Mutaliya-e-Quran - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنا ئے جائیں گے، اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا
[عٰلِيَهُمْ : چڑھنے والے ہوتے ہوئے ان پر ] [ثِيَابُ سُـنْدُسٍ : کچھ باریک ریشم کے کپڑے ہوں گے ] [خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ: (وہ ) سبز اور بھڑکیلے ہوں گے ] [وَّحُلُّوْٓا : اور ان کو آراستہ کیا جائے گا ] [اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ : چاندی کے کنگنوں سے ] [وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ : اور پلائے گا ان کو ان کا رب ] [شرابا طَهُوْرًا : ایک نہایت پاکیزہ مشروب ] (آیت۔ 21) ۔ عٰلِیْھُمْ میں اسم الفاعل عَالٍ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں عَالِیًا ہے مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ضم ہوئی تو عَالِیَ استعمال ہوا۔ یہ بھی یہاں فعل کا عمل کر رہا ہے۔ ثِیَابُ سُنْدُسٍ اس کا فاعل ہے۔ فُضْرٌ استَبرْقٌ صفت نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ ثِیَابُ کی صفت ہوتے تو اَلخْضْرُ اور اَلْاِسْتَبْرَقُ آتے۔ کیونکہ ثیاب سندس اضافت کی وجہ سے معرفہ ہے جب موصوف معرفہ ہو تو صفت بھی معرفہ ہی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ خبر ہیں اور ان کا مبتدا ھَی مخدوف ہے جو ثِیَابُ کے لیے ہے۔ نوٹ 3: آیت۔ 21 ۔ میں ہے وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا۔ اس میں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ پہلے آیت۔ 5 ۔ میں ہے یَغْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ وہ لوگ پئیں گے ایک ایسے جام سے) اس کے بعد آیت۔ 17 ۔ میں فرمایا یُسْقَوْنَ فِیْھَاکَاًسًا (ان لوگوں کو پینے کے لیے دیا جائے گا اس میں ایک ایسے جام سے) اور یہاں ارشاد ہوا کہ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ (پلائے گا ان کو ان کا رب) ۔ عربیت کا ذوق رکھنے والے آسانی سے اس فرق کو سمجھ سکتے ہیں جو ان تینوں اسلوبوں یعنی یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ ، یُسْقَوْنَ کَا سًا اور سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ میں ہے۔ (تدبر قرآن) (فرق یہ ہے کہ شَرِبَ ۔ یَشْرَبْ میں مفہوم یہ ہے کہ سامنے کسی چیز میں پینے کی کوئی چیز دیکھی یا کسی نہر یا دریا پر گزرا ہوا تو ہاتھ بڑھا کر خود پی لیا۔ جبکہ باب افعال میں اَسْقٰی۔ یُسْقِیْ کے معنی ہیں کسی کو پینے کی کوئی چیز دینا۔ یُسْقَوْنَ اس کا مضارع مجہول ہے۔ اس میں مفہوم یہ ہے کہ پینے کی چیز ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ اور ثلاثی مجرّد میں سَقٰی۔ یَسْقِیْ کے معنی ہیں کسی کو پلانا، اس طرح سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ میں مفہوم یہ ہے کہ ان کا رب خود ان کو پلائے گا۔ مرتب) سوال یہ ہے کہ یہ فرق کیوں ہے۔ شاید یہ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ یہ ابرار درجہ بدرجہ قرب الٰہی کی منزلی طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائینگے کہ خود رب کریم ان کو شراب طہور کا جام پلائے گا۔ یہ شراب طہور کیا ہے، اس کا تصور اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے قرآن نے کوئی اس طرح کا تمثیلی اسلوب اختیار نہیں کیا جس طرح کا اسلوب اوپر چشمہ کافور اور چشمۂ زنجبیل کے لیے اختیار فرمایا۔ اس کو صرف رب کریم ہی جانتا ہے۔ (تدبر قرآن)
Top