Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 148
وَ انْتَظِرُوْا١ۚ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ
وَانْتَظِرُوْا : اور تم انتظار کرو اِنَّا : ہم بھی مُنْتَظِرُوْنَ : منتظر (جمع)
(ان کافروں سے) کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان اور آنکھیں چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے تو خداکے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ نعمتیں پھر بخشے؟ دیکھو ہم کس کس طرح اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ ردگردانی کرتے ہیں
قل اے محمد ﷺ : آپ کہہ دیجئے۔ اریتہم ان اخذ اللہ سمعکم وابصارکم وختم علی قلوبکم من الہ غیر اللہ یاتیکم بہ : (اے مشرکو) بتاؤ تو اگر اللہ تمہاری شنوائی اور بینائی بالکل لے لے (تم کو اندھا بہرا کر دے) اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے ( ایسی غفلت مسلط کر دے کہ تمہاری عقلیں ناکارہ ہوجائیں) تو اللہ کے سوا کون ایسا معبود ہے جو یہ چیزیں تم کو پھر دے دے۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی تم کو یہ چیزیں نہیں دے سکتا۔ استفہام تقریری ہے مطلب یہ کہ تم خود جانتے ہو کہ اگر اللہ تمہاری شنوائی بینائی اور دانائی لے لے تو اور کوئی معبود بھی واپس نہیں دے سکتا۔ انظر کیف نصرف الایت ثم ہم یصدفون۔ (اے محمد) آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔ قاموس میں ہے صرف آیات کا معنی ہے آیات کو کھول کر بیان کرنا بغوی نے یہی لکھا ہے یعنی ہم توحید کے دلائل کس طرح کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔ بیضاوی نے نصرف الاٰیتکی تشریح اس طرح کی ہے ہم بار بار دلائل بیان کرتے ہیں کبھی عقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ کبھی ترغیب اور تخویف سے کام لیتے ہیں۔ کبھی گزشتہ اقوام کے احوال بیان کر کے عبرت اندوز ہونے کی نصیحت اور تنبیہ کرتے ہیں۔ ثُمَّ ہُمْ میں ثم (تراخی کے لئے نہیں ہے بلکہ) اظہار دوری کے لئے ہے یعنی کھلے دلائل کے بیان اور ظہور آیات کے بعد ان کا اعراض کرنا بہت بعید ہے۔
Top