Al-Qurtubi - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اسکے حق میں بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیے گئے ہیں سوا انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
a س میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ذلک اس میں احتمال ہے کہ یہ محل رفع میں ہو اور اس کی تقدیر یہ ہو : فرضکم ذالک یا الواجبب ذاللک اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ محل نصب میں ہو اس کی تقدیر یہ ہوا متثلوا ذالک ؛ زہیر کے قول میں اس کی مثل اشارہ ہے : ھذا ولیس کمن یعیا بخطتہ وسط الندی اذا ما قائل نطقاً اور یہاں حرمات مقصودہ سے مراد افعال حج ہیں جن کی طرف ثم لیقصوا تفثھم ولیوفوا نذورھم میں اشارہ کیا گیا ہے اس میں جگہوں کی تعظیم بھی داخل ہے ؛ یہ ابن زید وغیرہ کا قول ہے۔ یہ کہنا تمام چیزوں کو شامل ہے کہ حرمات سے مراد تمام فرائض اور سنن کی پیروی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فھو خیرللہ عند ربہ ان حرمات میں سے کسی کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی اہانت سے بہتر ہے۔ بعض علماء نے کہا : یہ تعظیم اس خیرات سے بہتر ہے جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ خیر کا لفظ تفضیل کے لیے نہیں یہ خیر کا وعدہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واحلت لکم الانعام کہ تم انہیں کھائو یہ اونٹ، گائیں اور بکریاں ہیں۔ الا ما یتلی علیکم یعنی کتاب میں جن محرمات کا ذکر ہے اور وہ المیتۃ (مردار) اور موقودۃ وغیرہ ہیں۔ یہ حج کے امر کے ساتھ اتصال ہے کیونکہ ححج میں ذبح کا حکم کرنا اور جن کا گوشت کھانا حلال ہے اس کو بیان کیا۔ بعض نے کہا : الا ما یتلی علیکم غیر محلی الصیدوانتم حرم (المائدہ : 1) مراد ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ فاجتنبوا الرجس من الاوثان، الرجس گندی چیز کو کہتے ہیں۔ الوثن وہ بت جو لکڑی، لوہے، سونے یا چاندی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں۔ عرب انہیں نصب کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ نصاریٰ صلیب نصب کرتے تھے اس کی عبادت کرتے تھے، اور اس کی تعظیم کرتے تھے یہ بھی تمثال کی طرح ہے۔ عدی بن حاتم نے کہا : میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ فرمایا : ” اس بت کو اپنے آپ سے دور کر “ (1) یعنی صلیب کو دور کر۔ اس کی اصل وثن الشی ہے۔ یعنی اپنی جگہ میں اس کو کھڑا کیا۔ صنت کو وثن کہا جاتا ہے کیونکہ وہ نصب کیا جاتا ہے اور ایک جگہ گاڑھا جاتا ہے جہاں سے وہ ہلتا نہیں۔ مراد یہ ہے کہ بتوں کی عبادت سے اجتناب کرو۔ حضرت ابن عباس ؓ سے اور اببن جریج سے مروی ہے اور اس کور جس کہا ہے کیونکہ یہ عذاب کا سبب ہیں۔ بعض نے کہا : اس کو رجس کہا۔ الرجس کا معنی نجس ہے۔ یہ حکماً نجاست ہے۔ اعیان کا جو ذاتی وصف ہوتا ہے وہ نجاست نہیں ہے۔ یہ وصف شرعی جو ایمان کے احکام سے ہے اور یہ زائل نہیں ہوتا مگر ایمان سے جیسے پانی کے بغیر طہارت جائز نہیں ہوتی۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ من جو من الاوثان کے ارشاد میں ہے، بعض علماء نے کہا : یہ جنس کے بیان کے لیے یہاں صرف بتوں کی غلاظت سے نہ یواقع ہوئی ہے اور باقی غلاظتوں سے نہی دوسرے مقام پر بیان ہوئی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ من اببتدا غایت کے لیے ہو گویا انہیں مطلقاً نجاست سے روکا پھر اس مبدء کو ان کے لیے متعین کردیا جو انہیں لاحق تھا کیونکہ ببت کی عبادت ہر فساد اور رجس کی جامع ہے اور جنہوں نے کہا : من تبعیض کے لیے ہے انہوں نے آیت کا معنی الٹ کردیا اور خراب کردیا۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واجتبوا قول الزور۔ الزور باطل اور جھوٹ کو کہتے ہیں۔ زور کہا جاتا ہے کیونکہ حق سے پھیرا گیا ہوتا ہے، اسی سے ہے : تزورعن کھفھم (الکہف :17) مدینۃ زواء یعنی مئالۃ ہر وہ چیز جو حق کے عللاوہ ہے وہ کذب باطل اور زور ہے۔ حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے فرمایا : عدلت شھادۃ الزور بالشرک باللہ (2) بتوں کی عبادت، نہی میں شرک باللہ سے ملائی گئی ہے۔ یہ جملہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ فرمایا (3) مسئلہ نمبر 6 ۔ یہ آیت جھوٹی گواہی دینے کی وعید کو متضمن ہے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ جب اسے جھوٹے گواہ پر اطلاع ہو جائئے تو اسے تعزیر لگائے اور اس کے متعلق لوگوں کو بتائے تاکہ وہ پہنچانا جائے اور کسی کو اپنی شہادت سے دھوکا نہ دے۔ اس کی شہادت میں حکم مختلف ہوجاتا ہے جب وہ توبہ کرے۔ اگر وہ پہلے اہل عدالت میں سے تھا عدالت کے ساتھ مشہور تھا اور اسے اچھا سمجھا جاتا تھا تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائئے گی کیونکہ تو یہ میں اس حالت تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں کیونکہ وہ پہلے سے زیادہ نیکیاں کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا۔ اور اگر پہلے وہ اتنا نیکی میں مشہور نہ تھا پھر توبہ کے بعد اس نے عبادت شروع کردی اور تقویٰ کا پیکر ببن گیا تو اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ صحیح میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ان اکبر الکبائر الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وشھادۃ الزور وقول الزور (1) یعنی بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہ یدینا اور جھوٹی بات کرنا ہے۔ نبی پاک ﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے آپ آخری جملہ کا تکرار کرتے رہے حتیٰ کہ ہم نے کہا : کاش ! آپ خاموش ہوجاتے۔ (2)
Top