Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحْیَاۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک وہ هُوَ اَمَاتَ : وہی ہے جس نے موت دی وَاَحْيَا : اور زندہ کیا
اور ایوب (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے ولا ہے
(6) قصہ ایوب (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ وایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الضر وانت ارحم الرحمین .... الیٰ .... وذکری للعبدین۔ یہ چھٹا قصہ ایوب (علیہ السلام) کا ہے جو طرح طرح کی مسائب سے آزمائے گئے اور بےمثال صبر فرمایا۔ ان کا صبر خود ایک مستقل معجزہ تھا حضرت ایوب (علیہ السلام) بڑے خوسحال پیغمبر تھے اللہ تعالیٰ نے طرح طرح سے آسودہ کر رکھا تھا۔ باغ اور کھیت اور مویشی اور مال و دولت اور اولاد صالح اور مرضی کے مطابق عورت وغیرہ وغیرہ دے رکھی تھیں۔ اس خوشحال میں وہ خدا کے شکر گزار بندے تھے پھر خدا تعالیٰ نے ان کو مصیبت سے آزمانا چاہا۔ مال اور اولاد اور باغ اور کھیت سب فنا ہوگئے اولاد مرگئی اور دوست آشنا سب الگ ہوگئے۔ صرف ایک بیوی رفیق رہ گئی اور اخیر میں وہ بھی کچھ گھبرا سی گئی ایوب (علیہ السلام) جس طرح نعمت میں خدا کے شکر گزار رہے اسی طرح وہ بلا میں بھی صابر رہے نہ زبان سے کوئی حرف شکایت اور نہ دل میں شکایت کا کوئی خطرہ گزرا، جب بیماری حد دے گزر گئی تب اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔ اور ان کو صحت اور عافیت عطاء کی۔ اور جو اولاد دب کر مرگئی تھی اس کو بھی دوبارہ زندہ کردیا اور اتنی ہی اولاد اور عطا کردی اور اپنے فضل سے ان کی پھر وہی خوشحالی کی حالت کردی بلکہ اس سے بہتر۔ ان اب آیات میں ایوب (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کرتے ہیں تاکہ صابروں اور شاکروں کے لیے عبرت ہو چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ہمارے صابر بندوں ایوب کا قصہ ذکر کرو جبکہ ان کو اللہ کی طرف سے جان اور مال اور اولاد میں ہر طرف سے بلا پہنچی، حتیٰ کہ جسم کو کوئی حصہ بھی زخموں سے محفوظ نہ رہا۔ بقول بعض اٹھا رہ برس اسی تکلیف میں گزارے اور حیاوشرم کے مارے حق تعالیٰ سے اپنی عافیت اور تندرستی کی دعا بھی نہ کی کہ سالہا سال حق تعالیٰ کی نعمتوں میں گزارے ہیں جب تک اتنی مدت تک اس کی بلاؤں پر صبر نہ کرلوں اس وقت تک کس منہ سے مانگوں حتیٰ کہ اگر بدن کے زخم سے کسی وقت کوئی کیڑا گر جاتا تو اس کو اٹھا کر پھر اسی جگہ رکھ دیتے اور کہتے کہ یہ میرے پر ورگار کی بھیجی ہوئی بلا ہے اے بلا تو میرے بدن کو اچھی طرح کھا۔ یہ کمال رضاء بقضاء اور صبر بہ بلاء ہے کہ یہ تکلیف انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے مگر حال یہ ہے کہ ” ایلام دوست بہ از انعما دوست “ بالآخر ایوب نے اپنے رب کو پکارا اور یہ دعا کی کہ اے پروردگار تحقیق مجھ کو تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم رکنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے جو تیری شان ارحم الراحمینی کا اقتضاء ہو وہ کر گزرایوب (علیہ السلام) نے اپنا سوال تو پیش کردیا لیکن درخواست کو ظاہر نہ کیا۔ حق تعالیٰ کی غایت رحمت کا ذکر کیا اور اپنی عاجزی اور لاچاری ظاہر کی اور خاموش ہوگئے مطلب یہ تھا کہ میں تیری بارگاہ رحمت میں کیا عرض کروں۔ عرض کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے آپ ارحم الراحمین ہیں اور یہ میری بیماری اور لاچای آپ کے سامنے ہے جو چاہیں کریں میں آپ کا بندہ ہوں لیکن آپ کی رحمت کا محتاج ہوں پس انکا یہ کہنا تھا کہ ان کی دعا قبول کی سو جو تکلیف اور بیماری ان کو لاحق تھی وہ یک لخت ہمے دور کردی اور ہم نے ان کو بعینہٖ ان کے اہل و عیال عطاء کر دئیے یعنی ان کو زندہ کردیا اور اتنے ہی اور ان کے ساتھ دے دئیے، یعنی جو اولاد مرگئی تھی اس کو ہم نے زندہ کردیا۔ اور اتنی ہی اولاد اس کے بعد پیدا کردی جو گزشتہ اولاد کے برابر تھی، ایوب (علیہ السلام) نے جب اپنے رب کو پکارا تو دریائے رحمت جوش میں آگیا اور آواز آئی۔ اے ایوب (علیہ السلام) اپنا پاؤں زمین پر مار۔ ایک چشمہ نمودار ہوا۔ اس سے ایوب (علیہ السلام) نے غسل کیا۔ اس سے ان کی تمام بیماری یک لخت جاتی رہی اور خوبصورت بدن نکل آیا۔ بیوی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ایوب (علیہ السلام) نے کہا میں وہی ایوب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رحم کیا۔ اور مجھ پر میرا مال اور اہل و عیئال سب واپس کردیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم نے ایوب کے ساتھ کیا وہ اپنی خاص رحمت اور مہربانی سے کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ارحم الراحمین کی رحمت اور عنایت ایسی ہوتی ہے اور تاکہ عبادت خاص رحمت اور مہربانی سے کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ارحم الراحمین کی رحمت اور عنایت ایسی ہوتی ہے اور تاکہ عبادت گزاروں کے لیے نصیحت اور عبرت ہو کر صبر ایسا ہوتا ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ صبر اور شکر میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی اقتداء کریں۔ اس واقعہ میں ایوب (علیہ السلام) کو چارا بتلاء پیش آئے (1) مال جاتا رہا (2) اولاد مرگئی (3) بدن بیماری سے پھٹ گیا (4) سوائے بیوی کے سب نے چھوڑ دیا اور شماتت کرنے لگے کہ ایوب (علیہ السلام) نے کوئی ایسا سخت گناہ کیا ہے جس کی سزا ایسی سخت ملی ہے۔ ایوب (علیہ السلام) نے اس ابتلاء اور بلا پر صبر کیا۔ اول تو دعا پر بھی راضی نہ تھے حیا اور شرم کی وجہ سے صحت کی دعا بھی نہ کرتے تھے بالآخر بیوی کے اصرار سے اپنی صحت کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کی۔ اللہ تعالیٰ نے صحت اور تندرستی بھی عطاء کی اور جو اولاد مرگئی تھی اس کو دوبارہ زندہ کردیا چونکہ جو اولاد اکٹھی ہی دب کر مرگئی بظاہر وہ موت اجل نہ تھی۔ بلکہ موت ابتلاء و آزمائش تھی اس لیے ان بنی اسرائیل کی طرح دوبارہ زندہ کردی گئی جن کو طاعون سے بھاگنے کی وجہ سے ہلاک کردیا گیا جیسا کہ سورة بقرہ میں گزرا۔ الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت فقال لہم اللہ موتوا ثم احیاھم۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو پہلے کی طرح مال و دولت بھی عطاء کردیا جس قدر مال انکا جاتا رہا تھا اسی قدر اللہ نے پھر ان کو دے دیا بلکہ اس سے زائد۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایوب (علیہ السلام) ایک دن غسل فرما رہے تھے کہ اوپر سے سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں۔ ایوب (علیہ السلام) ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایوب کیا میں نے تجھ کو اس چیز سے غنی نہیں کیا کہ جس کو تو دیکھتا ہے۔ عرض کیا کیوں نہیں تیری برکت سے غناء نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ میرا سونے کی ٹڈیوں کی طرف رغبت کرنا دنیاوی غنا حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ سونے کی ٹڈیاں تیری طرف سے بلا سبب ظاہری کے برس رہی ہیں اور یہ تیری طرف سے بلاشبہ برکت ہیں اور بندہ کتنا ہی مالدار ہوجائے مگر خدا کی برکت سے غنی اور بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ سے طلب زیادت قناعت کے منافی نہیں البتہ غیر اللہ سے سوال قناعت کے منافی ہے۔
Top