Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
دو شخصوں نے ‘ جو تھے تو انہی ڈرنے والوں ہی میں سے اور خدا کا ان پر فضل تھا ‘ للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جائو۔ جب تم اس میں گھس جائو گے تو تمہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہ ُ عَلَیْھِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ ج فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہٗ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ 5 ج وَ عَلَی اللہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ (المائدہ : 23) (دو شخصوں نے ‘ جو تھے تو انہی ڈرنے والوں ہی میں سے اور اللہ کا ان پر فضل تھا ‘ للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تمہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو ‘) تاریخی روایات میں ہے کہ ان دو نوجوانوں کا نام یوشع اور کالب تھا۔ حضرت یوشع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نبوت سے سرفراز ہوئے۔ یہ دونوں بنی اسرائیل کی قوم سے ہی تعلق رکھتے تھے اور دونوں غلامی کے زخم بھی سہہ چکے تھے۔ اس کے باوجود حیرت ہے کہ اللہ نے ان میں ایک اولوالعزم اور صداقت شعار قوم کے افراد کی خصوصیات زندہ رکھیں۔ ایسی خصوصیات کا وجود غلام قوم کے افراد میں بجائے خود بہت نادر ہے۔ یہ اسی کے نصیب میں ہوتا ہے جس پر اللہ اپنا فضل فرمائے۔ چناچہ ان پر بھی اللہ نے اپنا فضل فرمایا اور انھوں نے قوم کو ڈھارس بندھانے اور اپنے فرض کی انجام دہی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو دو حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی۔ اہل ِایمان صرف اللہ سے ڈرتے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک اور بات پر توجہ دینا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد ان لوگوں میں سے تھے جو ڈرنے والے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کس سے ڈرتے تھے ؟ تاکہ معلوم ہو کہ ان کا تعلق کس گروہ سے تھا۔ ایک بات جو زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ یہ تھے اپنی ہی قوم کے انہی لوگوں میں سے جو کسی بھی سرفروشی کے کام میں شریک ہونے سے ڈرتے تھے۔ ان کے اندر یہ حس مرچکی تھی کہ قومی سربلندی کے لیے افرادِ قوم کو جانگسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور صداقت شعاری کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اللہ نے ان پر اپنا فضل فرمایا اور یہ انہی میں سے ہونے کے باوجود سرفروشی کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں اللہ سے ڈرنے والے لوگوں میں سے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم بنی اسرائیل میں کوئی ایک گروہ تھا ‘ جو اللہ سے ڈرتا تھا اور یہ ان لوگوں میں سے تھے ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں خیر و شر کے حوالے سے ہمیشہ دو گروہ رہے ہیں۔ اہل خیر کا گروہ دنیا کی کسی قوت سے کبھی نہیں ڈرتا۔ بلکہ وہ ہمیشہ اللہ سے ڈرتا ہے اور اس گروہ کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوتا ہے۔ ہر دور میں اس کا وجود ہمیں ملتا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوہ طور پر ان کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو ان کو معجزہ عطا کرتے ہوئے پروردگار نے فرمایا کہ اے موسیٰ ! اپنا عصا پھینکو۔ جیسے ہی عصا پھینکا گیا وہ ایک اژدھا بن گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ ایک نہایت حیرت انگیز اور ڈرا دینے والا واقعہ تھا۔ ویسے بھی آپ عجیب صورتحال سے دوچار کردیئے گئے تھے کہ اچانک انھیں اللہ سے ہم کلامی کا موقع ملا اللہ کا کلام سرتاپاجلال ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے حصار میں تھے کہ اچانک یہ واقعہ پیش آیا۔ خوف آپ پر غالب آیا اور آپ ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہاں پروردگار نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا : یَا مُوْسٰی لاَ تَخَفْ قف اِنِّی لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْن۔ (اے موسیٰ مت ڈر میرے یہاں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے) (النمل 27: 10) اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کا اور ان کی طرف مبعوث ہونے والوں کا ہمیشہ یہ نشان رہا ہے کہ وہ اللہ کے سوا ہر طرح کے خوف سے بےنیاز ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں قرآن کریم نے جادوگروں کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے ‘ اس میں بھی سب سے بڑی بات جس سے ہمارے ایمان کو روشنی ملتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ جب انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کو معجزاتی شکل میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبوت ہے تو پھر انھوں نے فرعون کے سارے جاہ و جلال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اللہ کے حضور سجدے میں گرگئے۔ فرعون نے جب ان کو اپنی قوت اور جبروت سے ڈرانے کے لیے دھمکیاں دیں تو انھوں نے صاف کہا کہ بادشاہ آپ جو چاہیں کر گزریں ہم اس ذات پر ایمان لا چکے ہیں جس کے بعد کسی اور سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ اہل حق کا یہ وہ قافلہ ہے جن کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا نہ کسی کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور نہ کسی سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ ” توکل علی اللہ اور مقدور بھر کوشش “ فضل الٰہی کے نزول کے لیے شرط یہ دونوں نوجوان بھی اسی قافلہ حق کے مسافروں میں سے تھے۔ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ آپ کو دو کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فلسطین پر چڑھ دوڑو اور اس کی فصیل پر یلغار کرتے ہوئے اس کے بڑے گیٹ میں گھس جاؤ۔ وہاں تک پہنچنا تمہارا کام ہے ‘ اس لیے کہ تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ تمہارا کام نہیں بلکہ یہ سراسر اللہ کی ذات کا فیصلہ ہے۔ اگر تمہارے اندر اخلاص ہوا اور تم نے توکل اور بھروسہ کو پوری طرح بروئے کار لاتے ہوئے اپنی کوششوں میں کوئی کمی نہ کی تو یقیناً اللہ تمہیں فتح سے ہمکنار کرے گا اور تم میں سے جن لوگوں کو وہ زیادہ بلند مرتبہ دینا چاہے گا ان کو شہادت سے بہرہ مند فرمائے گا۔ لیکن تمہارا کام یہ ہے کہ ایک دفعہ شہر پر چڑھ دوڑو۔ یہ بالکل اللہ کی وہی سنت ہے جو ہم یوسف (علیہ السلام) کے واقعے میں دیکھتے ہیں کہ زلیخا نے ان کو گناہ کی دعوت دی اور اس سے بچ نکلنے کے تمام امکانات ان کے سامنے مسدود کردیئے۔ اب بظاہر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ لیکن اللہ کی طرف سے ان کے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ہر بند دروازے تک دوڑتے ہوئے پہنچ جاؤ ‘ اس کے بعد اس کے تالوں کو توڑنا اور دروازوں کو کھولنا ‘ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ شرط یہ ہے کہ تمہارے اعتماد علی اللہ اور تمہاری کوشش میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) دروازے پر دوڑتے ہوئے پہنچتے تو دروازہ ان کے لیے کھل جاتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ان کی کوششوں کے نتیجے میں ان کو محفوظ رکھا۔ ہم اپنی اسلامی تاریخ میں بھی قدم قدم پر اس کے شواہد دیکھتے ہیں۔ خود جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس وسائل جنگ کے حوالے سے تہی دامنی کے سوا اور کیا تھا۔ افرادی قوت ایک تہائی سے بھی کم تھی۔ مقابلے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی۔ لیکن ان کی اصل قوت کیا تھی ؟ وہی جس کا ابھی ذکر ہو رہا ہے۔ حفیظ نے اس کی ٹھیک منظر کشی کی ہے : تھے ان کے پاس دو گھوڑے ‘ چھ زرہیں ‘ آٹھ شمشیریں پلٹنے آئے تھے ‘ یہ آج دنیا بھر کی تقدیریں نہتے تھے ‘ مگر تسکین و اطمینان رکھتے تھے کہ ساماں پر نہیں ‘ ایمان پر ایمان رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یا اللہ ! سالہاسال کی محنت کا ثمر آپ کے حضور لے آیا ہوں ‘ اب ان کو بچانا اور ان کی مدد فرمانا آپ کے ذمہ ہے۔ انہی حقائق کی طرف ان نوجوانوں نے اپنی قوم کو ہرچند متوجہ کیا۔ لیکن غلامی کی زخم خوردہ یہ قوم چونکہ ملی خصوصیات سے بالکل محروم ہوچکی تھی ‘ اس لیے انھوں نے نہ صرف اس نصیحت کو قبول کرنے سے یکسر انکار کردیا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا :
Top