Al-Quran-al-Kareem - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز کپڑے اور گاڑھا ریشم ہوگا اور انھیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انھیں نہایت پاک شراب پلائے گا۔
(1) علیھن ثیاب سندس خضرو استبرق …:”سندس“ باریک ریشم۔ ”استبرق“ گاڑھا ریشم۔ ”خلوا“ ”حلیۃ“ سے ”فعلوا“ کے وزن پر ہے، اصل میں ”حلیوا“ تھا، زیور پہنائے جائیں گے۔”اساور“ ”سوار“ کی جمع ہے، کنگن۔ ”شراباً“ مشروب، پینے کی چیز، ”طھوراً“ جو پاک ہو اور پاک کرنے والی ہو، جیسا کہ فرمایا :(وانزلنا من السمآء مآء طھوراً) (الفرقان : 38)”اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔“ (2)”علیھم“ (ان کے اوپر) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ جن نشستوں پر جن نشستوں پر بیٹھے ہوں گے ان کے اوپر باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے۔ جب پردے اتنی قیمتی ہوں گے تو ان کے لباس کا کیا کہنا۔ دوسرا یہ انہوں نے باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کا لباس پہن رکھا ہوگا، جیسا کہ سورة کہف میں فرمایا :(ویلبسون ثیاباً خصراً من سندس و استبرق) (الکھف : 31)”اور وہ باریک اور گاڑھے سبز ریشم کے پکڑے پہنیں گے۔ ‘ یہ معنی زیادہ درست ہے، کیونکہ سورة کہف کی آیت سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ انس بن مالک، مجاہد اور قتادہ کی قرأت میں ”علیھم“ ہے۔ (دیکھیے زاد المسیر لابن الجوزی) اس قرأت سے بھی دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے، اگرچہ پہلا معنی بھی غلط نہیں۔ (2) سورة کہف میں فرمایا :(یحلون فیھا من اساور من ذھب) (الکھف : 31)”ان میں انہیں کچھ کنگن سونے کے پہنائے جائیں گے۔“ جبکہ یہاں چاندی کے کنگن پہنائے جانے کا ذکر ہے، دونوں میں تطبیق کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کئی جنتیں ہیں، جیسا کہ سورة رحمان میں الگ الگ دو دو جنتوں کا ذکر ہے اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتان من فضۃ آنیتھما و ما فیھما و جنتان من ذٓھب آنیتھما وما فیھما) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : وجود یومئد ناظرۃ): 8333)”’ و باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے سونے کا ہے۔“ اب جنتی کی مرضی ہے کہ سونے کے کنگن پہنے یا چاندی کے یا دونوں پہن لے اور بعض اہل علم نے فرمایا کہ شاید اہل جنت کے درجات کے لحاظ سے سونے کے کنگن مقربین کے لئے اور چاندی کے اصحاب الیمین کے لئے ہوں گے۔ (التسہیل) مگر یہ بات جزم سے نہیں کہی جاسکتی، اس لئے پہلی بات ہی زیادہ درست ہے۔ (4) یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کنگن وغیرہ عام طور پر عورتیں پہنتی ہیں، جنت میں مردوں کو کنگن پہنانے کا کیا مقصد ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگنوں سے مراد اہل جنت کی شاہانہ شان و شوکت بیان کرنا ہے۔ دنیا میں قدیم زمانے سے بادشاہ سونے چاندی کے کنگن پہنتے رہے ہیں، جیسا کہ فرعون نے موسیٰ ؑ پر طعن کیا تھا :(فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب) (الزخرف : 53)”اسے سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے گئے ؟“ (5) و سقھم ربھم شراباً طھوراً : آیت کے اس ٹکڑے میں جنتیوں کے لئے کئی بشارتیں ہیں، ایک یہ کہ انہیں ان کا رب خود شراب طہور پلائے گا۔ اس سے بڑی عزت افزائی اور کیا ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ مشروب دنیا کے تمام سرور آمد مشروبات کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے اور ہر قسم کی خرابیوں سے پاک ہوگا، نہ اس میں نشہ ہوگا نہ درد سر، نہ متلی نہ قے، نہ اعضا شکنی ، نہ زوال عقل، وہ سرا سر لذت و سرور ہوگا۔ تیسری یہ کہ ”طھوراً“ کے لفظ طے شہر ہو رہا ہے کہ اس کے پینے سے اہل جنت کے دل پاک ہوجائیں گے اور ان سے حسد، بغض اور تمام کدورتیں دور ہوجائیں گی۔
Top