Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں
[ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جو ] [ یُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں ] [ بِالْغَیْبِ : غیب پر ] [ وَیُـقِیْمُوْنَ : اور جو لوگ قائم رکھتے ہیں ] [ الصَّلٰوۃَ : نماز کو ] [ وَمِمَّا : اور اس میں سے جو ] [ رَزَقْنٰــھُمْ : ہم نے عطا کیا ان کو ] [ یُنْفِقُوْنَ : وہ لوگ انفاق کرتے ہیں ] ء م ن اَمِنَ یَاْمَنُ (س) اَمْنًا ۔ اَمَنًا : (1) مطمئن ہونا۔ امن میں ہونا۔ { فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ } (البقرۃ :96) ” پس جب تم لوگ اطمینان سے ہو تو جس نے فائدہ اٹھایا عمرہ کا حج تک تو (اس پر واجب ہے) جو میسر ہو قربانی کے جانور میں سے۔ “ (2) کسی معاملہ میں کسی پر بھروسہ کرنا۔ { وَمِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖ اِلَیْکَ } (آل عمران :57) ” اور اہل کتاب میں وہ بھی ہے کہ اگر تو بھروسہ کرے اس پر ڈھیروں (چیز یا امانت) کے بارے میں تو وہ ادا کرے گا اس کو تیری طرف۔ “ (3) کسی کی بات کا اعتبار کرنا۔ { قَالَ ھَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ اِلاَّ کَمَا اَمِنْتُکُمْ عَلٰی اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ } (یوسف :64) ” اس نے یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کیا میں اعتبار کروں تم لوگوں کا اس کے بارے میں سوائے اس کے کہ جیسے میں نے اعتبار کیا تم لوگوں کا اس کے بھائی کے بارے میں اس سے پہلے۔ “ اٰمِنٌ (اسم الفاعل) : امن میں ہونے والا۔ { وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا } (البقرۃ :126) ” جب کہا ابراہیم (علیہ السلام) نے اے میرے رب تو بنا دے اس کو امن میں ہونے والا شہر۔ “ مَأْمَنٌ(اسم الظرف) : امن کی جگہ { ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَأْمَنَہٗ } (التوبۃ :6) ” پھر تم پہنچا دو اس کو ‘ اس کے امن کی جگہ۔ “ اَمُنَ یَاْمُنُ (ک) اَمَانَۃً : امانت دار ہونا۔ اَمَانَۃٌ ج اَمَانَاتٌ: امانت۔ { اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ } (الاحزاب :72) ” بیشک ہم نے پیش کیا اس امانت کو آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر ۔ “ { وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ ۔ } (المؤمنون) ” اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں کی اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ “ اَمِیْنٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : امانت دار۔ { اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ } (الشعرائ) ” بیشک میں تم لوگوں کے لیے امانت دار رسول ہوں۔ “ اٰمَنَ یُوْمِنُ (افعال) اِیْمَانًا : امن دینا۔ کسی کی بات کی تصدیق کرنا۔ ایمان لانا (تصدیق کرنے سے اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور امن ہوجاتا ہے) ۔ { مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } (البقرۃ :62) ” جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت پر۔ “ اِیْمَانٌ (اسم ذات) : ایمان ‘ قلبی تصدیق۔ { اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ } (التوبۃ :23) ” اگر وہ لوگ پسند کریں کفر کو ایمان پر۔ “ اٰمِنٌ ج اٰمِنُوْا (فعل امر) : تو ایمان لا۔ { وَیْلَکَ اٰمِنْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ} (الاحقاف :17) ” تیرے لیے تباہی ہے تو ایمان لا ‘ یقینا اللہ کا وعدہ حق ہے “۔ { وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ } (البقرۃ :13) ” اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ تم لوگ ایمان لائو جیسے لوگ ایمان لائے۔ “ مُؤْمِنٌ (اسم الفاعل) : امن دینے والا ‘ ایمان لانے والا۔ { لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ } (الحشر :23) ” کوئی الٰہ نہیں سوائے اس کے جو بادشاہ ہے ‘ پاک ہے ‘ سلامتی ہے ‘ امن دینے والا ہے۔ “{ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ} (التغابن :2) ” وہ ہے جس نے تم لوگوں کو پیدا کیا تو تم میں سے کوئی کفر کرنے والا ہے اور تم میں سے کوئی ایمان لانے والا ہے۔ “ غ ب ی غَبَا یَغْبِیْ (ض) غَیْبًا : پوشیدہ ہونا ‘ دور ہونا۔ غَیْبٌج غُیُوْبٌ(اسم ذات) : حو اس سے پوشیدہ چیز یا بات۔ { اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ } (المائدۃ :116) ”۔ “ غَائِبٌ (اسم الفاعل) : غائب ہونے والا ۔ { وَمَا مِنْ غَائِبَۃٍ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ } (النمل :75) ” اور نہیں ہے کوئی بھی غائب ہونے والی چیز آسمانوں میں اور زمین میں مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔ “ غَیَابَۃٌ (اسم ذات) : پستی ‘ گہرائی۔ { قَالَ قَائِلٌ مِّنْھُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰـبَتِ الْجُبِّ } (یوسف :10) ” کہا ان میں سے ایک کہنے والے نے قتل مت کرو یوسف کو اور اس کو ڈال دو کنویں کی گہرائی میں۔ “ اِغْتَبٰی یَغْتِبْی (افتعال) اِغْتِیَابًا : پوشیدگی میں یعنی پیٹھ پیچھے کسی کا عیب بیان کرنا ‘ بیان کرنا۔ لَا یَغْتَبْ (فعل نہی) : { وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًاط } (الحجرات :12) ” تم میں سے کوئی غیبت نہ کرے کسی کی ۔ “ ص ل و صَلٰی یَصْلُوْا (ن) صَلْوًا : پیٹھ کے درمیان میں مارنا ‘ نرم ہونا (ثلاثی مجرد سے قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا) ۔ صَلّٰی یُصَلِّیْ (تفعیل) صَلَاۃً : ( اس کا مصدر خلاف قاعدہ صَلَاۃً استعمال ہوتا ہے) ۔ دعا دینا ‘ نشو و نما دینا ‘ نماز پڑھنا۔ (نماز کی اصل دعا ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نماز نشو و نما دینے کے معنی میں ہے) ۔ { اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ } (الاحزاب :33) ” بیشک اللہ نشو و نما دیتا ہے اور اس کے فرشتے دعا کرتے ہیں ان نبی ﷺ کے لیے۔ “ صَلَاۃً (اسم ذات) : (قرآنی املا صَلٰوۃٌ ج صَلَوَاتٌ) نماز ‘ شفقت و رحمت۔ { حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی } (البقرۃ :238) ” تم لوگ حفاظت کرو نمازوں کی اور درمیانی نماز کی ۔ “ { اُولٰٓـئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ} (البقرۃ :157) ” یہ لوگ ہیں جن پر شفیق ہیں ان کے رب کی جانب سے اور رحمت ہے۔ “ صَلِّ ج صَلُّوْا (فعل امر) : تو دعا کر۔ نماز پڑھ۔ { فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ } (الکوثر) ” پس آپ نماز پڑھیں اپنے رب کے لیے اور قربانی دیں۔ “{ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ } (الاحزاب :56) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم لوگ دعا کرو ان (علیہ السلام) کے لیے یعنی درود بھیجو۔ “ مُصَلِّیْنَ (اسم الفاعل جمع کا صیغہ ‘ واحد مُصِلٍّ ) : نماز پڑھنے والا۔ { قَالُوْا لَمُ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ } (المزمل :43) ” ان لوگوں نے کہا ہم نہیں تھے نماز ادا کرنے والوں میں سے۔ “ مُصَلّٰی (اسم المفعول ‘ جو بطور اسم الظرف استعمال ہوتا ہے) : نماز کی جگہ۔ { وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلّٰی } (البقرۃ :125) ” اور تم لوگ بنا لو ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ میں سے نماز ادا کرنے کی جگہ۔ “ ر ز ق رَزَقَ یَرْزُقُ (ن) رَزْقًا : معاوضہ دیے بغیر کوئی چیز دینا پھر دیتے رہنا ‘ عطیہ جاریہ دینا ‘ عطا کرنا۔ { اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ } (الروم :40) ” اللہ ہے جس نے تم لوگوں کو پیدا کیا پھر اس نے تم لوگوں کو عطا کیا یعنی صلاحیتیں اور اشیاء پھر وہ تم لوگوں کو موت دے گا پھر وہ تم لوگوں کو زندہ کرے گا۔ “ رِزْقٌ (اسم ذات) : وہ چیز جو عطیہ جاریہ کے طور پر دی جائے۔ جو چیز ایک مرتبہ دی جائے اسے رَزْقَـۃٌ کہتے ہیں۔ { یٰـقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَـیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَرَزَقَنِیْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَنًا } (ھود :88) ” اے میری قوم کیا تم نے غور کیا اگر میں ہوں ایک واضح دلیل پر اپنے رب کی جانب سے اور اس نے مجھے عطا کیا اپنے پاس سے ایک بہترین عطیہ جاریہ۔ “ اس آیت میں سے رِزْقًا حَسَنًاسے مراد علم وحی ہے۔ اُرْزُقْ (فعل امر) : تو عطا کر۔ { وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ } (ابراھیم :37) ” اور تو انہیں عطا کر پھلوں میں سے شاید کہ وہ لوگ شکر ادا کریں۔ “ رَازِقٌ (اسم الفاعل) : عطا کرنے والا۔ { وَاِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ } (الحج :37) ” اور یقینا اللہ ہی سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے۔ “ رَزَّاقٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر اسم مبالغہ) :{ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ } (الذریت :58) ” یقینا اللہ ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے ۔ “ نق نَفَقَ یَنْفُقُ ۔ نَفِقَ یَنْفَقُ (ن۔ س) نَفْقًا : خرچ ہوجانا ‘ ختم ہوجانا ‘ دومنہ والا ہونا۔ (قرآن مجید میں ثلاثی مجرد سے سے فعل استعمال نہیں ہوا) ۔ نَفَقَۃٌ ج نَفَقَاتٌ (اسم ذات) : خرچہ ‘ خرچ ہونے والی چیز ۔ { وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَذْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ } (البقرۃ :270) ” اور جو تم لوگ خرچ کرو کسی خرچہ میں سے یا منت مانو کسی منت میں سے تو یقین اللہ اس کو جانتا ہے۔ “ نفق : سرنگ۔ { فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ } (الانعام :35) ” تو اگر آپ ﷺ میں استطاعت ہے کہ آپ تلاش کرلیں کوئی سرنگ زمین میں ۔ “ اَنْفَق یُنْفِقُ (افعال) اِنْفَاقًا : خرچ کرنا۔ { لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ } (الحدید :10) ” برابر نہیں ہے تم میں سے وہ جس نے خرچ کیا الفتح سے پہلے یعنی فتح مکہ سے پہلے اور قتال کیا۔ “ اَنْفِقْ ج اَنْفِقُوْا (فعل امر) : تو خرچ کر۔ { اَنْفِقُوْا مِّنْ مَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ } (المنفقون :10) ” اور تم لوگ خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا اس سے پہلے کہ آئے تم میں سے کسی ایک کو موت۔ “ مُنْفِقٌ (اسم الفاعل) : خرچ کرنے والا۔ { وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ } (آل عمران :17) ” اور خرچ کرنے والے اور مغفرت مانگنے والے راتوں کے پچھلے پہر میں۔ “ نَافَقَ یُنَافِقُ (مفاعلہ) مُنَافَقَۃٌ وَنِفَاقٌ : دو رخا ہونا ‘ دوغلا ہونا۔ { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } (الحشر :11) ” کیا آپ ﷺ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دورخے ہوئے ‘ وہ لوگ کہتے ہیں اپنے بھائیوں سے جنہوں نے کفر کیا۔ “ مُنَافِقٌ (اسم الفاعل) : دو رخا ہونے والا۔ { یَحْذَرُ الْمُنٰـفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ } (التوبۃ :64) ” ڈرتے ہیں دو رخا پن اختیار کرنے والے کہ نازل کردی جائے ان کے بارے میں کوئی سورت جو جتلا دے ان کو وہ ‘ جو ان کے دلوں میں ہے۔ “ صَلٰوۃٌ : اصل لفظ ” صَلَوَۃٌ“ ہے جو قاعدہ کے مطابق تبدیل ہو کر صَلَاۃٌ بنتا ہے اور عربی میں یہ آج تک اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص املا ہے جہاں یہ لفظ صَلٰوۃٌ لکھا جاتا ہے۔ البتہ قرآن مجید میں بھی جب یہ مضاف بن کر آتا ہے تو اس کی واو گرجاتی ہے اور الف کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے جیسے صَلَاتُھُمْ ۔ یہ نوٹ کرلیں کہ اصطلاحاً صَلٰوۃ اس مخصوص عبادت کا نام ہے جو حضور ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ادا کی جاتی ہے۔ شاید اسی لیے قرآن مجید میں اس کا املا بھی مخصوص رکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم ! ترکیب : اس آیت میں تین جملے ہیں : (1) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (1) وَ (الَّذِیْنَ ) یُـقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (3) وَ (الَّذِیْنَ ) یُنْفِقُوْنَ مِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ ۔ تیسرے جملے میں مِمَّا رَزَقْنٰــھُمْکو اصل فعل یُنْفِقُوْنَ سے پہلے اس حقیقت میں تاکید اور زور پیدا کیا گیا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ یہ تینوں جملے گزشتہ آیت اَلْمُتَّقِیْنَکے لفظ کا بدل ہیں۔ نوٹ (1) : سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈکشنری المنجد کے مطابق مادہء م ن اگر باب سَمِعَ سے آئے تو معنی ہوتے ہیں مطمئن ہونا۔ اور اگر باب ضَرَبَ سے آئے تو معنی ہوتے ہیں بھروسہ کرنا ‘ اعتبار کرنا۔ لیکن قرآن مجید میں یہ مادہ تینوں معانی میں باب سَمِعَ سے آیا ہے جیسا کہ معانی کی وضاحت میں دی گئی آیات 3/175 اور 12/64 سے ظاہر ہے۔ اس لیے ہم نے تینوں معانی باب سَمِعَ کے تحت دیے ہیں۔ نوٹ (2) : ہمارے جدید تعلیم یافتہ افراد میں سے اکثر کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے ‘ البتہ اس کا اظہار کم لوگ کرتے ہیں ‘ کہ ان دیکھی چیزوں پر ایمان لانا غیر سائنٹفک حرکت ہے اور ایمان بالغیب کا مطالبہ غیر فطری ہے۔ بظاہر ان کی اس بات میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن جب ہم اپنے روز مرہ کے معمولات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایمان بالغیب انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ (inbuilt) ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کا ایک دن بھی نہیں گزار سکتے۔ اس بات کو چند مثالوں کی مدد سے سمجھ لیں۔ لاہور میں ہمیں فون پر اطلاع ملتی ہے کہ پشاور میں فلاں عزیز کی شادی طے ہوگئی ہے۔ ملتان میں فلاں عزیز بیمار ہیں۔ سکھر میں فلاں صاحب حادثہ میں زخمی ہوگئے۔ کراچی میں فلاں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اب غور کریں کہ ان میں سے کوئی بھی واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوا ہے۔ ان تمام ان دیکھے واقعات پر ان کی خبر کی بنیاد پر ہم ایمان لاتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ نیویارک کاٹن کے سودے ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتے۔ صرف ان کے متعلق خبر کی بنیاد پر پاکستان میں لاکھوں اور کروڑوں روپے کے سودے ہوجاتے ہیں۔ اس طرز پر اپنے روزانہ کے کام کا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ آپ کتنے کام آنکھوں دیکھے واقعات کی بنیاد پر کرتے ہیں ‘ اور کتنے کام ان دیکھے واقعات کی خبر کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ پھر ان شاء اللہ آپ تسلیم کرلیں گے کہ ایمان بالغیب کے بغیر ہم زندگی کا ایک دن بھی نہیں گزار سکتے۔ ہم بس اتنی احتیاط کرسکتے ہیں کہ یہ دیکھ لیں کہ خبر دینے والا کتنا معتبر ہے۔ اسی لیے PTV اور BBC کی خبر میں ہم فرق کرتے ہیں اور BBC کی خبر پر ایمان لانے میں دیر نہیں کرتے۔ اب آپ انصاف سے فیصلہ کریں کہ بی بی سی ‘ نیوز ویک ‘ واشنگٹن پوسٹ ‘ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی خبروں پر ایمان لانے کو نہ تو ہم غیر سائنٹفک سمجھتے ہیں اور نہ ہی غیر فطری کہتے ہیں۔ لیکن اس ہستی کو دی ہوئی خبروں پر ایمان لانے کو ہم غیر فطری کہتے ہیں جس کے بدترین دشمن بھی اسے جھوٹا نہ کہہ سکے اور زندگی کی آخری سانس تک اسے صادق اور امین ہی تسلیم کرتے رہے۔ اس کے بعد نرم ترین الفاظ میں بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ بھی کچھ باتیں سوچے سمجھے بغیر اور علم کے بغیر کہہ جاتے ہیں۔ آخر وہ بھی بندہ بشر ہیں۔ نوٹ (3): قرآن مجید میں صَلٰوۃًکے ساتھ اکثر و بیشتر اقامہ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کی تعلیم کردہ نماز کو اس کے ظاہری نظام اور باطنی روح کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید ہے۔ جبکہ آیت { فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی ۔ } (القیامۃ)” نہ اس نے تصدیق کی اور نہ اس نے نماز پڑھی “ میں فَلَاصَلّٰی سے مراد ہے کہ اس نے رسمی نماز بھی نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسمی نماز پڑھنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے اِنَّ الْمُصَلِّیْنَ کَثِیْرٌ وَالْمُقِیْمِیْنَ لَھَا قَلِیْلٌ” نماز پڑھنے والے بہت ہیں جبکہ اس کو قائم کرنے والے کم ہیں۔ “
Top