Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
ان امور کا اہتمام رکھو ! اور جو حرمات الٰہی کی تعظیم کرے گا تو اس کے رب کے نزدیک یہ اس کے حق میں بہتر ہے اور تمہارے لئے چو پائے حلال ٹھہرائے گئے ہیں بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنا دیئے گئے ہیں تو بتوں کی گندگی سے اجتناب رکھو اور جھوٹ بات سے بچو
ذلک پورے جملہ کا قائم مقام ذلک جب اس طرح آتا ہے تو یہ پورے جملہ کا قائمقام ہوتا ہے۔ یعنی یہ باتیں ہیں جو بیت اللہ اور اس کے حج و مناسک سے متعلق ابراہیم کو بتائی گئی تھیں۔ ان کو اچھی طرح سن اور سمجھ لو۔ یہگویا تنبیہ کا کلمہ ہے۔ حضرت ابراہیم کو جو ہدایات دی گئی تھیں وہ اس جملہ پر پوری ہوئیں۔ اب آگے ان لوگوں کو ہدایات دی جا رہی ہیں جو بیت اللہ کی وراثت کے مدعی تو تھے لیکن اس امانت کی ذمہ داریوں سے بالکل بیخبر تھے۔ تمام حرمات الٰہی کے احترام کی ہدایت ومن یعظم حرمت اللہ فھو خیرلہ عند ربہ حرمت اللہ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے مثلاً حرم، مسجد حرام، ہدی اور قلائد وغیرہ ان تمام چیزوں کے احترام کی روایت حضرت ابراہیم کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ یہاں ان محترم چیزوں کی تعظیم و تکریم کی تاکید کی خاص وجہ یہ ہے کہ مشرکین نے حضرت ابراہیم کی تمام مقدس روایات اپنے دنیوی مفادات کی خاطر بالکل بدل ڈالی تھیں۔ مثلاً چار محترم مہینوں ہی کو لیجیے۔ ان کو نسی کا قاعدہ ایجاد کر کے جیسا کہ اس کی تفصیلی گزر چکی ہے، قمری کے بجائے شمسی مہینوں کے مطابق کرلیا گیا تھا کہ تجارتی پہلو سے ان کو سازگار بنایا جاسکے۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گی ہے کہ حرمات الٰہی کے احترام کی پابندیوں کے سبب سے ہوسکتا ہے کہ بظاہر بعض دنیوی مفادات کو کچھ نقصان پہنچے۔ لیکن دیکھنے کی چیز یہ اشارہ ہے ان تفصالہت کی طرف جو سورة انعام میں گزر چکی ہیں۔ ملاحظہ ہوں سورة انعام کی آیات 153-146 یہ ساری تحریم و تحلیل چونکہ مشرکانہ عقائد و تہمات پر میں تھی اس وج ہ سے فرمایا کہ اپنے بتوں کے تعلق سے جو گندگی تم نے اپنے اوپر لاد رکھی ہے اس سے بچو واجتنبوا قول الزور اور خدا کے اوپر جھوٹ افزا سے بچو۔ یعنی حرام و حلال تو تم اپنے جی سے کرتے ہو لیکن اس کو مذہبی تقدس کا درجہ دینے کے لئے منسوب خدا کی طرف کرتے ہو کہ اس نے تمہیں ان باتوں کا حکم دیا ہے۔ یہ نہایت سنگین جھوٹ اور اللہ تعالیٰ جل شانہ پر افتراء ہے، اس سے احتراز کرو۔ اسی چیز کو سورة انعام میں افترآء علی اللہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حرموا سارزقھم اللہ افترآء علی اللہ 140
Top