہے جب فرشتے نیک لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں یقولون سلم علیکم ادخلوا الجنتہ بما کنتم تعملون (آیت 32) تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو ، جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کے بدلے میں جو تم انجام دیا کرتے تھے۔ پھر جنتی آپس میں بھی ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعائیں کریں گے ، سورة یونس میں ہے دعوھم فیھا سبحنک اللھم وتحیتھم فیہا سلم (آیت 1) جب جنتی جنت کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے سبحان اللہ اور وہاں ان کی آپس میں دعا ” السلام علیکم “ ہوگی لیکن جنت والوں کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوگی کہ اللہ فرمائے گا۔ میرے بندو ! میری طرف سے تم پر ہمیشہ کے لیے سلامتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو ! احل علیکم رضوانی فلا اسحط علیکم بعدہ ابدا میں اپنی رضا اور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں اس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہونگا ہمیشہ خوش ہی رہوں گا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہوگی۔ پھر حکم ہوگا وامتا زوا الیوم ایھا المجرمون اے گنہگارو ! شرک ، کفر ، بدعات اور معاصی کا ارتکاب کرنے والو اپنی صف علیحدہ بنالو۔ دنیا میں تو نیک و بد سب ملے جلے تھے مگر آج تم علیحدہ ہو جائو کہ تمہارا راستہ نیکو کاروں سے الگ ہے اور تمہارا ٹھکانا بھی مختلف ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے محاسبہ کرے گا۔ یہ نہایت مشکل گھڑی اور پریشانی کا عالم ہوگا اور مجرموں کے لیے بڑی کٹھن منزل ہوگی۔
Top