Al-Qurtubi - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
ان (کے بدنوں) پر دیبا کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہونگے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار انکو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا
علیھم ثیاب خضر واستبرق۔ نافع حمزہ اور ابن محیصن نے علیھم یعنی یاء کو ساکن پڑھا ہے ابوعبید نے حضرت ابن مسعود، ابن وثاب اور دوسرے قراء کی قرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس طرح پڑھا ہے، فراء نے کہا، علیھم یہ مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے اس کی خبر ثیاب سندس، ہے اسم فاعل سے جمع مراد ہے۔ اخفش کے قول میں یہ جائز ہے کہ یہ مفرد اس بنا پر ہو کہ یہ اسم فاعل اور متقدم ہو اور ثیاب اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو اور قائم مقام خبرد ہو اس میں اضافت انفصال کے حکم میں ہو کیونکہ اس میں تخصیص واقع نہیں ہوئی اس کے ساتھ کلام کی ابتدا کی گئی ہے، کیونکہ اضافت کی وجہ سے اختصاص واقع ہوگیا ہے، باقی قراء نے اسے علیھم یاء کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، فراء نے کہا، یہ تیرے قول فوقھم کی طرح ہے عرب کہتے ہیں، قومک داخل دار وہ داخل کے لفظ کو ظرف کی بنا پر نصب دیتے ہیں کیونکہ یہ محل ہے، زجاج نے اس کا انکار کیا اور کہا، ہم اسے ظرف میں نہیں جانتے اگر یہ ظرف ہوتا تو یاء کو ساکن کرنا جائز نہیں ہوگا لیکن یہ دونوں چیزوں سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور ان میں سے ایک یطوف علیھم میں ھم ضمیر ہے۔ یعنی نیک لوگوں کے پاس بچے گردش کر رے ہوں گے جن لوگوں پر یہ لباس ہوگا۔ دوسری چیز وندان ہے معنی یہ بنے گا جب تو انہیں دیکھے گا تو تو انہیں بکھرے ہوئے موتی دیکھے گا جب کہ ان بچوں کے بدنوں پر یہ لباس ہوگا، ابوعلی نے کہا، حال میں عام ہے یا تو ولقھم نضرۃ وسرورا، ہے یاجزاھم بماصبروا ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ ظرف ہو تو اس کو منصرف بنادیا گیا ہے مہدوی نے کہا، یہ جائز ہے کہ یہ اسم فاعل کے وزن پر ہو اور ظرف ہو جس طرح تیرا قول ہے، ھوناحیۃ من الدار اس کی صورت پھر یہ ہوگی کہ عالیا جب فوق کے معنی میں ہے تو اسے بھی اس کے قائم مقام رکھا تو اسے ظرف بنادیا گیا ہے ابن محیصن، ابن کثیر اور ابوبکر نے عاصم سے خضر، مجرور نقل کیا ہے کیونکہ یہ سندس کی صفت ہے ابوعبید اور ابوحاتم نے معنی کی عمدگی کی وجہ سے اسے اپنایا ہے کیونکہ کپڑوں کی صفت میں خضر سب سے خوبصورت ہے پس یہ کلمہ مرفوع ہوگا میرا خیال ہے استبرق کا سندس پر، جو عطف ہے وہ جنس کا جنس پر عطف ہے معنی یہ ہوگا ان پر سبز کپڑے ہوں گے جو سندس اور استبرق کے ہوں گے یعنی ان دونوں ناموں سے ہوں گے، نافع اور حفص نے دونوں کو مرفوع پڑھا ہے، توخضر، ثیاب کی صفت ہوگی کیونکہ یہ دونوں جمع ہیں، استبرق اس کا عطف ثیاب پر ہے۔ اعمش، ابن وثاب، حمزہ اور کسائی نے دونوں کو جر کیساتھ پڑھا ہے، پھر خضر، سندس، کی صفت ہوگی، اور سندس اسم جنس ہوگا، اخفش نے اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ اسم جنس کی صفت جمع سے لگائی جائے اگرچہ اسے قبیح جانا جاتا ہے، تو کہتا ہے، اھلک الناس الدینار الصفر والدرھم البیض۔ دونوں مثالوں میں صفر اور بیض جمع کے صیغے ہیں جو الدینار اور الدرھم اسم جنس کی صفتیں ہیں لیکن کلام میں یہ بہت ہی مستبعد ہے اس قرات کی صورت میں معنی یہ ہوگا ان پر سبز سندسی کپڑے، اور استبرق کے کپڑے ہوں گے، ابن محیصن کے سوا سب نے استبرق کو منصرف کہا ہے اس نے اسے فتحہ دیا ہے اور منصرف نہیں کہا، اسے استبرق پڑھا ہے، جر کی جگہ زبر پڑھی ہے اور غیر منصرف قرار دیا ہے کیونکہ عجمی ہے، یہ غلط ہے کیونکہ یہ نکرہ ہے اس پر حرف تعریف (الف لام) داخل ہوا ہے تو استبرق کہتا ہے مگر ابن محیصن گمان کرتا ہے کہ کپڑے کی اس قسم کو یہ نام دے دیا گیا ہے اس کو استبرق بھی پڑھا گیا ہے یعنی ہمزہ وصل اور اس کے اوپر زبر، یہ بریق سے مشتق ہے اور استصل کے ورن پر اس کا نام رکھا گیا ہے، یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ معرب ہے اس کا معرب ہونا مشہور ہے اصل میں استبرق تھا سندس باریک ریشم کو کہتے ہیں، استبرق موٹے ریشم کو کہتے ہیں یہ بحث پہلے گزرچکی ہے۔ وحلواساور من فضۃ۔ اس کا عطف یطوف پر ہے، سورة فاطر میں گزرا ہے، یحلون فیھا من اساور من ذھب۔ اس میں انہیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، سورة فاطر میں ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب ولولوا۔ اس میں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے، ایک قول یہ کیا گیا ہے، مرد کے زیورات اور چاندی اور عورت کے زیوارت سونے کے ہوں گے، ایک قول یہ کیا گیا ہے کبھی وہ سونے کے زیورات پہنیں گے اور کبھی وہ چاندی کے زیورات پہنیں گے، ایک قول یہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں دو کنگن سونے کے، دو کنگن چاندی کے اور دو کنگن موتی کے جمع کیے جائیں گے تاکہ جنت کے محاسن ان کے لیے جمع ہوجائیں۔ یہ سعید بن مسیب نے کہا، ایک قول یہ کیا گیا ہے، ہر قوم کے لیے وہ کچھ ہوگا جس کی طرف ان کے دل مائل ہوں گے۔ وسقھم ربھم شرابا طھورا۔ حضرت علی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا، جب جنتی جنت کی طرف متوجہ ہوں گے وہ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزریں گے جس کے تنے کے نیچے سے دوچشمے جاری ہوں گے وہ ان میں سے ایک سے پانی پئیں گے تو ان پر نعیم کی تروتازگی جاری ہوجائے گی ان کی جلد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی، اور ان کے بال کبھی بھی پراگندہ نہ ہوں گے پھر وہ دوسرے چشمہ سے پئیں گے تو ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہوگا وہ نکل جائے گا پھر جنت کے خازن ان کی طرف متوجہ ہوں گے وہ انہیں کہیں گے، سلم علیکم طبتم فادخلوھا خالدین۔ زمر) تم پر سلام ہو، تم خوب رہے ہو پس اندر تشریف لے چلو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ نخعی اور ابوقلابہ نے کہا، کھانا کھانے کے بعد جب وہ اسے پئیں گے تو وہ پانی انہیں پاکیزہ بنادے گا جو کچھ انہوں نے کھایا پیا ہوگا وہ کستوری کی مہک ہوجائے گا اور ان کے پیٹوں کو ضامر بنادے گا۔ مقاتل نے کہا، وہ جنت کے دروازے پر چشمے کا پانی ہے جو چشمہ درخت کے تنے سے پھوٹتا ہے جس نے بھی اس سے پی لیا اللہ تعالیٰ اس کے دل سے کینہ، کھوٹ، اور حسد خارج کردے گا، اور اسی طرح اس کے پیٹ میں جو غلیظ مادہ ہوگا اسے بھی خارج کردے گا اسے بھی نکال دے گا۔ حضرت علی نے جو کچھ روایت کیا ہے اس کا بھی یہی معنی ہے مگر مقاتل کے قول کے مطابق وہ چشمہ ایک ہے اس اعتبار سے طھورا مبالغہ کا صیغہ ہوگا۔ ائمہ احناف کی اس میں کوئی دلیل نہیں کہ اس کا معنی پاک ہے اس کی وضاحت سورة الفرقان میں گزرچکی ہے، الحمدللہ۔ کہا : اس کا معنی پاکیزہ اور خوبصورت ہے میں نے سہل بن عبداللہ کے پیچھے عشاء کی نما زپڑھی، انہوں نے وسقھم ربھم شرابا طھورا۔ الانسان) آیت کو پڑھا اور اپنے ہونٹوں اور منہ کو حرکت دینے لگے گویا وہ کسی چیز کو چوس رہے ہوں جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہیں کہا گیا کیا آپ کسی چیز کو پی رہے تھے یاقرات کررہے تھے، انہوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کی قسم اگر میں اس کی قرات سے ایسی لذت نہ پاتا جو اس کے پینے سے پاتا تو میں اس کی قرات نہ کرتا۔
Top