Al-Qurtubi - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر : 2۔ اس آیت میں چھبیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حرمت علیکم المیتہ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ اس کلام سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) (آیت) ” المنخنقۃ “ وہ جانور جو دم گھٹنے سے مر جائے، خنق کا معنی ہے دم گھٹنا خواہ اس کے ساتھ عمل کسی آدمی نے کیا ہو یا اس کے لیے عمل کسی پہاڑ میں ہوا ہو یا دو لکڑیوں کے درمیان ہوا ہو وغیرہ قتادہ نے ذکر کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بکری وغیرہ کا گلہ دباتے تھے جب وہ مر جاتی تھی تو اسے کھاتے تھے، حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اسی طرح ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والموقوذۃ “ وہ جانور جسے پتھر اور ڈنڈے سے مارا جاتا ہے حتی کہ وہ بغیر ذبح کے مر جاتا ہے، حضرت ابن عباس، حسن، قتادہ، ضحاک، اور سدی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے ہے، کہا جاتا ہے قذہ یقذہ وھو وقیذ۔۔۔۔۔ الوقذ کا معنی زور سے مارنا ہے فلان وقیذ سخت ضرب لگانے والا، قتادہ ؓ نے کہا : زمانہ جاہلیت کے لوگ ایسا کرتے تھے اور پھر اس جانور کو کھاتے تھے، اس سے مراد وہ مقتول جانور ہے جو غلیل سے مارا جائے، فرزدق نے کہا : شغارۃ تقذ الفصیل برجلھا فطارۃ لقوادم الابکار “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 151 دارالکتب العلمیہ) صحیح مسلم میں عدی بن حاتم سے مروی ہے فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں معراض تیر کے ساتھ شکار کرتا ہوں وہ شکار کو لگ جاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ” جب تو معراض تیر پھینکے اور وہ اسے چیر دے (اور خون بہا دے) تو اسے کھا اور اگر وہ تیر عرضا لگے (اسے چیرے نہیں صرف چوٹ دے) تو اسے نہ کھا “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحہ 145) ایک روایت میں ہے فرمایا : ” وہ وقیذ ہے “ ابو عمر نے فرمایا : غلیل، پتھر اور معراض تیر سے شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء قدیم وجدید کا اختلاف ہے پس جن کا خیال ہے کہ وہ وقیذ ہے اس کا کھانا جائز نہیں مگر جب اس کو ذبح کیا جائے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے، یہی امام مالک (رح) امام ابوحنیفہ (رح) ان کے اصحاب، ثوری اور امام شافعی (رح) کا قول ہے، شامی علماء نے اسمیں ان علماء کی مخالفت کی ہے۔ اوزاعی نے معراض تیر کے بارے میں کہا : اس کو کھاؤ خواہ اسے چیرے یا نہ چیرے۔ حضرت ابو الدرداء، حضرت فضالہ بن عبید، حضرت عبداللہ بن عمر اور مکحول رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے، ابو عمر ؓ نے کہا : اوزاعی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اسی طرح ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر سے معروف وہ ہے جو امام مالک (رح) نے نافع (رح) سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے روایت کیا ہے، اس باب میں اصل جس پر عمل ہے اور اس میں جو حجت ہے جس نے اس کو اختیار کیا ہے وہ عدی بن حاتم کی حدیث ہے اس میں ہے ” جو معراض عرضا لگے اسے نہ کھا وہ وذقیذ (چوٹ سے مرنے والا) ہے “۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والمتردیۃ “ وہ جانور جو اوپر سے نیچے کی طرف گر کر مر جائے، خواہ وہ پہاڑ سے گرے یا کنویں وغیرہ میں مرے یہ الردی سے متفعلۃ “ کے وزن پر ہے جس کا معنی ہلاکت ہے خواہ وہ خود گرا ہو یا کسی دوسرے نے اسے گرایا ہو، جب تیر شکار کو لگے اور وہ پہاڑ سے زمین کی طرف گرے تو وہ حرام ہوگا، کیونکہ وہ ٹکرانے یا گرنے سے مرا ہے نہ کہ تیر سے مرا ہے اسی سے حدیث ہے ” اگر تو اسے پانی میں غرق پائے تو اسے نہ کھا، کیونکہ تجھے معلوم نہیں پانی نے اسے قتل کیا ہے تیرے تیر نے اسے قتل کیا ہے “۔ (1) (صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحہ 146، ایضا صحیح بخاری باب الصید ذاغاب عند یومین اوثلاثۃ، حدیث 5062، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں گر کر مرنے والے جانور کو کھایا جاتا تھا وہ مردہ تصور نہیں کیا جاتا تھا مگر جو تکلیف وغیرہ سے مرتا تھا جس کا سبب معلوم نہ ہوتا تھا، رہے یہ اسباب تو یہ ان لوگوں کے نزدیک ذبح کی طرح تھا شرع شریف نے ذبح کو مخصوص صفت پر محصور کردیا مزید بیان آگے آئے گا اور یہ تمام مردار شمار کیے گئے یہ تمام محکم متفق علیہ سے ہے اسی طرح جو سینگ لگنے سے مرا ہو اور درندے کے کھانے سے مرا ہو۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والنطیحۃ “۔ فعلیۃ بمعنی مفعولہ ہے یہ وہ بکری ہے جسے دوسری بکری نے سینگ مارا ہو یا کسی اور چیز نے مارا ہو پھر وہ ذبح کرنے سے پہلے مر گئی ہو، ایک قوم نے النطیحۃ سے مراد الناطحہ (سینگ مارنے والا) لیا ہے کیونکہ دونوں بکریاں ایک دوسرے کو سینگ مارتی ہیں پھر دونوں مر جاتی ہیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 151 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : نطیحۃ فرمایا : نطیح نہیں فرمایا : فعیل کا حق یہ ہے کہ اس میں ہا ذکر نہیں کی جاتی جیسے کہا جاتا ہے : کف خضیب ولحیۃ دھین (خضاب شدہ ہتھیلی اور تیل لگی ہوئی داڑھی) لیکن یہاں ھا کو ذکر فرمایا، کیونکہ ھا کو اس فعیلۃ سے حذف کیا جاتا جب وہ منطوق موصوف کی صفت ہو، کہا جاتا ہے : شاہ نطیح وامراۃ قتیل اگر موصوف ذکر نہ ہو تو ھا قائم ہوتی ہے، تو کہتا ہے : رایت قتیلۃ بنی فلان وھذہ نطیحۃ الغنم۔ کیونکہ اگر تو ھا کو ذکر نہیں کرے گا تو تو کہے گا : رایت قتیل بنی فلاں، معلوم نہیں ہوگا کہ وہ مرد ہے یا عورت ہے ابو میسرہ نے المنطوحۃ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما اکل السبع “ اس سے مراد وہ جانور ہے جسے کچلیوں والے اور ناخنوں والے درندے نے چیرا پھاڑا ہو جیسے شیر، چیتا، لومڑ، بجو وغیرہ، یہ تمام درندے ہیں کہا جاتا ہے : سبع فلان فلانا یعنی فلاں نے فلاں کو اپنے دانتوں کے ساتھ کاٹا۔ سبعہ یعنی اس نے اسے عیب لگایا اور وہ عیب میں واقع ہوا، اس کلام میں اضمار ہے یعنی وہ جانور جس سے درندے نے کھایا ہو، کیونکہ جس کو درندے نے کھایا وہ فنا ہوگیا، کچھ عرب صرف السبع کا اطلاق شیر پر کرتے ہیں، عرب جب درندہ بکری پکڑ لیتا پھر وہ اس سے بچ جاتی تو اسے کھاتے تھے اسی طرح اگر وہ اس کا بعض حصہ کھا لیتا تو بقیہ عرب کھالیتے تھے یہ قتادہ ؓ وغیرہ کا قول ہے۔ حسن اور ابو حیوہ نے السبع با کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، یہ اہل نجد کی لغت ہے حضرت حسان ؓ نے عتبۃ بن ابی لہب کے بارے میں کہا : من یرجع العام الی اھلہ فما اکیل السبع بالراجع : حضرت ابن مسعود ؓ نے واکیلۃ اسبع پڑھا ہے، عبداللہ بن عباس ؓ نے واکیل السبع (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 151 دارالکتب العلمیہ) پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ما ذکیتم “ جمہور علماء اور فقہاء کے نزدیک متثتنی متصل کی بنا پر منصوب ہے یہ مذکورہ تمام جانوروں کی طرف راجع ہے جس کو ذبح کردیا گیا ہو جب کہ اس میں ابھی زندگی ہو، کیونکہ اس میں ذبح عامل ہوگی کیونکہ استثنا کا حق یہ ہے کہ وہ متقدم کلام کی طرف پھیری گئی ہو اور مستثنی کو منقطع نہیں بنایا جاتا مگر ایسی دلیل کے ساتھ جو واجب التسلیم ہو، ابن عیینہ شریک اور جریر نے رکین بن ربیع سے انہوں نے ابو طلحہ اسدی سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے بھیڑیے کے متعلق پوچھا جس نے بکری پر حملہ کیا پھر اس کے پیٹ کو چیر دیا حتی کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں پھر اس کی ذبح کو میں نے پالیا اور میں نے اسے ذبح کردیا، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اسے کھاؤ اور اس کے پیٹ میں سے جو باہر آگیا ہے وہ نہ کھا۔ اسحاق بن راہویہ نے کہا : بکری میں سنت وہی ہے جو حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کی ہے اگر بکری کے پیٹ کا مواد باہر آجائے اور وہ ابھی تک زندہ ہے اور ذبح کی جگہ سلامت ہے تو ذبح کے وقت دیکھا جائے گا کہ کیا وہ زندہ ہے یا مردہ ہے ؟ فعل کی طرف نہیں دیکھا جائے گا کہ کیا اس کی مثل زندہ ہوتی ہے ؟ اسی طرح مریضہ کا حکم ہے اسحاق نے کہا : جس نے اس کی مخالفت کی اس نے جمہور صحابہ اور عامۃ العلماء کی سنت کی مخالفت کی۔ میں کہتا ہوں : ابن حبیب کا بھی یہی نظریہ ہے اور اصحاب مالک سے یہ ذکر کیا جاتا ہے اور یہی ابن وہب کا قول ہے اور امام شافعی (رح) کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، مزنی نے کہا : میں امام شافعی (رح) کے لیے ایک اور قول بھی یاد کرتا ہوں : اسے نہیں کھایا جائے گا جب درندہ یا اس کا گرنا اسے اس حد تک پہنچا دے کہ ایسے جانور کی حیات نہیں ہوتی، یہ مدنی علماء کا قول ہے اور امام مالک کا مشہور قول وہ ہے جو عبدالوہاب نے اپنی تلقین میں ذکر کیا ہے حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے اسے امام مالک نے مؤطا میں ذکر کیا ہے، اسماعیل قاضی اور بغدادی مالکیوں کی جماعت کا یہی نظریہ ہے۔ اس قول کی بنا پر استثنا منقطع ہے یعنی تم پر یہ اشیاء حرام کی گئی ہیں لیکن جس کو تم ذبح کرو وہ حرام نہیں، ابن عربی (رح) نے کہا : ان اشیاء کے بارے امام مالک (رح) کا قول مختلف ہے ان سے مروی ہے ایسے جانور کو نہیں کھایا جائے گا مگر جو صحیح طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو اور جو مؤطا میں ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس نے اسے ذبح کیا جب کہ اس کا سانس جاری رہا جب کہ وہ حرکت کر رہی تھی تو اسے کھایا جائے گا، یہ امام مالک (رح) کا صحیح قول ہے، وہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور ان کی زندگی میں ہر شہر میں لوگوں پر پڑھا جاتا رہا، یہ نادر روایات سے اولی ہے، مریض جانور پر مطلق ذبح کے جواز کا مذہب ہے اگر وہ موت کے قریب ہو جب کہ اس میں زندگی باقی ہو۔ بائے شعور مریض جانور کی زندگی کی بقا میں اور درندے کے کھائے ہوئے کی زندگی کی باق میں کون سا فرق ہے کاش نظر مناسب ہوتی اور شبہ سے فکر سلامت ہوتی، ابو عمر ؓ نے کہا : اس مریض جانور میں علماء کا اجماع ہے جس کی زندگی کی امید نہ ہو کہ اس کو ذبح کرنا اس کی ذکاۃ ہے جب کہ اس میں زندگی ہو جب اسے ذبح کر رہا ہو اور اس سے اس کے ہاتھوں کا یا پاؤں کا یا دم وغیرہ کا حرکت کرنا اس کی زندگی کی علامت ذکر کی ہے علماء کا اجماع ہے کہ جب وہ جانور حالت نزع میں ہو اور نہ اس کا ہاتھ حرکت کرے اور نہ پاؤں حرکت کرے تو اس میں ذکاۃ نہیں ہے اسی طرح قیاس کا تقاضا میں متردیہ کا حکم ہے اور جو اس آیت میں اس کے ساتھ دوسرے جانور ذکر کیے گئے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ذکیتم “ کلام عرب میں ذکاۃ کا معنی ذبح ہے، یہ قطرب کا قول ہے، ابن سیدہ نے ” المحکم “ میں کہا : عرب کہتے ہیں ” جنین (مادہ کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے) کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے “ (1) ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا : یہ حدیث ہے حیوان کی ذکاۃ اس کا ذبح کرنا ہے، اسی سے شاعر کا قول ہے : یذکیھا الاسل : نیزے اور تیر اسے ذبح کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : وہ حدیث جس کی طرف ابن عطیہ (رح) نے اشارہ کیا ہے اسے دارقطنی نے حضرت ابو سعید، حضرت ابوہریرہ، حضرت علی، اور حضرت عبداللہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حدیث سے روایت کیا ہے جو انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے فرمایا : زکاۃ الجنین ذکاۃ امہ۔ یعنی جنین کی ذبح اس کی ماں کی ذبح (سے) ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت یہی کہتی ہے مگر امام ابوحنیفہ سے مروی ہے فرمایا : جب جنین اپنی ماں کے پیٹ سے مردہ نکلے تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ کیونکہ ایک نفس کی ذبح دو نفسوں کی ذبح نہیں ہوتی، ابن المنذر ؓ نے کہا : نبی مکرم ﷺ کے ارشاد ذکاۃ الجنین زکاۃ امہ میں دلیل ہے کہ جنین ماں کے علاوہ ہے وہ کہتے ہیں : اگر حاملہ لونڈی آزاد کی گئی تو اس کی آزادی اس کی ماں کی آزادی (سے) ہے یہ اس کو لازم ہے کہ اس کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ (سے) ہے کیونکہ جب ایک کی آزادی کے ساتھ دو کی آزادی جائز ہے تو ایک کی ذکاۃ کے ساتھ دو کی ذکاۃ بھی جائز ہے خبر جو نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے اور جو صحابہ سے مروی ہے اور جس پر بڑے بڑے علماء کا مذہب ہے وہ ہر قول سے مستغنی کردیتا ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ جنین جب زندہ نکلے تو اس کی ماں کی ذکاۃ اس کی ذکاۃ نہیں ہے اور اس میں علماء کا اختلاف ہے، کہ جب ماں کو ذبح کیا گیا ہے اور اس کی پیٹ میں بچہ ہو تو امام مالک اور تمام ان کے اصحاب نے کہا اس کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے جب کہ اس کی تخلیق مکمل ہوچکی ہو اور اس کے بال نکل آئے ہوں یہ اس صورت میں ہے جب وہ مردہ نکلے یا اس حالت میں نکلے کہ اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہو مگر مستحب ہے کہ اسے ذبح کیا جائے اگر وہ نکلے تو حرکت کر رہا ہو اگر وہ پہلے خود ہی مر جائے تو اسے کھایا جائے گا ابن القاسم نے کہا میں نے ایک بھیڑ قربانی دی جب میں نے اسے ذبح کیا تو اس کا بچہ اس کے پیٹ میں حرکت کرنے لگا میں نے ساتھیوں سے کہا اسے چھوڑ دو حتی کہ وہ بچہ اس کے پیٹ میں مر جائے پھر میں نے انہیں کہا کہ اس کا پیٹ چاک کرو اس کے پیٹ سے بچہ نکالا گیا میں نے اسے ذبح کیا اور اس سے خون بہہ نکلا میں نے اپنے گھر والوں کو اسے بھوننے کا حکم دیا حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک نے کہا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کہتے تھے جب جنین کے بال نکل آئیں تو اس کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ سے ہے ابن المنذر نے کہا جن علماء نے کہا کہ اس کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے انہوں نے بال نکلنے یا نہ نکلنے کا ذکر نہیں کیا ان علماء نے کہا کہ اس کی ذکاۃ اس کی ذکاہ سے ہے ابن المنذر (رح) نے کہا : جن علماء نے کہا : کہ اس کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے، انہوں نے بال نکلنے یا نہ نکلنے کا ذکر نہیں کیا، ان علماء میں حضرت علی ؓ سعید بن مسیب ؓ ، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق، رحمۃ اللہ علیہم ہیں قاضی ابو الولید الباجی نے کہا : نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ذکاۃ الجنین ذکاۃ امہ الشعرا ولم یشر جنین کی ذبح اس کی مارحمۃ اللہ علیہ کی ذبح (سے) ہے خواہ اس کے بال نکلے ہوں یا نہ نکلے ہوں مگر یہ حدیث ضعیف ہے، امام مالک (رح) کا مذہب جو اقوال میں سے صحیح ہے وہ ہے جس پر فقہاء امصار کا نظریہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (9) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ذکیتم، الذکاۃ کا لغوی معنی التمام ہے اس سے تمام السن، الفرس المذ کی وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کے دانت مکمل ہوچکے ہوتے ہیں اور یہ قوتت کا مکمل ہونا ہے کہا جاتا ہے ذکی یذ کی عرب کہتے ہیں جری المذکیات غلاب، کامل گھوڑوں کا چلنا غالب ہوتا ہے، ذکاء ول کی حدت کو کہتے ہیں شاعر نے کہا : یفضلہ اذا اجتھدوا علی تمام السن منہ والذکاء : ذکاء سرعت فطنت کو کہتے ہیں اس سے فعل ذکی یذ کی ذکاوالذکوۃ جس کے ساتھ آگ جلائی جاتی ہے، اذکیت الحرب والنار میں نے جنگ اور آگ کو بھڑکایا، ذکاء سورج کا نام بھی ہے کیونکہ یہ بھی آگ کی طرح جلاتا ہے۔ الصبح ابن ذکاء صبح سورج کا بیٹا ہے، کیونکہ یہ سورج کی روشنی سے ہوتی ہے۔ (آیت) ” ذکیتم “ کا معنی ہے میں نے اس کی ذبح کو مکمل پایا، ذکیت، الذبیۃ اذکیھا، یہ پاک کرنے کے معنی سے مشتق ہے، کہا جاتا ہے رائحۃ ذکیۃ حیوان جب اس کا خون بہایا جاتا ہے تو وہ پاک ہوجاتا ہے تخفیف اس میں جلدی جاری ہوتی ہے۔ محمد بن علی ﷺ کی حدیث میں ہے۔ ذکاۃ الارض یبھا “۔ (1) اخرجہ ابن ابی شیبہ، جلد 1، صفحہ 57) زمین کی طہارت اس کا خشک ہونا ہے اس سے مراد نجاست سے طہارت ہے پس ذبیحہ میں ذکاۃ اس کا پاک کرنا ہے اور اس لیے کھانے کے لیے مباح کرنا ہے زمین کے خشک ہونے کو نجاست کے بعد اس کے لیے طہارت بنایا ہے اور اس میں نماز مباح کرنا، ذبیحہ کی ذکاۃ کے قائم مقام ہے، یہ اہل عراق کا قول ہے، جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لو کہ ذکاۃ شرع میں خون کا بہانا ہے اور مذبوح کی رگوں کو کاٹنا ہے، منحور میں نحر ہے اور جس پر قدرت نہ ہو اس میں زخمی کرنا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے قصد کی نیت متصل ہو اور اس پر اللہ کا ذکر مقرون ہو، مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (10) جس چیز کے ساتھ ذبح کیا جائے گا اس میں علماء کا اختلاف ہے جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رگوں کا کاٹ دے اور خون بہادے وہ ذکاۃ کے آلات میں سے ہے سوائے دانت اور ہڈی کے، اس پر آثار متواتر ہیں یہی فقہاء امصار کا نظریہ ہے، دانت اور ناخن سے ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد ایسا دانت اور ناخن ہے جو جسم سے علیحدہ نہ کیا گیا ہو، کیونکہ ان سے ذبح کرنا خنق (گلا دبا کر مارنا) میں شمار ہوگا اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ خنق ہے مگر جو دانت اور ناخن جسم سے علیحدہ کیے گئے ہوں جب وہ رگوں کو کاٹ دیں تو اس کے ساتھ ذبح جائز ہے، ایک قوم نے دانت، ناخن اور ہڈی سے ہر حال میں ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے خواہ وہ جسم سے علیحدہ کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہو ان میں سے ابراہیم، حسن، اور لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم ہیں، امام شافعی (رح) سے مروی ہے اور ان کی حجت ظاہر حضرت رافع بن خدیج کی حدیث ہے فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم کل دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوں گی (1) (صحیح، کتاب الاضاحی، جلد 2، صفحہ 156، ایضا صحیح بخاری، باب تسمہ الغنم، حدیث 2308، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ایک روایت میں ہی ہم سرکنڈے کے چھلکے کے ساتھ ذبح کرسکتے ہیں (2) (صحیح، کتاب الاضاحی، جلد 2، صفحہ 157) مؤطا امام مالک (رح) میں نافع عن رجل من الانصار عن معاذ بن سعد او سعد بن معاذ سے مروی ہے کہ حضرت کعب بن مالک (رح) کی لونڈی سلع پہاڑ پر بکریاں چرا رہی تھی ان میں سے ایک بکری مرنے لگی اس لونڈی نے اسے پکڑا اور پتھر کے ساتھ ذبح کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس میں کوئی حرج نہیں اور اسے کھاؤ (3) (مؤطا امام مالک، کتاب الذبائح، صفحہ 489) اور مصنف ابی داؤد میں ہے ،: کہا ہم پتھر کے ساتھ اور لاٹھی کی ایک طرف کے ساتھ ذبح کردیں۔ (4) ؟ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا والصید، جلد 2، صفحہ 34، ایضا سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا والصید حدیث 2438، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) فرمایا : جلدی کرو جو خون بہا دے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرو اور کھاؤ، لیکن دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں دانت، ہڈی ہے اور ناخن، حبشیوں کی چھری ہے “ (5) (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، جلد 2، صفحہ 156) اس حدیث کو مسلم نے تخریج کیا ہے سعید بن مسیب سے مروی ہے فرمایا : جو سرکنڈے کے چھلکے، لکڑی کے چھلکے اور پتھر کے ٹکڑے سے ذبح کیا گیا ہو وہ حلال اور پاک ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) امام مالک اور ایک جماعت نے کہا : ذکاۃ (ذبح) صحیح نہیں ہے، مگر حلقوم اور ودجین کے کاٹنے کے ساتھ، امام شافعی (رح) نے فرمایا : حلقوم اور مری کے کاٹنے کے ساتھ صحیح ہے اور ودجین کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ کھانے اور مشروب کی گزر گاہ ہیں ان کے ساتھ زندگی نہیں ہے اور یہ موت سے مقصود ہے (6) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 522) امام مالک (رح) وغیرہ نے اس حیثیت سے موت کا اعتبار کیا جس کے ساتھ گوشت اچھا ہوا اور اس میں حلال حرام سے جدا ہوتا ہے جو اوداج کے کاٹنے کے ساتھ نکلتا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے، اس پر حضرت رافع بن خدیج کی حدیث دلالت کرتی ہے جس میں ہے ” جو خون بہا دے “ (7) (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی جلد 2، صفحہ 156) بغدادی علماء نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے وہ چار رگوں کو کاٹنا شرط قرار دیتے ہیں، حلقوم ودجین اور مری، یہ ابو ثور کا قول ہے مشہور جو گزرا ہے وہ لیث کا قول ہے پھر ہمارے اصحاب کا اختلاف ہے جب ودجین میں سے ایک رگ کاٹی اور حلقوم کاٹا جائے، کیا وہ ذبح شمار ہوگی یا نہیں ؟ مسئلہ نمبر : (12) علماء کا اجماع ہے کہ ذبح جب حلق میں عقدہ کے نیچے ہو تو ذبح مکمل ہے اس میں اختلاف ہے جو عقدہ سے اوپر ذبح ہو اور بدن تک پہنچ جائے کیا وہ ذبح ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں، : امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ عقدہ سے اوپر ذبح کیا جانے والا جانور نہیں کھایا جائے گا اسی طرح اگر گدی سے ذبح کیا اور پورا کاٹا اور خون بہہ پڑا اسے نہیں کھایا جائے گا اسی طرح اگر گدی سے ذبح کیا اور پورا کاٹا اور خون بہہ پڑا حلقوم اور ودجین بھی کاٹ ڈالیں تو نہیں کھایا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : کھایا جائے گا کیونکہ مقصود حاصل ہوگیا ہے، یہ اصل پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ذبح سے اگرچہ مقصود خون بہانا ہے، اس میں ایک قسم کا تعبد (مکلف بنانا) ہے نبی مکرم ﷺ نے حلق میں ذبح کیا اور لبتہ میں نحر کیا، اور فرمایا : ذبح حلق اور لبتہ میں ہے۔ آپ ﷺ نے ذبح کا محل بیان کیا اور اس کی جگہ کو متعین فرمایا اور اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ” جو خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ“ (1) (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، جلد 2، صفحہ 156) جب یہ اہتمام نہ کیا گیا ہو اور نہ نیت کے ساتھ واقع ہو نہ شرط کے ساتھ اور نہ مخصوص صفت کے ساتھ واقع ہو تو اس سے تعبد کا خط زائل ہوگا پس اسے نہیں کھایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (13) اس میں اختلاف ہے جو ذکاۃ (ذبح) مکمل کرنے سے پہلے ہاتھ اٹھا لے پھر فورا ذبح کرنا شروع کر دے اور ذبح کو مکمل کرے، بعض علماء نے کہا : یہ جائز ہے، بعض نے فرمایا : جائز نہیں، پہلا قول اصح ہے، کیونکہ اس سے اسے زخمی کیا پھر اسے بعد میں ذبح کیا جب کہ اس میں بھی زندگی باقی تھی۔ مسئلہ نمبر : (14) مستحب ہے کہ ذبح نہ کرے مگر وہ جس کی حالت پسندیدہ ہو اور جو اس کی طاقت رکھتا ہو اور سنت طریقہ پر ذبح کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو، بالغ ہو یا نابالغ ہو اس کا ذبح کرنا جائز ہے جب وہ مسلمان ہو یا کتابی ہو مسلمان کا ذبح کرنا، کتابی کے ذبح کرنے سے افضل ہے، قربانی کو صرف مسلمان ذبح کرے، قربانی کو کتابی ذبح کرے تو اس میں اختلاف ہے۔ تحصیل المذہب میں یہ جائز نہیں اور اشہب نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (15) پالتو جانوروں میں سے جو وحشی ہوجائے اس کی ذکاۃ میں سے جائز نہیں مگر جو پالتو جانور میں جائز ہے، یہ امام مالک (رح) اور اس کے اصحاب، ربیعہ اور لیث بن سعد کے قول کے مطابق ہے، اسی طرح کنویں میں گرنے والے کی ذکاۃ نہ ہوگی مگر ذبح کی سنت پر حلق اور لبہ کے درمیان، ان دونوں مسئلوں میں بعض اہل مدینہ نے مخالفت کی ہے اس باب دلیل حضرت رافع بن خدیج کی حدیث ہے جو گزر چکی ہے، اس کا تمام اس قول کے بعد ہے فمدی الحبشۃ، حضرت رافع ؓ نے کہا : ہم نے اونٹ اور بکریاں چھینیں تو اس مال غنیمت میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا، ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اس نے اسے روک لیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اونٹوں میں کچھ وحشی بن جاتے ہیں جس طرح وحشی جانور ہوتے ہیں جب تم پر ان میں سے کوئی چیز غالب آجائے تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو “۔ (2) (ایضا، جلد 2، صفحہ 157) ایک روایت میں ہے ” اسے کھاؤ“۔ یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول ہے امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس فعل پر نبی مکرم ﷺ کا غالب کرنا دلیل ہے کہ ذکاۃ ہے، انہوں نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو ابوداؤد اور ترمذی نے ابو العشراء سے، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ذبح نہیں ہوگی مگر حلق اور لبۃ میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر تو اس کی ران میں نیزہ مارے تو بھی جائز ہے “ (1) (جامع ترمذی کتاب الصید جلد 1، صفحہ 179، ایضا سنن ابی داؤد، باب ماجاء فی ذبیحۃ المتردیۃ “۔ 2442، ضیا القرآن پبلی کیشنز) یزید بن ہارون نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے اسے پسند کیا اور اسے انہوں نے ابو داؤد سے روایت کیا اور ان پر جو حفاظ داخل ہوتے انہیں اس حدیث کے لکھنے کا اشارہ کیا، ابو داؤد نے کہا : یہ درست نہیں مگر کرنے والے اور وحشی بننے والے جانور میں، ابن حبیب نے اس حدیث کو اس پر محمول کیا ہے جو کسی گہرائی میں گر جائے اور اس کی ذبح تک نہ پہنچا جاسکتا ہو مگر ذکاۃ کی جگہ کے علاوہ جگہ میں نیزہ مارنے کے ساتھ یہ ایک قول ہے جو امام مالک (رح) اور اس کے اصحاب سے مروی ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : اہل علم میں امام شافعی (رح) کا قول اظہر ہے اسے کھایا جائے گا جس ساتھ وحشی کو کھایا جاتا ہے، اس کی وجہ حضرت رافع بن خدیج کی حدیث ہے، یہی حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے، اور قیاس کی جہت سے جب وحشی پر ذبح کی قدرت ہو تو وہ حلال نہیں ہوتا مگر اس طرح ذبح کے ساتھ جس طرح پالتو جانور کو ذبح کیا جاتا ہے، کیونکہ اب اس پر قدرت حاصل کی گئی ہے اسی طرح قیاس میں مناسب تھا کہ جب پالتو جانور وحشی بن جائے یا پکڑائی نہ دینے میں وحشی کی طرح ہوجائے تو وہ بھی حلال نہ ہوگا مگر اسی طریقہ پر طریقہ پر وحشی حلال ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : ہمارے علماء نے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ کا غالب کرنا اور اس کو روکنے پر ہے نہ کہ ذکاۃ پر ہے، یہی حدیث کا مقتضی اور ظاہر ہے کیونکہ فرمایا فحبسہ ‘۔ پس اس نے اسے روک لیا، یہ نہیں فرمایا کہ تیر نے اسے قتل کردیا، اسی طرح اس کا حکم ہے جس پر غالب احوال میں قدرت ہوتی ہے پس اس سے نادر کا خیال نہیں کیا جائے گا اور یہ شکار میں ہوتا ہے حدیث نے صراحت کی کہ تیر نے اسے روک لیا، محبوس ہونے کے بعد اس پر قدرت حاصل ہوگئی پس اسے نہیں کھایا جائے گا مگر ذبح اور نحر کے ساتھ واللہ اعلم۔ رہی ابو العشراء کی حدیث اس کے بارے میں ترمذی نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ہم اسے نہیں جانتے مگر حمادبن سلمہ کی حدیث سے اور ابو العشراء عن ابیہ کی سند کو نہیں جانتے مگر اس حدیث میں، ابو العشراء کے نام میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : اس کا اسم اسامہ بن قبطم ہے، کہا جاتا ہے اس کا اسم یسار بن برز ہے۔ کہا جاتا ہے : بلز نام تھا، کہا جاتا ہے : اس کا نام عطارد تھا اپنے دادا کی طرف منسوب تھا، یہ سند مجہول ہے اس میں حجت نہیں ہے اگر اس کی صحت کو تسلیم کی جائے جیسے یزید بن ہارون نے کہا : تو پھر بھی اس میں حجت نہ ہوتی، کیونکہ اس کا مقتضا تو یہ ہے کہ کسی عضو میں بھی ذبح جائز ہے خواہ اس پر قدرت ہو یا نہ ہو اور مقدور میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں پس اس کا ظاہر قطعا مراد نہیں ہے۔ ابو داؤد اور ابن حبیب کی تاویل متفق علیہ نہیں ہے پس اس میں حجت نہ ہوگی، واللہ اعلم۔ ابو عمر رحمۃ اللہ علیہنے کہا : امام مالک (رح) کی حجت یہ ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ اگر پالتو جانور بھاگ نہ جائے تو اس کی ذبح اسی طریقہ پر ہوگی جو مقدور علیہ جانور کی ہے، پھر اختلاف ہے پس وہ اپنے اصل پر ہوگی حتی کہ وہ اتفاق کرلیں، پس اس میں حجت نہیں ہے کیونکہ اس کا اجماع مقدور علیہ پر منعقد ہے اور یہ غیر مقدور پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (16) اس باب کے تمام سے نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کیا ہے پس جب تم قتل کرو تو بہتر انداز میں قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو بہتر انداز میں ذبح کرو تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی چھری کو تیز کرے اور ذبیحہ کو راحت دے “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحہ 152) اس حدیث کو مسلم نے حضرت شداد بن اوس سے روایت کیا ہے فرمایا : دو چیزیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے یاد کی آپ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ کتب “۔ پھر مکمل حدیث ذکر فرمائی۔ ہمارے علماء نے فرمایا : چوپائیوں میں ذبح کا احسان یہ ہے کہ ان سے نرمی کرنا، اسے سختی سے نہ گرائے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک کھینچ کر نہ لے جائے اور آلہ کو تیز کرنا، اباحت کی نیت کو حاضر کرنا اور قربت کی نیت کرنا اور انہیں قبلہ کی طرف متوجہ کرنا اور اسے جلدی قتل کرنا، ودجین اور حلقوم کو کاٹنا اور اسے آرام دینا اور اسے ٹھنڈا ہونے تک چھوڑے رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف کرنا اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرنا کہ اس نے ہمارے لیے اسے مسخر کیا اور اگر وہ چاہتا تو اسے ہم پر غالب کردیتا اور ہمارے لیے مباح فرمایا، اگر وہ چاہتا تو اسے ہم پر حرام کردیتا، ربیعہ نے کہا : ذبح کے احسان میں سے یہ ہے کہ دوسرے جانور کے سامنے جانور کو ذبح نہ کیا جائے، امام مالک (رح) سے اس کا جواز حکایت کیا گیا ہے، پہلا قول احسن ہے، اور رہا قتل میں احسان تو وہ ہر چیز ذبح، قصاص اور حدود وغیرہ میں عام ہے، ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی مکرم ﷺ نے شریطۃ الشیطان سے منع فرمایا ہے۔ (2) (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا، جلد 2، صفحہ 34) ابن عیسیٰ نے اپنی حدیث میں یہ زائد کیا ہے ” شریطۃ الشیطن یہ ہے کہ جانور کو ذبح کیا جائے اور کاٹا جائے اور اس کی اوداج رگیں نہ کاٹی جائیں پھر اسے چھوڑ دیا جائے حتی کہ وہ مر جائے۔ “ مسئلہ نمبر : (17) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما ذبح علی النصب “۔ ابن فارس نے کہا : نصب پتھر تھے جو نصب کے جاتے تھے اور ان کی عبادت کی جاتی تھی اور ان پر ذبح شدہ جانوروں کا خون ڈالا جاتا تھا اور یہی النصب بھی ہے الانصائب وہ پتھر جو کنویں کے اردگرد لگائے جاتے ہیں پھر انکے آخری پتھروں کو رنگ کیا جاتا ہے اور اٹھنے والا غبار، بعض علماء نے فرمایا : النصب جمع ہے اس کا واحد نصاب ہے جیسے حمار کی جمع حمر ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ اسم مفرد ہے اور اس کی جمع انصاب ہے اور یہ تین سو ساٹھ پتھر تھے، طلحہ نے اسے النصب صاد کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے، حضرت ابن عمر سے مروی ہے النصب نون فتحہ اور صاد کے جزم کے ساتھ ہے، جحدری نے کہا : نون اور صاد کے فتحہ کے ساتھ ہے اس نے اسے مفرد اسم بنایا ہے جیسے الجبل اور الجمل اس کی جمع انصاب ہے جیسے اجمال اور اجبال، مجاہد نے کہا : یہ وہ پتھر ہیں جو مکہ کے ارد گرد تھے لوگ ان پر اپنے جانور ذبح کرتے تھے، ابن جریج نے کہا : عرب جانور مکہ میں ذبح کرتے تھے اور ان کا خون بیت اللہ کے سامنے والی دیوار پر مل دیتے تھے اور گوشت کو کاٹتے تھے اور اسے ان پتھروں پر رکھ دیتے تھے، جب اسلام آیا تو مسلمانوں نے نبی مکرم ﷺ سے کہا : ہم زیادہ حق دار ہیں کہ بیت اللہ کی تعظیم کریں ان افعال کے ساتھ گویا نبی مکرم ﷺ نے اس کو ناپسند نہیں فرمایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” لن ینال اللہ لحومھا ولا دمآؤھا “۔ (الحج : 37) اور (آیت) ” وما ذبح علی النصب “۔ کا ارشاد نازل ہوا معنی یہ ہے کہ اس میں نصب کی تعظیم کی نیت تھی (اس لیے حرام ہیں) نہ کہ ان پر ذبح کرنا جائز نہیں۔ اعشی نے کہا :۔ وذا النصب المنصوب لا تنسکنہ لعافیۃ واللہ ربک فاعبدا : بعض علماء نے فرمایا علی بمعنی لام ہے یعنی ان کی خاطر قطرب نے کہا : ابن زید نے کہا : (آیت) ” ماذبح علی النصب “۔ اور (آیت) ” وما اھل لغیر اللہ بہ “۔ ایک چیز ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : (آیت) ” ماذبح علی النصب، ما اھل لغیر اللہ “۔ کا جز ہے لیکن اس کی جنس کے بعد امر کی شہرت اور موضع کے شرف اور نفوس کا اس کی تعظیم کرنے کی وجہ سے خصوصی اس کا ذکر فرمایا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 153 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (18) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان تستقسموا بالازلام “۔ یہ ماقبل پر معطوف ہے (ان) محل رفع میں ہے یعنی جوئے کے تیروں کو تقسیم کرنا تم پر حرام کیا گیا ہے۔ الازلام جوئے کے تیر اس کا واحد زلم اور زلم ہے فرمایا : بات یقاسیما غلام کالزلم۔ دوسرے نے کہا : فلئن جدیمۃ قتلت سروا تھا فنساء ھا یضربن بالازلام : محمد بن جریر نے ذکر کیا ہے کہ ابن وکیع نے انہیں بیان کیا اور انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے شریک سے انہوں نے ابی حصین سے انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ الازلام سفید پتھر تھے جن کو لوگ مارتے تھے محمد بن جریر نے کہا : ہمیں سفیان بن وکیع (رح) نے فرمایا : یہ شطرنج ہے، رہا لبید کا قول : تزل عن الثری ازلامھا : علماء فرماتے ہیں : شاعر نے یہاں ازلام سے مراد وحشی گائیوں کے کھر لیے ہیں، عربوں کے لیے ازلام کی تین اقسام تھیں ان میں سے تین وہ ہیں جو ہر انسان اپنے لیے استعمال کرتا تھا ایک تیر پر لکھا ہوتا افعل (تو کر) اور دوسرے پر لکھا ہوتا لا تفعل (تو نہ کر) اور ایک خالی ہوتا اس پر کچھ نہ لکھا ہوتا، وہ ان تیروں کو اپنی زنبیل میں رکھتا جب وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا تو اس زنبیل میں ہاتھ ڈالتا اگر افعل ولا تیر نکلتا تو وہ کام کرلیتا وہ کام کرلیتا اور اگر لا تفعل والا تیر نکلتا تو کام کو نہ کرتا اور اگر وہ تیر نکلتا جس پر کچھ نہ لکھا ہوتا تو وہ دوبارہ ہاتھ ڈالتا، سراقۃ بن جعشم نے جب نبی مکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ہجرت کے وقت نکلتا جس پر کچھ نہ لکھا ہوتا تو دوبارہ ہاتھ ڈالتا، سراقہ بن جعشم نے جب نبی مکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ہجرت کے وقت پیچھا کیا تو اس نے اس طرح تیر نکالے، اس فعل کا استقسام کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے رزق تقسیم کرتے تھے اور جس چیز کا ارادہ کرتے تھے جیسے کہا جاتا ہے، الاستقساء کا معنی ہے پانی کو طلب کرنا، اس کی مثال جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ نجومی کا قول وہ کہتا ہے : فلاں ستارے کی وجہ سے تو نہ نکل اور فلاں ستارے کی وجہ سے تو نکل اللہ تعالیٰ فرمایا : (آیت) ” وما تدری نفس ماذاتکسب غدا “ (لقمان : 34) آگے اس کا بیان تفصیل سے آئے گا۔ دوسری قسم تیروں کی یہ تھی کہ جوف کعبۃ میں ہبل (بت) کے پاس سات تیر ہوتے تھے جن پر وہ سارے معاملات لکھے ہوتے تھے جو لوگوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں ان تیروں میں سے ہر تیر پر ایک تحریر تھی، ایک تیر میں دیات کا ذکر ہوتا تھا دوسرے پر لکھا ہوتا منکم (تم سے) ایک پر لکھا ہوتا تھا (من غیرکم) تمہارے غیر سے، ایک پر لکھا ہوتا ملصق اور باقی تامام میں پانی وغیرہ کے احکام لکھے ہوئے تھے ان تیروں کا استعمال عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں پر کیا تھا جب اس نے ایک کو ذبح کرنے کی نذر مانی تھی جب وہ دس مکمل ہوجائیں گے یہ مشہور واقعہ ابن اسحاق نے ذکر کیا یہ سات تیر عربوں کے کاہنوں اور حکام میں سے ہر ایک کے پاس ہوتے تھے جیسا کہ کعبہ میں ہبل کے پاس ہوتے تھے۔ تیسری قسم تیروں کی یہ تھی کہ جوئے کے تیر، یہ دس تیر ہوتے تھے اس میں سے ساتھ پر حصے لکھے ہوتے تھے اور تین پر کچھ نہیں لکھا ہوتا تھا یہ وہ بطور لہو ولعب جوئے کے لیے استعمال کرتے تھے اور ان کے عقلاء ان سے مسکینوں اور ناداروں کو سخت دن اور سردیوں میں کھانا کھلانے کا قصد کرتے تھے۔ مجاہد (رح) نے یہاں الازلام سے مراد وہ گوٹیاں لی ہیں جن کے ساتھ رومی اور فارسی لوگ جوا کھیلتے تھے، سفیان اور وکیع نے کہا : یہ شطرنج ہے۔ الاستقسام سے مراد حصہ اور نصیب طلب کرنا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، یہ باطل ذریعے سے مال کھانا ہے اور یہ حرام ہے ہو جوا جو کبوتروں کے ساتھ، تاش کے ساتھ یا شطرنج کے ساتھ یا اس طرح دوسری کھیلوں کے ساتھ کھیلا جائے تو وہ استقسام کے معنی میں ہے اور یہ سب حرام ہیں، یہ کہانت کی ایک قسم ہے اور علم غیب کا دعوی پیش کرنا ہے، ابن خویز منداد نے کہا : اسی وجہ سے ہمارے اصحاب نے ان امور سے منع کیا ہے جو نجوی راستوں پر تیروں سے کرتے تھے جو تیر ان کے پاس ہوتے تھے اور اسی طرح فال کے پتے ہوتے تھے، الکیاطبری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان سے منع کیا ہے جو امور غیب سے متعلق ہوتے ہیں، کیونکہ کوئی نفس نہی جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا۔ الغیبات کی تعریف میں تیروں کا کوئی اثر نہیں، بعض لوگوں نے امام شافعی (رح) پر روکا اس سے استنباط کیا ہے جو وہ آزاد کرنے میں غلاموں کے درمیان قرعہ اندازی کا کہتے ہیں، اس شخص نے یہ نہیں جانا کہ جو امام شافعی (رح) نے کہا : اس کی بنیاد اخبار صحیحہ پر ہے۔ اس کا استقسام بالازلام کی نہی سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ آزاد کرنا حکم شرعی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شرع نے قرعہ کے نکلنے کو آزادی کے حکم کے اثبات پر علامت بنایا ہوتا کہ خصومت ختم ہوجائے یا کوئی مصلحت ہو جو شریعت کے پیش نظر ہو، پس مذکورہ قائل کا قول اس کے مساوی نہیں ہو سکتا ” جب تو ایسا کرے گا یا تو ایسے کہے گا “ تو یہ ہوگا یہ مستقبل کے کسی کام پر دلالت کرتا ہے، پس تیر کا نکلنا کسی چیز پر علامت بنانا جائز نہیں جو مستقبل میں ہونا ہوتی ہے اور قرعہ کے نکلنے کو آزادی پر قطعی طور پر علامت بنانا جائز ہے پس دونوں بابوں کے درمیان جدائی ظاہر ہوگئی۔ مسئلہ نمبر : (19) فال کا طلب کرنا اس باب سے نہیں ہے نبی مکرم ﷺ کو یا راشد، یا نجیح سننا پسند تھا (1) (جامع ترمذی کتاب السیر جلد 1، صفحہ 194، ایضا حدیث 1541، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ حدیث صحیح غریب ہے، آپ ﷺ فال کو پسند کرتے تھے، کیونکہ پوری ہونے اور حاجت پانے کے ساتھ آپ کے نفس کو خوشی ہوتی تھی، اور انشراح حاصل ہوتا تھا، پس اللہ تعالیٰ پر حسن ظن اچھی چیز ہے اللہ تعالیٰ فرمایا : میں اپنے بندے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب التوحید، جلد 2، صفحہ 1117، ایضا حدیث نمبر 6856 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نبی مکرم ﷺ برے شگون کو ناپسند کرتے تھے، کیونکہ یہ شرکیہ اعمال میں سے تھے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے متعلق برے گمان کو کھینچتا ہے، خطابی نے کہا : فال اور برے شگون کے درمیان فرق یہ ہے فال اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کے طریق سے ہے اور برا شگون اس کے علاوہ کسی چیز پر بھروسہ کرنے کے طریق سے ہے۔ اصمعی نے کہا : میں نے ابن عون سے فال کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : کوئی شخص مریض ہو اور باسالم کلمہ سنے یا کوئی شخص گم شدہ چیز کو تلاش کرنے والا ہو اور وہ سنے یا واجد، یہ ترمذی کی حدیث کا معنی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا میں نے نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے، ” بدشگونی کچھ نہیں اور اس سے بہتر فال ہے “ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ﷺ فال کیا ہے ؟ فرمایا :” اچھاکلمہ جو تم میں سے کوئی سنتا ہے۔ “ (2) (صحیح مسلم، کتاب السلام، جلد 2 صفحہ 231) الطیرۃ (بدشگونی) کا مزید مفہوم انشاء اللہ آگے آئے گا۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے مروی ہے فرمایا : علم سیکھنے سے آتا ہے اور حلم برداشت کرنے سے آتا ہے جو خیر کو تلاش کرتا ہے وہ اسے عطا کی جاتی ہے اور جو شر سے بچتا ہے اسے اس سے بچایا جاتا ہے تین شخص ایسے ہیں جو بلندیاں نہیں پاتے جس نے کہانت کی یا تیر نکالے اور بدشگونی کی وجہ سے سفر سے واپس آگیا۔ مسئلہ نمبر : (20) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ذلکم فسق “ یہ تیر نکلانے کی طرف اشارہ ہے، الفسق کا معنی نکلنا ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ مذکورہ تمام چیزوں کی طرف راجع ہے، جو حرام تھیں ان کو حلال سمجھنا ہے، ان میں سے ہر چیز فسق ہے اور حلال سے حرام تک نکلنا ہے، ان محرمات سے عقود کو پورا کرنے سے رکنا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ مسئلہ نمبر : (21) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم “۔ یعنی تمہارا ان کے دین کی طرف لوٹنا کافر ہو کر، اس سے کافر مایوس ہوچکے ہیں، ضحاک نے کہا : یہ آیت نازل ہوئی جب مکہ فتح ہوا، واقعہ اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نو ہجری 22 رمضان کو مکہ فتح کیا، بعض نے فرمایا : آٹھ ہجری کو فتح ہوا۔ آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا دی : خبردار ! جس نے ” لا الہ الا اللہ “ کہا وہ امن میں ہوگا اور جس نے ہتھیار ڈال دیا وہ امن میں ہے، جس نے دروازہ بند کرلیا وہ امن میں ہے، یئس میں دو لغتیں ہیں یئس ییئس یاسا ایس یایس ایاساوایاسۃ یہ نضر بن شمیل نے کہا ہے : (آیت) ” فلا تخشوھم واخشون “۔ یعنی تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو میں تمہاری مدد پر قادر ہوں۔ مسئلہ نمبر : (22) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ نبی مکرم ﷺ جب مکہ میں تھے تو اس وقت صرف نماز فرض تھی جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے حج کرنے تک حلال اور حرام نازل کیا۔ جب آپ ﷺ نے حج فرمایا اور دین مکمل فرمایا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ ائمہ حدیث نے طارق بن شہاب سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک یہودی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے امیر المومنین ! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو اگر ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے، حضرت عمر ؓ نے کہا : وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے کہا : (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “۔ حضرت عمر نے کہا : میں اس دن کو جانتا ہوں جس دن میں نازل ہوئی اور (اس مکان کو جانتا ہوں جس میں وہ نازل ہوئی) یہ رسول اللہ ﷺ پر عرفہ کے دن جمعہ کے دن نازل ہوئی (1) (صحیح بخاری کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 11، ایضا، حدیث 43، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ مسلم کے الفاظ ہی اور نسائی کے ہاں جمعہ کی رات کا ذکر ہے، روایت ہے کہ جب یہ حج اکبر میں نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے پڑھا تو حضرت عمر ؓ رونے لگے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : تم کیوں رو رہے ہو ؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کی : مجھے اس چیز نے رلایا ہے کہ ہمارے دین میں دیادتی ہو رہی تھی اب ہمارا دین مکمل ہوگیا ہے تو کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی مگر وہ کم ہوتی ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ’ تو نے سچ کہا ہے “ مجاہد نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے دن نازل ہوئی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 154 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : پہلا قول اصح ہے یہ جمعہ کے دن نازل ہوئی اور سن دس ہجری حجۃ الوداع کے موقع پر عصر کے بعد عرفہ کا دن تھا جب کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی عضباء پر عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، اونٹنی کا بازو وحی کے بوجھ کی وجہ سے ٹوٹنے کے قریب تھا تو وہ اونٹنی بیٹھ گئی تھی، الیوم سے مراد دن کا بعض حصہ بھی لیا جاتا ہے، اسی طرح الشھر سے مراد بعض مہینہ لیا جاتا ہے تو کہتا ہے : ہم نے مہینہ میں یہ یہ کیا اور سال میں یہ یہ کیا، یہ تو معلوم ہے کہ تو نے پورے مہینہ اور پورے سال میں یہ نہیں کیا یہ عرب عجم کی لغت میں استعمال ہوتا ہے۔ الدین سے مراد وہ شرائع ہیں جو ہمارے لیے مشروع اور مفتوح ہوئیں، کیونکہ یہ شرائع تھوڑی تھوڑی نازل ہوئیں اور آخر میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوا، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی کا قول ہے، جمہور علماء نے کہا : اس سے مراد بڑے بڑے فرائض اور تحلیل وتحریم ہیں، فرمایا : اس کے بعد بھی بہت سا قرآن نازل ہوا اور اس کے بعد آیت ربا نازل ہوئی۔ اور آیت کلالۃ نازل ہوئی، پس دین کا بڑا حصہ اور حج کا امر مکمل ہوا کیونکہ اس سال میں مسلمانوں کے ساتھ کسی مشرک نے طواف نہ کیا اور نہ بیت اللہ کا کسی برہنہ شخص نے طواف کیا تمام لوگ عرفہ میں ٹھہرے بعض علماء نے فرمایا ؛ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ یعنی تمہارے لیے تمہارے دشمنوں کو میں نے ہلاک کردیا اور تمہارے دین کو تمام ادیان پر غلبہ دیا جیسے تو کہتا ہے : ہمارے لیے وہ مکمل ہوا جو ہم ہم چاہتے تھے جب تیرے دشمن کا کام تمام کردیا جائے۔ مسئلہ نمبر : (23) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتممت علیکم نعمتی “۔ شرائع اور احکام کی تکمیل کرکے اور دین اسلام کو غلبہ دے کر تم پر اپنی نعمت کع مکمل کیا جیسا کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا، کیونکہ میں نے کہا تھا : (آیت) ” ولا تم نعمتی علیکم “۔ (بقرہ : 150) یہ مکہ میں امن اور اطمینان سے داخل ہونا ہے اور اس کے علاوہ نعمتیں ہیں جو اس ملت حنیفہ کو جنت کے دخول تک میسر آئی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (24) شاید کوئی کہنے والا کہے : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے یہ دین کامل نہ تھا یہ اس بات کا موجب ہے کہ پہلے جتنے مہاجرین وانصار فوت ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو بدر اور حدیبیہ میں حاضر تھے اور رسول اللہ ﷺ کی دونوں بیعتیں کی تھیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے نفسوں کی قربانی دی تھی اور ساتھ ساتھ بڑی بڑی مشقتیں برداشت کی تھیں وہ لوگ ناقص دین پر فوت ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ ناقص دین کی طرف اس عرصہ میں دعوت دیتے رہے اور یہ مسلم ہے کہ نقص عیب ہے اور اللہ کا دین قیم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دینا قیما۔ ان تمام باتوں کا جواب یہ ہے کہ تو نے یہ کیوں کہا کہ ہر نقص عیب ہے اس پر تمہاری دلیل کیا ہے، پھر کہا جائے گا : کیا مہینہ کا کم ہونا کیا یہ عیب ہے اور مسافر کی نماز کا کم ہونا کیا یہ اس کے لیے عیب ہے اور عمر کا نقصان جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد ہے (آیت) ” وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ “۔ (فاطر : 11) سے ارادہ فرمایا کیا یہ اس کے لیے عیب ہے، عادت سے کم دنوں میں حیض کا ختم ہونا اور حمل کے ایام کا کم ہونا اور چوری کے ساتھ یاجلنے کے ساتھ یا غرق ہونے کے ساتھ مال کا کم ہونا جب کہ اس کا مالک محتاج نہ ہو ؟ پس تو نے انکار نہیں کیا کہ شرع میں دین کے اجزاء کی کمی اس کے باقی اجزاء کے لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ کے علم میں باقی ہیں یہ عیب اور شین نہیں ہے اور تو نے انکار نہیں کیا کہ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ کے ارشاد کا معنی دو اعتبار سے ہے۔ (1) اس سے مراد یہ ہوگا کہ میں نے اس دین کو اس انتہائی حد تک پہنچایا جو میرے نزدیک تھی جس کا میں نے فیصلہ کیا اور جس کا میں نے اندازہ کیا اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے اس میں ایسا نقص تھا جو عیب شمار ہوتا، لیکن یہ نقصان مقید کے ساتھ موصوف ہوتا ہے، کہا جائے گا کہ اس اعتبار سے ناقص تھا جو اللہ تعالیٰ کے پاس تھا جو اس کو لاحق ہونے والا اور اس سے ملنے والا تھا مثلا ایک شخص جس کو اللہ تعالیٰ سو سال تک پہنچانے والا تھا پس کہا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر کو مکمل کیا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی عمر ساٹھ سال تھی تو وہ ناقص تھی جو قصور اور خلل کا نقص تھا، کیونکہ نبی مکرم ﷺ فرماتے تھے : جس کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سلا کی عمر تک پہنچایا تو اس اس کی عمر میں عذر کا محل نہیں رہا۔ (1) (صحیح بخاری کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ الخ، حدیث نمبر 5940، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) لیکن نقصان مقید کے ساتھ موصوف کرنا جائز ہے پس کہا جائے گا : جو اس کی عمر اللہ کے پاس تھی اس اعتبار سے ناقص تھی اللہ تعالیٰ اسے اس عمر تک پہنچانے والا ہے اور اسے لمبی عمر دینے والا ہے اللہ تعالیٰ نے ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعتیں مکمل فرمائیں اگر اس کے لیے اکمال کا لفظ بولا جائے تو کلام صحیح ہوگی۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب دو رکعتیں ہوتی ہیں تو وہ ناقص ہوتی ہیں اور قصور اور خلل کا نقص ہوتا ہے، اگر کہا جائے کہ اللہ کے نزدیک ناقص تھی اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ اور چیز ملا دی اور اس پر کچھ زائد کردیا تو اس طرح صحیح ہوگا، اسی طرح شرائع اسلام کا حکم ہے، شریعت کے احکام جو آہستہ آہستہ تھوڑے تھوڑے آئے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو اس منتہی تک پہنچا دیا جو اس کے پاس تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے : (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ سے مراد یہ ہے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس حج کی توفیق بخشی جس کے علاوہ ان پر اور ارکان دین باقی نہ تھے، پس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حج کیا تو ان کے لیے دین جمع ہوا، اس لیے ارکان کی ادائیگی کے اعتبار سے اور فرائض کے قیام کے اعتبار سے آپ ﷺ فرماتے تھے، ” اسلام کی بنیاد پانچ احکام پر ہے “۔ (2) (صحیح مسلم کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 32، ایضا حدیث صحیح بخاری، حدیث نمبر 7 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کلمہ کی شہادت بھی دی، نماز بھی پڑھی، زکوۃ بھی دی، روزے بھی رکھے، جہاد بھی کیا اور عمرہ بھی کیا، لیکن حج نہیں کیا تھا، جب انہوں نے اس دن نبی مکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل کیا جب کہ وہ عرفہ کی شام موقف میں تھے۔ اس سے مراد یہ لیا کہ ان کے لیے دین کی وضع کو مکمل کیا، اس میں دلالت ہے کہ تمام طاعات، دین ایمان اور اسلام ہیں۔ مسئلہ نمبر : (25) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ورضیت لکم الاسلام دینا “۔ یعنی میں نے تمہیں بتایا کہ میری رضا تمہارے لیے دین میں ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمارے لیے دین کو پسند کیا، پس اس دن کے ساتھ رضا کے خاص ہونے کا فائدہ نہ ہوگا اگر ہم اس کو اپنے ظاہر پر محمول کریں، ” دینا “ تمییز کی بنا پر منصوب ہے اگر تو چاہے تو مفعول ثانی بنا دے، اگر کہا جائے کہ اس کا معنی ہے میں نے تمہارے لیے پسند کیا جب تم نے میرے لیے اس دین کا اقرار کیا جو تمہارے لیے میں نے شروع کیا، یہ بھی احتمال ہے کہ (آیت) ” ورضیت لکم الاسلام دینا “۔ سے مراد یہ ہو کہ میں نے تمہارے اسلام کو پسند کیا بطور دین جس پر تم آج ہو یہ اپنے کمال کے ساتھ ہمیشہ باقی رہے گا، اس سے کوئی چیز منسوخ نہیں کروں گا، واللہ اعلم۔ اسلام میں اس آیت میں وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ان الدین عنداللہ الاسلام میں ہے جبریل نے نبی مکرم ﷺ سے اسلام کے متعلق سوال کیا تھا اس کی جو اس میں تفسیر کی گئی تھی وہ ایمان، اعمال اور دوسرے احکام کا نام ہے۔ (1) (صحیح بخاری، باب سوال الجبرائیل عن النبی ﷺ عن ایمان، حدیث نمبر 48، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (26) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن اضطر فی مخمصۃ “ یعنی جس کو مردار اور دوسری تمام محرمات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں ان کے کھانے کی ضرورت ہو، المخمصۃ کا معنی بھوک ہے اور طعام سے پیٹ کا خالی ہونا ہے۔ الخمص پتلے پیٹ والا، رجل خمیص وخمصان، امراۃ خمیصۃ وخمصانۃ پتلے پیٹ والا مرد اور پتلے پیٹ والی عورت اسی سے ہے : اخمص القدم نیچے سے پاؤں کی خالی جگہ، اکثر یہ بھوک کے لیے استعمال ہوتا ہے، الاعشی نے کہا :۔ تبیتون فی المشتی ملاء بطونکم وارانکم غرثی یبتن خطائصا : یعنی تمہاری لونڈیاں بھوک پر رات گزارتی ہیں جب کہ ان کے پیٹ ملے ہوئے ہوتے ہیں نابغہ نے کہا : والبطن ذوعکن خمیص لین والنحر تنفجہ بئدی مقعد : حدیث شریف میں : خماص البطون خفاف الظھور، خالی پیٹوں والے ہلکی پیٹھوں والے۔ الخماص، الخمیص کی جمع ہے، ملے ہوئے پیٹ والا یعنی وہ لوگوں کے اموال سے آنکھیں بند کرنے والے ہیں، اسی سے حدیث ہے ان الطیر تغدو خماصا وتروح بطانا “۔ (2) (ابن ماجہج باب التوکل والیقین، حدیث نمبر 4153، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پرندے صبح خالی پیٹ جاتے ہیں، اور شام کو بھرے ہوئے پیٹوں سے واپس آتے ہیں۔ الخمیصۃ کپڑے کو بھی کہتے ہیں، اصمعی نے کہا : الخمائص ریشمی کپڑے یا بیل بوٹوں والے اونی کپڑے یہ کالے کپڑے ہیں اور یہ لوگوں کے لباس سے تھے اضطرار کا معنی اور اس کا حکم سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (27) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” غیر متجانف الاثم “۔ یعنی وہ حرام کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو۔ یہ (آیت) ” غیرباغ ولا عاد “۔ (بقرہ : 173) کے معنی میں ہے یہ پہلے گزر چکا ہے، الجنف کا معنی میل ہے الاثم سے مراد حرام ہے، اسی سے حضرت عمر ؓ کا قول ہے : ماتجائفنا فیہ الاثم یعنی ہم جان بوجھ کر گناہ اور حرام کی طرف مائل نہیں ہوتے، ہر مائل ہونے والا متجانف ہے، نخعی یحی بن وثاب اور سلمی نے متجنف بغیر الف کے پڑھا ہے، یہ معنی میں زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ عین کلمہ کا مشدد ہونا معنی مبالغہ اور توغل کا اور حکم کے ثبوت کا تقاضا کرتا ہے، تفاعل کا معنی کسی چیز کی حکایت کرنا اور اس سے قریب ہونا ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا جب تو کہتا ہے : تمایل الغصن ‘ یہ اس معنی کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹہنی کا جھکنا اور میل ہونے کے قریب ہونا اور جب تو یہ کہتا ہے تمیل تومیل کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح تصاون الرجل اور تصون الرجل ہے تعاقل اور تعقل ہے، معنی یہ ہے یہ وہ اپنے مقصد میں معصیت کا قصد کرنے والا نہیں، یہ قتادہ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے۔ (آیت) ” فان اللہ غفور رحیم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے غفور ورحیم ہے، پس اس میں حذف ہے، سیبویہ نے کہا : قد اصبحت ام الخیار تدی علی ذنبا کلہ لم اصنع : اس میں مراد لم اصنعہ ہے پس ضمیر کو حذف کردیا گیا۔ واللہ اعلم۔
Top