Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ
: یہ
وَمَنْ
: اور جو
يُّعَظِّمْ
: تعطیم کرے
حُرُمٰتِ اللّٰهِ
: شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں)
فَهُوَ
: پس وہ
خَيْرٌ
: بہتر
لَّهٗ
: اس کے لیے
عِنْدَ رَبِّهٖ
: اس کے رب کے نزدیک
وَاُحِلَّتْ
: اور حلال قرار دئیے گئے
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاَنْعَامُ
: مویشی
اِلَّا
: سوا
مَا يُتْلٰى
: جو پڑھ دئیے گئے
عَلَيْكُمْ
: تم پر۔ تم کو
فَاجْتَنِبُوا
: پس تم بچو
الرِّجْسَ
: گندگی
مِنَ
: سے
الْاَوْثَانِ
: بت (جمع)
وَاجْتَنِبُوْا
: اور بچو
قَوْلَ
: بات
الزُّوْرِ
: جھوٹی
یہ (ہمارا حکم ہے) جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیئے گئے ہیں۔ سوا ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
(بقیہ حاشیہ سابقہ آیت) امام ابوحنیفہ (رح) نے ان احادیث کے جواب میں فرمایا کہ احادیث مذکورہ میں نمازوں سے صرف فرض نمازیں مراد ہیں۔ مساجد میں فرض نمازوں کا ثواب اسی ترتیب کے ساتھ ہے جو ترتیب احادیث میں بیان کی گئی ہے نوافل مراد نہیں ہیں کیونکہ نوافل تو گھروں میں افضل ہیں۔ صحیحین میں حضرت زید بن ثابت ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوائے فرض نماز کے دوسری نمازیں اپنے گھروں کے اندر افضل ہیں۔ ابو داؤد و ترمذی نے حضرت زید بن ثابت کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کی اپنے گھر کے اندر نماز میری اس مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ سوائے فرائض کے۔ طحاوی نے حضرت عبداللہ بن سعد کی روایت سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ اپنے گھر کے اندر نماز پڑھنی مسجد میں نماز پڑھنے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ مسئلہ : اگر کسی نے بیمار کے تندرست ہوجانے یا مسافر کے واپس آجانے کی شرط کے ساتھ اپنی نذر صوم کو مشروط کیا اور یوں کہا جب میرا مسافر واپس آجائے گا یا بیمار تندرست ہوجائے گا تو میں ایک ماہ کے روزے محض اللہ کے لئے رکھوں گا تو شرط پوری ہونے کے بعد ایفاء نذر اس پر واجب ہے وجود شرط سے پہلے اگر روزے رکھ لے گا تو ادائے نذر کے لئے کافی نہ ہوگا دوبارہ روزے رکھنے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک شرط انعقاد سبب ہی سے مانع ہے (شرط کی موجودگی میں سبب ہی نہیں پیدا ہوتا) اور وجود سبب کے بغیر ادا کا کوئی معنی نہیں۔ امام شافعی (رح) وجود شرط سے پہلے ادا کو کافی سمجھتے ہیں ان کی نظر میں شرط حکم سے مانع ہے وجود سبب سے مانع نہیں۔ اس لئے اگر وقوع شرط سے پہلے روزے رکھ لئے تو نذر پوری ہوجائے گی جیسے نصاب زکوٰۃ ہوجانے کے بعد ‘ سال تمام ہونے سے پہلے اگر زکوٰۃ ادا کردی جاتی ہے تو ادا ہوجاتی ہے۔ مسئلہ اگر وجوب ادا کی نسبت کسی خاص وقت یا زمانہ کی طرف کی (مثلاً یوں کہا کہ اس مقدمہ میں اللہ مجھے کامیاب کر دے گا تو میں اس کے نام پر سارے ماہ رجب کے روزے رکھوں گا ‘ یا آئندہ سال حج کروں گا) تو امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک وقت آنے سے پہلے ہی نذر کو ادا کرسکتا ہے (رجب آنے سے پہلے ہی ایک ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے) ۔ امام محمد فرماتے ہیں وقت کی طرف نسبت ایسی ہی ہے جیسے کسی شرط کے ساتھ مشروط کرنا (اور جب تک شرط اور قید موجود نہ ہو ادا صحیح نہیں اسی طرح اگر وقت مقرر نہ آیا ہو تو ادا صحیح نہیں) شیخین فرماتے ہیں نذر کی وقت کی طرف نسبت شرط کی طرح نہیں ہے ( وقت کی طرف نسبت کرنے سے نذر مشروط نہیں ہوجاتی بلکہ) یہ نذر منجز (بلاشرط) ہے صرف وقت کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے اور قیود قابل اعتبار نہیں ہوتیں۔ جیسے کسی نے اگر بازار میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تو کہیں نماز پڑھے نذر ادا ہوجائے گی اسی طرح وقت مقرر سے پہلے روزے رکھ لینا بھی جائز ہے اور نذر پوری ہوجائے گی اور اگر مقررہ وقت گزر گیا اور روزے نہ رکھے اور حج نہ کیا تو اس کے بعد روزے رکھے جاسکتے ہیں اور حج کیا جاسکتا ہے۔ امام زفر (رح) نے فرمایا ادائے نذر کی جس وقت کی جانب نسبت کی ہے اگر شرعاً اس وقت کو افضلیت حاصل ہے اور مقررہ وقت سے پہلے جس وقت میں نذر ادا کر رہا ہے وہ وقت فضیلت میں مقررہ وقت سے کم ہے اور قبل از وقت نذر ادا کردی تو ادا نہ ہوگی بلکہ دوبارہ (مقررہ وقت آنے پر) ادا کرنی ہوگی اور اگر ایک وقت کو دوسرے وقت پر کوئی فضیلت نہ ہو تو وقت مقررہ آنے سے پہلے بھی نذر ادا ہوجائے گی۔ میرے نزدیک یہی قول زیادہ مناسب ہے ‘ مثلاً کسی نے عرفہ کے دن یا عاشورہ کے دن یا پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی نذر مانی تو مقررہ ایام کے آنے سے پہلے اگر روزے رکھ لئے تو نذر پوری نہ ہوگی (ان ایام کو فضیلت حاصل ہے) اسی طرح وسط رات میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تو رات آنے سے پہلے دن میں یا رات کے بعد آنے والے دن میں نماز پڑھنے سے نذر ادا نہ ہوگی (وسط رات کا وقت فضیلت رکھتا ہے۔ ) اگر شبہ کیا جائے کہ رات آنے سے پہلے ہی دن میں جو نماز پڑھ لیتا ہے وہ ایفائے نذر میں احتیاط سے کام لیتا ہے معلوم نہیں آنے والی رات تک زندہ رہے یا نہ رہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ آنے والی رات تک زندہ رہنا عموماً ہوتا ہی ہے (کیونکہ نذر ماننے والا کسی مہلک مرض میں مبتلا نہیں ‘ نہ مرنے کے قرائن موجود ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرفہ کے روزے سے میں اللہ سے ثواب کی امید اتنی رکھتا ہوں کہ وہ پچھلے سال (کے گناہوں) کا بھی کفارہ ہوجائے اور آنے والے ایک سال (کے گناہوں) کا بھی اور عاشورہ کے روزے سے مجھے اللہ سے اتنی امید ثواب ہے کہ وہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ رواہ مسلم و ابن حبان والترمذی وابن ماجۃ من حدیث ابی قتادہ و روی ابن ماجۃ من حدیث ابی سعید الخدری عن قتادہ بن نعمان نحوہ۔ اس مبحث کی حدیث حضرت زید بن ارقم اور حضرت سہل بن سعد اور حضرت ابن عمر کی روایت سے بھی آئی ہے رواہ الطبرانی اور حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے رواہ احمد۔ حافظ ابن حجر نے کہا حضرت انس وغیرہ سے اس موضوع کی روایت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی دوسرے ایام ایسے نہیں کہ ان ایام (یعنی ایام تشریق) سے زیادہ ان میں نیک عمل کرنا اللہ کو محبوب ہو ‘ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ راہ خدا میں جہاد بھی (ان ایام کی نیکی سے زیادہ محبوب نہیں) فرمایا راہ خدا میں جہاد بھی نہیں۔ ہاں (اگر کسی نے ایسا جہاد کیا ہو کہ) راہ خدا میں جان و مال لے کر نکلا اور پھر اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لایا ہو (تو ایسا جہاد اللہ کو ان ایام میں عمل صالح کرنے سے زیادہ محبوب ہوجائے گا) رواہ ابو داؤد من حدیث ابن عباس ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایام عشرہ (یعنی عشرۂ ذی الحجہ کی عبادت) سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک اور کسی ایام کی عبادت نہیں ان دنوں میں ایک دن کا روزہ (دوسرے ایام کے) ایک سال کے (روزوں کے) برابر ہے اور (ان دنوں کی) ایک رات شب قدر کے برابر ہے۔ رواہ ابن ماجۃ من حدیث ابی ہریرہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے خدا کے مہینے کے یعنی محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ رواہ مسلم و اصحاب السنن الاربعۃ عن ابی ہریرہ ؓ والرویانی فی مسندہ والطبرانی عن جندب۔ مسئلہ جس نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی اس کو اختیار ہے پیدل جائے یا سواری پر۔ مبسوط میں امام ابوحنیفہ (رح) : کا یہی مسلک بتایا گیا ہے یعنی پیدل چلنا اس پر واجب نہیں ہے بعض دوسرے علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔ اس قول کی بناء اسی گزشتہ نظریہ پر ہے کہ جس نے نذر طاعت کی ہو لیکن اس میں شرط لگا دی ہو جو طاعت نہ ہو تو شرط کی پابندی اس کے لئے لازم نہیں ہے۔ قدوری اور اکثر متون میں (امام کا مسلک یہ) بیان کیا گیا ہے کہ پیدل جانا اس کے لئے لازم ہے سوار نہ ہو اور یہ حکم طواف زیارت تک قائم رہے گا۔ پیدل چلنا کس جگہ سے لازم ہے یہ مسئلہ اختلافی ہے بعض نے کہا میقات سے پیدل جانا لازم ہے کیونکہ میقات سے ہی حج شروع ہوتا ہے صحیح تر قول یہ ہے کہ گھر سے ہی اس کو پیدل (حج کو) جانا لازم ہے ہاں اگر گھر سے پیدل نہ چلنے کی نیت کی ہو تو جہاں سے پیدل چلنے کی نیت کی ہو اس کی پابندی کرے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے یہ یعنی جو قدوری نے ذکر کیا ہے اس طرف اشارہ ہے کہ پیدل چلنا نذر کی وجہ سے واجب ہوجاتا ہے۔ طحاوی نے کہا یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) : کا ہے۔ جو لوگ سوار ہو کر حج کو جانے کو پیدل حج کو جانے سے افضل جانتے ہیں ان کی دلیل تو صاف ہے کہ عبادت کی نذر مانی گئی ہے (یعنی مقصد نذر حج ہے) اور پیدل جانے میں ترک افضل ہے (کیونکہ اللہ نے استطاعت حج کے لئے شرط کی ہے اور استطاعت میں سواری بھی شامل ہے اس لئے سوار ہو کر جانا (افضل ہے) امام صاحب کے نزدیک پیدل جانا بشرطیکہ پیدل چلنے کی طاقت اور برداشت ہو افضل ہے لیکن آپ کے نزدیک ادائے منذور کے لئے شرط یہ ہے کہ واحیات مقصودہ میں سے اللہ کی طرف سے کوئی واجب اس منذور کا ہم جنس ہو اور پیدل چلنا اللہ کی طرف سے کسی جگہ بھی واجب نہیں ہے لہٰذا پیدل صج کرنے کی نذر ماننے کی صورت میں بھی پیدل جانا ضروری نہیں۔ پیدل حج کی نذر کرنے کی صورت میں سوار ہو کر جانے کی افضلیت احادیث سے بھی ثابت ہے حضرت انس بن مالک ؓ کی روایت ہے کہ ایک بوڑھا شخص اپنے دونوں طرف اپنے دونوں بیٹوں پر سہارا لگا کر چل رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے معائنہ فرمایا اور دریافت کیا اس کو کیا ہوگیا ہو صحابہ نے عرض کیا حضور اس نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے ‘ فرمایا یہ جو اپنے کو خود دکھ دے رہا ہے خدا کو اس (کی اذیت کوشی) کی ضرورت نہیں پھر اسی بوڑھے آدمی کو سوار ہوجانے کا حکم دیا۔ متفق علیہ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں حدیث مذکور کے یہ الفاظ ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا بوڑھے آدمی تیری (اس محنت) اور تیری نذر کی خدا کو ضرورت نہیں۔ رواہ مسلم۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی کا بیان ہے میری بہن نے پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی اور مجھے مسئلہ دریافت کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں بھیجا (میں نے حاضر خدمت ہو کر مسئلہ دریافت کیا) فرمایا اس کو چاہئے کہ پیدل (بھی) چلے اور سوار (بھی) ہوجائے۔ متفق علیہ۔ جو لوگ پیدل جانا ضروری قرار دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ جب پیدل جانے کی نذر مانی تو پیدل جائے ‘ رہی اس کی نظیر شرعی تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک طواف زیارت پیادہ پا کرنا واجب ہے یہ عبادت مقصودہ ہے اس لئے نذر ماننے والا اس کی نذر مان سکتا ہے اور حسب نذر ادائے منذور ضروری قرار پاسکتی ہے۔ رہا احادیث مذکورہ کا جواب تو وہ خود روایت ہی سے ظاہر ہے کہ جب وہ بوڑھا پیدل نہیں چل سکتا تھا ( جیسا کہ حضرت انس کی روایت میں صراحۃً آیا ہے) تو حضور نے اس کو سوار ہونے کا حکم دے دیا اسی طرح حضرت عقبہ کی بہن کا قصہ تھا کہ وہ طاقت نہیں رکھتی تھی (ابو داؤد کی حدیث میں اس کی صراحت آئی ہے) ان حدیثوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پیدل حج کرنے والے پر نذر کے مطابق حج کرنے واجب نہیں ہے بلکہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عذر کی وجہ سے سوار ہونا جائز ہے۔ مسئلہ اگر پیدل حج کو جانے کی نذر مانی اور کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے سوار ہوگیا تو باتفاق علماء دوبارہ پیدل حج کرنا واجب نہیں لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلمہ نظریہ کے مطابق قیاس کا تقاضا تھا کہ دوبارہ پیدل حج کرنا واجب ہو ‘ جس طرح پے در پے روزے رکھنے کی نذر یا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی نذر کی صورت میں خلاف ورزی کرنے سے اعادہ مطابق نذر واجب ہوتا ہے لیکن سوار ہوجانے کی اجازت چونکہ حدیث میں آگئی ہے اس لئے قیاس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ ایک سوال : احادیث مذکورہ سے سوار ہونے کی اجازت اس شخص کے لئے ثابت ہوتی ہے جس میں پیدل چلنے کی طاقت نہ ہو۔ جس میں پیدل چلنے کی طاقت ہو اس کے لئے سوار ہونے کی اجازت احادیث سے ثابت نہیں ہوتی اس لئے پیدل حج کی نذر ماننے والا اگر بلا عذر سوار ہوجائے تو اس کی نذر پوری نہ ہونی چاہئے۔ جواب : حضرت عمران بن حصین نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب بھی ہم کو خطاب فرمایا صدقہ کرنے کا حکم ضرور دیا اور مثلہ کرنے کی ممانعت ضرور فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ پیدل حج کو جانے کی نذر ماننی بھی مثلہ کی ہی ایک شاخ ہے جس نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہو وہ ایک قربانی بھیج دے اور سوار ہوجائے۔ رواہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شریعت کے احکام اکثر عام ہوتے ہیں اور حج کے لئے عام طور پر پیدل جانے کی طاقت نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے علماء نے کہا ہے کہ توشۂ راہ اور سواری سفر میں سہولت پیدا کرنے والی چیزیں ہی نہیں ہیں بلکہ ضروری چیزیں ہیں جن کے بغیرعام طور پر حج ممکن نہیں ہوتا اسی لئے ہم سوار ہونے کے جواز کے قائل ہیں حضرت عمران کی روایت کردہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واجب کا ترک کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر کے دونوں صورتیں چاہتی ہیں (کہ سوار ہوجانے سے چونکہ واجب کا ترک ہوا ہے) دوبارہ ادا بطور قضا کی جائے اب اگر پیدل چلنا عبادت مقصودہ ہو اور مستقل ہو تو ترک کی صورت میں اس کی دوبارہ ادا بصورت قضا ہونی چاہئے اور اگر اس کو خود مستقل عبادت نہ قرار دیا جائے بلکہ عبادت کا وصف یا شرط کہا جائے تو چونکہ غیر مستقل ہے اس لئے اس کی قضا بمثل معقول تو ممکن ہی نہیں اور بمثل غیر معقول قضا کا ضرور تصور کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا اختیار شارع کو ہے ‘ رائے اور قیاس سے کسی مثل غیر معقول کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔ جیسے واجبات صلوٰۃ کی قضاء نے سجدۂ سہو کو مقرر کیا ہے (جو مثل غیر معقول ہے) مثل غیر معقول کی تعیین شارع پر موقوف ہے شارع نے اگر کسی چیز کا مثل غیر معقول مقرر کردیا ہو تو مثل غیر معقول سے اس چیز کی ادائیگی (بطور قضا) ہوجائے گی ورنہ اس فوت شدہ عبادت کو دوبارہ لوٹایا جائے گا اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر روزے پے در پے نہ رکھے ہوں یا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی نذر کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھی ہو تو صوم و صلوٰۃ کو دوبارہ ادا کیا جائے (کیونکہ اس کا مثل غیر معقول شارع نے مقرر نہیں کیا) اور اگر پیدل حج کو جانے کی نذر میں سوار ہو کر حج کو گیا تو اس کی تلافی ایک قربانی پیش کرنے سے ہوجائے گی شریعت نے اس کے لئے مثل غیر معقول (یعنی قربانی پیش کرنے) کی تعیین کردی ہے۔ دوبارہ حج کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں عذر اور غیر عذر کا کوئی فرق نہیں۔ دونوں میں فرق تو صرف گناہ کا ہوگا مزدلفہ میں قیام اگر بلا عذر ترک کردیا تو یہ ناجائز ہے اور کسی عذر (شرعی) کی وجہ سے ایسا کرلیا تو جائز ہے اور قربانی پیش کرنا دونوں صورتوں میں واجب ہے۔ مسئلہ : جس نے حج کو پیدل جانے کی نذر مانی اور پیدل نہ گیا خواہ کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے تو ایک قربانی واجب ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین (رح) کے نزدیک کم سے کم ایک بکری کی قربانی کرنی چاہئے اور اگر اس نذر میں قسم کی نیت کی ہو تو قسم کا کفارہ بھی لازم ہے۔ طحاوی نے امام صاحب اور صاحبین کا یہی قول بیان کیا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اس صورت میں صرف کفارۂ قسم کافی ہے (قربانی کی ضرورت نہیں) ۔ پیدل حج کرنے کی نذر ماننے کی صورت میں اگر سوار ہوجائے تو قربانی دینی چاہئے اس کی دلیل حضرت عقبہ بن عامر کی بہن والی حدیث ہے جو بروایت ابو داؤد اس طرح آئی ہے کہ حضور ﷺ نے اس کو سوار ہو (کر) جانے اور ایک قربانی پیش کرنے کا حکم دیا۔ یہ روایت صرف ابو داؤد کی ہے اور ابو داؤد کی سند اہل حدیث کے نزدیک معتبر ہے۔ صحیحین میں حضرت عقبہ کی بہن والی جو حدیث آئی ہے وہ مختصر ہے (اس میں قربانی پیش کرنے کا حکم نہیں یہ حکم ابو داؤد کی روایت میں زائد ہے) اور باوثوق راوی کی روایت میں (اگر دوسری روایتوں سے کچھ) زیادتی قابل قبول ہوتی ہے اور چونکہ اس حدیث میں مطلق قربانی کا حکم ہے اور قربانی کم سے کم بکری کی ہوتی ہے) اس لئے امام ابوحنیفہ کا یہ قول صحیح ہے کہ ایک بکری کی قربانی بھی کافی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ قربانی کے لئے حدیث میں بدنہ کا خاص طور پر ذکر آیا ہے (بدنہ صرف اونٹ یا بھینس گائے کو کہتے ہیں بلکہ صاحب قاموس کے نزدیک تو اس کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے بہرحال بدنہ بکری کو نہیں کہتے) طحاوی کی روایت کے بموجب حضرت عقبہ بن عامر کی بہن کے واقعہ میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اس کو حکم دو کہ سوارہو جائے اور ایک بدنہ کی قربانی دے۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے جو یہ حدیث نقل کی ہے اس میں بھی صرف بدنہ کی قربانی کا حکم ہے روایت اس طرح ہے کہ عقبہ کی بہن نے پیدل حج کو جانے کی نذر مانی تھی لیکن اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ ایسا کرسکے حضور ﷺ نے حضرت عقبہ سے فرمایا اللہ کو تیری بہن کے پیدل چلنے کی ضرورت نہیں اس کو سوار ہوجانا چاہئے اور ایک بدنہ کی قربانی دے دے۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث حسن ہے اس کا سلسلۂ سند اس طرح ہے ابو داؤد عیسیٰ بن ابراہیم از عبدالعزیز از مطر الوراق از عکرمہ از ابن عباس اور سوائے دونوں آخری راویوں کے سب نے یہ حدیث حدثنا کے لفظ سے بیان کی ہے۔ سند حدیث پر شبہ : عبدالعزیز بن مسلم غیر معروف ہے اور مطر وراق کو ابن سعد نے ضعیف الحدیث کہا ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ذہبی نے عبدالعزیز کو معروف کہا ہے اگر کسی کی نظر میں مجہول ہو تو ہو اس سے عبدالعزیز کے معروف ہونے میں فرق نہیں آتا اور مطر الوراق مسلم کے راویوں میں سے ہے (اس لئے ضعیف الحدیث نہیں ہوسکتا) ذہبی نے کہا یہ ثقہ ہے۔ امام احمد اور ابن معین نے مطر وراق کو ضعیف الحدیث کہا ہے لیکن عطاء سے روایت کرنے میں اس کو ضعیف کہا ہے اور یہ حدیث مطر نے بروایت عکرمہ بیان کی ہے۔ ابن ہمام نے کہا امام ابوحنیفہ (رح) نے جو مطلق قربانی کو کافی قرار دیا ہے (اگرچہ بکری کی ہو) اونٹ کی تعیین نہیں کی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی قوی ہیں (اور بدنہ کی تخصیص کے راوی کمزور ہیں) ۔ میں کہتا ہوں مطلق قربانی والی حدیث کو قوی الروایت کہنا ناقابل تسلیم ہے اور مان بھی لی جائے تب بھی قوی کو ترجیح ضعیف پر اسی وقت ہوتی ہے جب دونوں میں (ناقابل ازالہ) تعارض ہو اور اس جگہ دونوں میں تعارض ہی نہیں ہے ایک مطلق ہے دوسری مقید اور ایک ہی واقعہ سے دونوں کا تعلق ہے اور دونوں میں ایک ہی حکم ہے اس لئے مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا اور مطلق سے بھی مقید ہی مراد ہوگا حضرت علی ؓ اور بعض دوسرے صحابہ کے اقوال میں یہ آیا بھی ہے کہ (دونوں حدیثوں میں مقید ہی مراد ہے) یہ اگرچہ اقوال صحابہ ہیں جو حدیث موقوف کا درجہ رکھتے ہیں لیکن ایسے مباحث میں (کوئی صحابی اپنی طرف سے کسی قید کا اضافہ نہیں کرسکتا) موقوف کو مرفوع کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ امام شافعی (رح) نے بسلسلۂ سعد بن ابی عروبہ از قتادہ بحوالۂ حسن نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے اس شخص کے متعلق جس نے پیدل جانے کی قسم کھائی ہو۔ فرمایا وہ پیدل جائے اور اگر پیدل چلنے سے عاجز ہوجائے تو سوار ہوجائے اور بدنہ کی قربانی کرے۔ عبدالرزاق نے صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے پیدل کعبہ کو جانے کی نذر مانی ہو وہ کیا کرے ؟ یہ سوال حضرت علی ؓ سے کیا گیا۔ فرمایا پیدل جائے اگر تھک جائے تو سوار ہوجائے اور اونٹ کی قربانی کر دے۔ حضرت ابن عمر ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ و حسن کے اقوال بھی ایسے ہی روایت میں آئے ہیں۔ مسئلہ : جس نے بیت اللہ یا کعبہ کو پیدل جانے کی نذر مانی اور حج یا عمرہ کا لفظ نہیں کہا تو استحساناً اس پر پیدل حج یا عمرہ کرنا واجب ہے لیکن قیاس کا تقاضا ہے کہ اس پر کچھ واجب نہ ہو (نہ حج نہ عمرہ) استحسان کی وجہ محض عرف عام ہے (کعبہ یا بیت اللہ کو جانے کا معنی عرف عام میں حج یا عمرہ کرنا ہی ہوتا ہے) اور اگر حرم تک پیدل جانے کی نذر مانی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں کیونکہ عرف عام میں حرم تک جانے کا معنی حج یا عمرہ کرنا نہیں ہے۔ صاحبین کے نزدیک احتیاطاً حج یا عمرہ کرنا اس پر لازم ہے لیکن اگر صفا یا مروہ یا عرفات یا مزدلفہ یا منیٰ یا مقام ابراہیم تک جانے کی نذر مانی تو باتفاق ائمہ کچھ واجب نہیں۔ اسی طرح اگر پیدل جانے کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ خروج یا بیت اللہ تک سفر کرنے کا لفظ بولا اور نذر مانی تب بھی کچھ واجب نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس کا مدار عرف عام پر ہے عرف عام میں اگر کسی لفظ سے نذر عبارت کا مفہوم ذہن میں آتا ہے تو اس عبادت کا وجوب ہوجائے گا ورنہ نہیں ہوگا۔ اگر یوں کہا کہ مجھ پر خانہ خدا کو جانا واجب ہے اور یہ الفاظ کہتے وقت نیت کی مسجد مدینہ کی یا مسجد بیت المقدس کی یا کسی اور مسجد کی تو شرعاً اس پر کچھ لازم نہیں ہوتا ‘ کیونکہ خانۂ خدا کا اطلاق ہر مسجد پر صحیح ہے۔ مسئلہ : جس نے کسی طاعت کی نذر کی تو اس پر وہ طاعت بھی واجب ہوجائے گی اور جن شرائط و لوازم پر وہ طاعت موقوف ہے وہ سب واجب ہوجائیں گی۔ مثلاً کسی نے بغیر وضو کے یا بغیر قراءت (قرآن) کے دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر مانی یا ایک رکعت یا تین رکعتیں پڑھنے کی نذر مانی تو باوضو اور مع قراءت کے دو رکعتیں واجب ہوں گی اور ایک رکعت کی بجائے دو رکعتیں اور تین کے بجائے چار رکعتیں لازم ہوں گی امام محمد (رح) نے فرمایا بلا وضو نماز پڑھنے کی نذر ہی درست نہیں بلاوضو نماز طاعت ہی نہیں ہے ہاں بلا قراءت نماز کبھی طاعت ہوتی ہے جیسے امی (جاہل ناخواندہ جس کو کوئی آیت بھی یاد نہ ہو) کی نماز۔ باقی تینوں صورتوں میں امام محمد کا قول امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے موافق ہے۔ امام زفر (رح) نے فرمایا تین رکعتوں کی نذر مانی تو دو رکعتیں لازم ہوں گی اور باقی صورتوں میں کچھ واجب نہ ہوگا کیونکہ بےوضو اور بےقراءت نماز طاعت نہیں اور ایک رکعت بھی طاعت نہیں خواہ تنہا ایک ہی ہو یا اس سے پہلے دو رکعتیں ہوں ‘ اس لئے ان صورتوں میں نذر ہی صحیح نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کسی چیز کی ذمہ داری لینے کے ساتھ ان چیزوں کا التزام ضروری ہوجاتا ہے جن پر اس چیز کا وجود موقوف ہو۔ مسئلہ جس نے پیدل حج کو جانے کی منت مانی اور کسی عذر کی وجہ سے یا بلا عذر سوار ہو کر گیا اور ایک قربانی کردی تو کیا قسم کا کفارہ بھی اس پر واجب ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے نفی کو اختیار کیا ہے کفارۂ قسم واجب نہیں۔ ہاں اگر قسم کی نیت کی ہو تو قسم کا کفارہ لازم ہے اس مسئلہ میں ویسا ہی اختلاف ہے جیسا اصل منذور کے فوت ہونے کی صورت میں پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ اگر صرف اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو روزہ رکھنا بھی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک واجب ہے کیونکہ ان دونوں اماموں کے نزدیک اعتکاف بغیر روزہ کے صحیح نہیں۔ امام احمد اور امام شافعی کے نزدیک صرف اعتکاف کافی ہے روزہ واجب نہیں۔ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں۔ اعتکاف رات کا بھی ہوسکتا ہے اور کم سے کم اعتکاف کی مدت ایک ساعت ہے۔ ایک روایت میں امام احمد کا قول بھی امام مالک کے قول کے موافق آیا ہے۔ اصل میں امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ واجب اعتکاف کی صحت کے لئے روزہ شرط ہے نفل اعتکاف بغیر روزہ کے بھی ہوسکتا ہے۔ امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔ اعتکاف کے لئے روزہ کی شرط کا ثبوت مندرجۂ ذیل حدیث سے ہوتا ہے جو دارقطنی نے بحوالۂ سوید بن عبدالعزیز بروایت سفیان بن حسین بوساطت زہری از عروہ بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں (ہوتا) دارقطنی نے کہا اس حدیث کی روایت میں سوید منفرد ہے اور امام احمد کے نزدیک سوید متروک الحدیث ہے۔ بخاری نے کہا سوید کی حدیث میں نظر ہے یحییٰ نے کہا یہ ہیچ ہے۔ سفیان کے متعلق امام احمد نے کہا یہ قوی نہیں ہے ابن حبان نے کہا دوسری روایات میں تو سفیان ثقہ ہے لیکن زہری کی حدیث الٹی نقل کرتا ہے میں کہتا ہوں ذہبی نے اس کو صدوق (بڑا سچا) اور مشہور کہا ہے اور مسلم نے اس کی روایت لی ہے۔ ابن ہمام نے الکمال میں لکھا ہے کہ ابن حجر نے کہا میں نے ہثیم سے سفیان کے متعلق دریافت کیا ہثیم نے اس کے متعلق اچھے کلمات کہے۔ بعض علماء نے کہا یوں تو سفیان ٹھیک ہے لیکن زہری کی روایت نقل کرنے میں اس کے متعلق لاباس بہ نہیں کہا جاسکتا اور چونکہ مذکورہ حدیث زہری کی روایت سے نقل کی ہے اس لئے صحیح نہیں سوید اور سفیان از زہری اس کے راوی ہیں۔ دوسری حدیث ابو داؤد نے بحوالۂ عبدالرحمن بن اسحاق بروایت زہری از عروہ بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : کی سنت یہ ہے کہ معتکف کسی مریض کی عیادت کو نہ جائے ‘ کسی جنازہ میں شریک نہ ہو ‘ عورت کو مس بھی نہ کرے ‘ نہ مباشرت کرے اور سوائے (فطری) ضروریات کے اور کسی حاجت کے لئے نہ نکلے اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہوتا اور جماعت والی مسجد کے علاوہ (کسی اور جگہ) بھی نہیں ہوتا۔ ایک شبہ : ابو داؤد نے کہا ہے کہ عبدالرحمن بن اسحاق کے علاوہ کسی نے بھی اس حدیث کے متعلق سنت کا لفظ نہیں کہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے اور دارقطنی نے عبدالرحمن کو ضعیف کہا ہے۔ ازالہ : اس حدیث کو مرفوع قرار دینا (راوی کی طرف سے دوسروں کی روایت پر) زیادتی ہے (اور ثقہ کی روایت میں زیادتی مقبول ہے) اور عبدالرحمن ثقہ ہے البتہ قدری ضرور ہے (قدریہ فرقہ کے عقیدہ کا ہے) ابو داؤد نے یہی کہا ہے۔ ابن معین نے اس کو ثقہ مانا ہے اور امام احمد نے اس کو صالح الحدیث کہا ہے اور مسلم نے بھی اس کی روایت لی ہے۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث (گو صحیح ہو پھر بھی) استدلال کے قابل نہیں کیونکہ لا اعتکاف کا لفظ جو اس حدیث میں آیا ہے وہ سنت علی المعتکف کے ذیل میں تو آ ہی نہیں سکتا ایسا کرنا ترتیب کلام کے اقتضاء کے خلاف ہے اور بالفرض مان بھی لیا جائے تب بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اعتکاف کے لئے روزہ کے سنت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ‘ اختلاف تو شرط ہونے میں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) روزہ کو اعتکاف کے لئے شرط قرار دیتے ہیں اور شرط کے لئے کوئی دلیل ہونی چاہئے (اور اس حدیث سے روزہ کا سنت ہونا ثابت ہوتا ہے) ۔ ابن جوزی نے التحقیق میں بحوالۂ دارقطنی براویت زہری از سعید بن مسیب و عروہ یہ حدیث بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے اور معتکف کے لئے سنت یہ ہے کہ سوائے (فطری) حاجت کے اور کسی غرض سے (مسجد سے) باہر نہ نکلے نہ جنازے کے ساتھ جائے نہ مریض کی عیادت کرے نہ عورت کو مس کرے نہ مباشرت (مس بدن) کرے اور اعتکاف مسجد جماعت کے سوا (اور جگہ) نہیں ہوتا اور اعتکاف کرنے والے کو حضور روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ اس حدیث کی صحت پر ابن جوزی نے اعتراض کیا ہے کیونکہ اس کی روایت میں ایک راوی ابراہیم بن محسر آیا ہے جس کو ابن عدی نے کہا کہ اس کی روایت کردہ حدیثیں منکر ہیں۔ دارقطنی نے کہا اس حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں کہ معتکف کے لئے سنت ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ : کی حدیث نہیں ہے بلکہ یہ زہری کا کلام ہے جس نے اس کو حدیث میں داخل سمجھا ہے اس کو وہم ہوگیا ہے ‘ ایک حدیث ابو داؤد نے عبدالرحمن بدیل کی روایت سے بحوالۂ عمرو بن دینار بیان کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے دور جاہلیت میں کعبہ کے پاس ایک دن رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی (اسلام کے بعد) رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا حضور ﷺ نے فرمایا اعتکاف کرلو اور روزہ رکھو۔ نسائی کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ : کو اعتکاف کرنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس روایت کے لئے دارقطنی نے کہا اس میں عبدالرحمن بن بدیل منفرد ہے اور یہ ضعیف ہے۔ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے جو حدیث بیان کی ہے اس میں روزہ کا ذکر نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ دارقطنی نے کہا میں نے ابوبکر نیشاپوری کو کہتے سنا کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ عمرو بن دینار کے معتمد تلامذہ میں سے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا نہ ابن جریج نے نہ ابن عیینہ نے نہ حماد بن سلمہ وغیرہ نے۔ ابن ہمام نے اس کو ضرور ثقہ کہا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ ابن معین نے اس کو صالح الحدیث قرار دیا ہے اور ابن حبان نے بھی اس کا شمار قابل وثوق راویوں میں کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ذہبی نے سفیان کی توثیق میں کچھ نہیں کہا۔ بالفرض اگر حضرت عمر ؓ : کو اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم روایتہ ثابت بھی ہوجائے ‘ تب بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے پہلے اعتکاف کی مع روزے کے نذر مانی ہوگی اور سوال بھی دونوں ہی کے متعلق کیا ہوگا ‘ لیکن راوی کے (ذہول یا نسیان کی وجہ سے) سوال کی روایت میں صوم کا لفظ رہ گیا۔ جس طرح اکثر صحیح روایتوں کے جواب کے اندر صوم کا ذکر نہیں کیا گیا۔ دارقطنی نے اپنی سند سے بروایت سعید بن بشیر از عبداللہ بن عمر از نافع از حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے شرک کے زمانہ میں اعتکاف کرنے اور روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی اور اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔ عبدالحق نے کہا کہ اس حدیث کی روایت میں سعید بن بشیر منفرد ہے ابن جوزی نے یحییٰ اور ابن نمیر کا قول نقل کیا ہے کہ سعید ہیچ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حافظ نے سعید کی شخصیت کو مختلف فیہ قرار دیا ہے ذہبی نے لکھا ہے کہ قتادہ کے شاگرد سعید بن بشیر کو شعبہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ بخاری نے کہا اس کی قوت حفظ میں کلام کیا گیا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قدری تھا۔ میں کہتا ہوں یہ امر ناقابل شک ہے کہ سعید بن بشیر ابن بدیل سے زیادہ ضعیف نہ تھا امام شافعی (رح) اور امام احمد نے اپنے استدلال میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کردہ حدیث پیش کی ہے کہ معتکف پر روزہ رکھنا (لازم) نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خود ہی اپنے اوپر واجب کرلے (اور مع روزہ کے اعتکاف کی نیت کرلے) ۔ رواہ الحاکم ‘ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ابن جوزی نے بھی اس پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی۔ بخاری (جن کے نزدیک اعتکاف کے لئے روزہ ضروری نہیں) نے حضرت ابن عمر ؓ کے بیان سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں گزارش کی کہ میں نے دور جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا (اب میرے لئے کیا حکم ہے) فرمایا ‘ اپنی نذر پوری کرو۔ متفق علیہ۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رات کو اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی اور ظاہر ہے کہ رات کو روزہ کا حکم نہیں ہے۔ بطور اعتراض اس روایت کے مقابلہ میں مسلم کی نقل کردہ وہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے جو شعبہ نے بروایت عبیداللہ بیان کی ہے ‘ اس روایت میں بجائے رات (لیلۃً ) کے دن (یوماً ) کا لفظ صراحۃً آیا ہے اب دونوں حدیثوں کے اختلاف کو دور کرنے کی صرف یہ صورت ہے کہ لیلۃً (رات) سے مراد ہوگی رات مع دن کے اور یوماً (دن) سے مراد ہوگا دن مع رات کے (یعنی دونوں حدیثوں میں پورے چوبیس گھنٹے مراد ہوں گے) اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ جس روایت میں یوماً کا لفظ آیا ہے وہ شاذ ہے اور یوماً کی روایت کو اگر درست مان بھی لیا جائے ‘ تب بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے دن کو اعتکاف کرنے کی نذڑ مانی تھی اور رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں یہی گزارش بھی کی تھی اور حضور ﷺ نے صرف ایفاء نذر کا حکم دیا روزہ کا ذکر بھی نہیں کیا اس سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں ہے۔ (اعتکاف شب بلا صوم کی تائید میں) یہ روایت بھی پیش کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن انیس نے خدمت گرامی میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں صحرا کا رہنے والا ہوں وہیں رہتا ہوں اور الحمدللہ وہیں نماز بھی پڑھتا ہوں مجھے اجازت مرحمت فرما دیجئے کہ میں اس مسجد میں ایک رات کے لئے فروکش ہوجایا کروں۔ فرمایا تئیسویں تاریخ کی رات کو اس میں رہ جایاکرو۔ عبداللہ کے بیٹے سے لوگوں نے پوچھا پھر تمہارے باپ اس حکم کے بعد کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا میرے والد نماز عصر کے بعد یہاں داخل ہوجاتے تھے اور صبح تک کسی کام کے لئے بھی مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو باہر آتے تھے مسجد کے دروازے پر ان کا گھوڑا موجود ہی ہوتا تھا اس پر بیٹھ کر اپنے صحرا کو چلے جاتے تھے۔ رواہ ابو داؤد ‘ اس روایت سے صراحۃً معلوم ہو رہا ہے کہ صرف رات کا بھی اعتکاف درست ہے اگر کوئی کہے کہ ہم اس کو اعتکاف نہیں کہتے تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے اس میں کوئی قباحت نہیں اصطلاحات میں کوئی نزاع کی گنجائش نہیں چاہیں آپ اس کو اعتکاف نہ کہیں لیکن اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کہ بہ نیت طاعت مسجد کے اندر ٹھہرے رہنا طاعت ہے اور نذر کی وجہ سے (مستحب) طاعت بھی واجب ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : اگر کسی نے رمضان میں اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو رمضان میں ہی اعتکاف کرنا لازم ہے ‘ رمضان کی شرط ساقط نہیں کی جاسکتی ‘ کیونکہ رمضان میں ہر عبادت کا ثواب دوسرے ایام کی عبادت سے زیادہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ جس نے رمضان میں کوئی کار خیر بطور نفل کیا اس کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ہو۔ (یعنی رمضان میں نفل نیکی کا ثواب دوسرے دنوں میں فرض نیکی کے برابر ہوتا ہے) اور جس نے رمضان میں ایک فریضہ ادا کیا تو اس کی حالت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے رمضان کے علاوہ دوسرے ایام میں ستّر فرض ادا کئے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ عن سلمان الفارسی ؓ فی حدیث طویل۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top