Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 22
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
عہد الست قول باری ہے واذاخذربک من بنی ادم من ظھور ھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم اور اے نبی ﷺ ! لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ا ہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا تھا) ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں کو ایک ایک قرن یعنی دور کے لحاظ سے نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر اس فطری میلان کے بارے میں گواہ بنایا تھا جو اس نے ان کی عقول اور ان کی فطرت میں پیدا کردیا تھا تاکہ یہی فطری میلان اللہ کی ربوبیت کے اقرار کا مقتضی بن جائے۔ اس طرح ان سب کو یکجا کر کے ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواباً کہا تھا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں “۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی ربوبیت کے متعلق جو سوال کیا تھا وہ بعض انبیاء کی زبانی کیا گیا تھا۔ قول باری ہے ولقدذرانا لجھنم کثیراً من الجن والانس۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن و انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے) لفظ جہنم پر داخل حرف لام کو لام عاقبت کہتے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے فالتقطہ ال فرعون لبکون لھم عدواً وحزناً ۔ آل فرعون نے اسے اٹھا لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے غم کا سبب بن جائے) فرعون کے آل نے اس مقصد کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں اٹھایا تھا لیکن جب انجام کار کے طور پر یہی صورت سامنے آئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے بارے میں اس کا اطلاق کردیا۔ شاعر کا مصرعہ بھی یہی مفہوم ادا کرتا ہے۔ لدواللموت وابنواللخراب۔ موت کے لئے پیدا کردہ اور تخریب کے لئے تعمیر کرو۔ یہ شعر بھی ہے۔ وام سماک فلاتجزعی…فللموت ماغذت الوالدہ…اے ام سماک ! آنسو نہ بہا اور آہ و بکا نہ کر اس لئے کہ ماں اپنے بچوں کی پرورش موت کے لئے کرتی ہے۔
Top