Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 60
لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ١ۚ وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
لِلَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر مَثَلُ : حال السَّوْءِ : برا وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْمَثَلُ الْاَعْلٰى : شان بلند وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
ان لوگوں کے لیے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بری تمثیل ہے، اور اللہ کے لیے اچھی صفتیں ہیں اور وہی سب پر غالب بڑا دانا ہے۔
لِلَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْئِ ج وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ط وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (سورۃ النحل : 60) (ان لوگوں کے لیے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بری تمثیل ہے، اور اللہ تعالیٰ کے لیے اچھی صفتیں ہیں اور وہی سب پر غالب بڑا دانا ہے۔ ) مشرکین کا ایک اور جرم مثل کا معنی تمثیل بھی ہوتا ہے اور صفت بھی۔ مشرکینِ مکہ بعض دفعہ پروردگار کے لیے تمثیل ایسی پیش کرتے تھے جو خالق کو نہیں مخلوق کو زیب دیتی ہے۔ اور صفات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف وہ منسوب کرتے تھے جو انسانوں کی بھی گری ہوئی صفات ہیں۔ اس آیت میں پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ان کے کس کس جرم کا ذکر کیا جائے، وہ کسی جرم سے رکتے نہیں ہیں۔ ان کی جسارتوں کا سبب یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر انھیں اس بات پر یقین ہو کہ قیامت آئے گی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی اور ہمیں اپنے اعمال کے بارے میں جواب دہی کرنا پڑے گی تو وہ کوئی بات کہنے اور کوئی کام کرنے سے سو دفعہ پہلے سوچیں۔ لیکن انھوں نے چونکہ ایسا ہر اندیشہ دل سے نکال رکھا ہے اس لیے جو جی میں آتا ہے کہہ گزرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹیوں کا انتساب اور خود اپنے لیے بیٹیوں کو باعث عار سمجھنا یہ دونوں باتیں بجائے خود کس قدر غلط ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کا انتساب کیا جارہا ہے، خود ان کی اپنی صفات کا عالم یہ ہے کہ اس اندیشے سے کہ بچوں کو کہاں سے کھلائیں پلائیں گے، بیدردی سے گڑھے میں پھینک دینا اور قتل کردینا یہ ان کی وہ صفت ہے جس پر سنگدلی بھی شرماتی ہے۔ حیوانات بھی اس سے گھن کھاتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے بچوں کو محبت سے پالتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفات یہ ہیں کہ وہ نہ اولاد کا محتاج ہے اور نہ وہ کسی پر ظلم کرتا ہے۔ کافر اور مشرک بھی اسی کے دسترخوانِ کرم پر پلتے ہیں۔ وہ سب کو زندگی دیتا اور زندگی کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ اس کا کمال علم، کمالِ قدرت، کمالِ حکمت، غناء مطلق اور ربوبیتِ کاملہ جیسی صفات انسان خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے تجربات سے یقین رکھتے ہیں لیکن ان ظالموں نے اس کی طرف اگر کوئی چیز منسوب کی ہے تو وہ بھی ایسی اولاد جسے خود بھی پسند نہیں کرتے۔ وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ مَایَکْرَھُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُھُمُ الْکَذِبَ اَنَّ لَھُمُ الْحُسْنٰی ط (اور وہ اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیزیں قرار دیتے ہیں جن کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے لیے اچھا انجام ہے) ۔
Top