Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر تکبر ہی کرتے رہے۔ اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝ 0 ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝ 133 رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ طُّوفَانُ والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ جرد الجَرَاد معروف، قال تعالی: فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ، وقال : كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] ، فيجوز أن يجعل أصلا فيشتق من فعله : جَرَدَ الأرض، ويصح أن يقال : إنما سمّي ذلک لجرده الأرض من النبات، يقال : أرض مَجْرُودَة، أي : أكل ما عليها حتی تجرّدت . وفرس أَجْرَد : منحسر الشعر، وثوب جَرْدٌ: خلق، وذلک لزوال وبره وقوّته، وتَجَرَّدَ عن الثوب، وجَرَّدْتُهُ عنه، وامرأة حسنة المتجرد . وروي : «جرّدوا القرآن» «2» أي : لا تلبسوه شيئا آخر ينافيه، وانْجَرَدَ بنا السیر «3» ، وجَرِدَ الإنسان «4» : شري جلده من أكل الجراد . ( ج ر د ) الجراد ۔ ٹڈی اس کا واحد جرادۃ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں ۔۔۔ بھیجیں ۔ كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] الغرض جراد کے معنی ٹڈی کے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اصل ہو اور اس سے جرد الارض مشتق ہو ۔ جس کے معنی میں ٹڈی زمین پر سے گھاس چٹ کرگئی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جراد خود جردے مشتق ہو جس کے معنی ننگا کرنے کے میں اور چونکہ ٹڈی زمین کی روئیدگی کو کھا کر اسے ننگا اور صاف کردیتی ہے اس لئے ٹڈی کو جراد کہا گیا ہے اور ارض مجرودۃ اس زمین کو کہا جاتا ہے جس کی نباتات کو ٹڈیوں نے کھا کر صاف کردیا ہو۔ فرس اجرد بےبال یا چھوٹے بالوں والا گھوڑا ثوب جرد پرانا کپڑا ۔ کیونکہ اس کی روئیں جھڑجاتی ہے اور کمزور ہوجاتا ہے ۔ تجرد عن الثوب ننگا ہونا ۔ کپڑے اتار دینا جردہ ( عن الثیاب ) ننگا کرنا ۔ امرءۃ حسنہ المتجود یعنی خوب صورت بدن است وقت برمنگی ایک روایت میں ہے (61) جرد والقرآن قرآن کو علیحدہ رکھو یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز خلط ملط نہ کرو ۔ انجرد بنا السیر ۔ دراز گروید سفر ۔ جرد الانسان خراج بر آروپوست انسان از خوردن ملخ یعنی ملخ کے کاٹنے سے جسم پر پتی اچھلنا ۔ ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان قمل القُمَّلُ : صغار الذّباب . قال تعالی: وَالْقُمَّلَ وَالضَّفادِعَ وَالدَّمَ [ الأعراف/ 133] . والْقَمْلُ معروف، ورجل قَمِلٌ: وقع فيه القَمْلُ ، ومنه قيل : رجل قَمِلٌ ، وامرأة قَمِلَةٌ: صغیرة قبیحة كأنّها قَمْلَةٌ أو قُمَّلَةٌ. ( ق م ل ) القمل چھوٹی مکھیاں ۔ قرآن پاک میں اور چھوٹی مکھیاں اور مینڈک اور خون ۔ القمل کے معنی ہیں جوں اور رجل قمل اس آدمی کو کہتے ہیں کے جس کے جوئیں پڑجائیں اور اسی سے چھوٹے سے بدصورت مرد یا عورت قمل یا قملتہ کہا جاتا ہے گویا وہ جوں یا چھوٹی مکھی کی طرح ہے ۔ ( الضفادع) ، جمع ضفدع بوزن درهم، ويجوز کسر الدال، والضفدع مؤنّث، ويفرّق بين ذكره وأنثاه بالوصف فيقال ضفدع ذکر وضفدع أنثی. وفي القاموس الضفدع کزبرج بکسر الدال وجعفر وجندب بضمّ الضاد والدال ودرهم۔ وهذا أقلّ أو مردود۔ الواحدة بهاء، والجمع ضفادع وضفادي . دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ ( مفصّلات) جمیع مفصّلة مؤنّث مفصّل اسم مفعول به ( فصّل) الرباعيّ ، وزنه مفعّل بضمّ المیم وفتح العین . الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔
Top