Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اس پر دو آدمیوں نے جو اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے اور اللہ نے انہیں نعمت ایمان عطا فرمائی تھی لوگوں سے کہا کہ ہمت کر کے ان لوگوں پر جا پڑو اور دروازے میں داخل ہو اگر تم داخل ہوگئے تو پھر غلبہ تمہارے ہی لیے ہے اور اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرو
بنی اسرائیل کے ان دو سرداروں کا بیان جو اللہ کا ڈر دل میں رکھتے تھے : 91: قوم بنی اسرائیل کی اکثریت نے جو جواب موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا اس کا ذکر گزر چکا ہے تاہم ان میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھنے والے تھے لیکن جو وعدے جمعیت کے ساتھ خاص ہوں وہ اس وقت تک کب پورے ہوتے ہیں جب تک جمعیت ہی صالح انسانوں کی مرسج نہ آئے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے جن وعدوں کا قوم کے ساتھ ذکر کیا وہ انفرادی نہیں بلکہ قومی وعدے تھے اس لئے جب تک قوم کی اکثر یت کی حالت نہ درست ہوئی وعدوں کا موخر ہونا لازم و ضروری تھا اور یہی کچھ ہوا۔ بہرحال ان دو شخصوں نے بھی اپنا زور بیان خرچ کیا تاکہ قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ متحد و متفق ہو کر لڑنے اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے لئے تیا رہو ان دو شخصوں نے بھی قوم کو سمجھایا کہ تم پہلے ہی کیوں ڈرتے مرتے ہو ذرا قدم اٹھا کر شہر بیت المقدس کے دروازہ تک تو چلو ہمیں یقین ہے کہ تمہارا اتنا ہی عمل تمہاری فتح کا سبب بن جائے گا اور رفیل کے دروازہ سے داخل ہوتے ہی تم یقیناً غالب آجاؤ گے اور دشمن وہاں سے بھاگ کھڑا ہوگا۔ یہ دو شخص کون تھے ؟ اکثر مفسرین کے بیان کے مطابق ایک یوشع بن نون اور دوسرے کالب بن یوقنا تھے۔ یوشع بن نون ہی کو صاحب موسیٰ کے نام سے بیان کیا جاتا ہے اور یہ سردار تھے قبیلہ بنی افرائیم کے اور کالب سردار تھے قبیلہ بنی یہودا کے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے کردار کو نہایت حد تک سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا ان پر انعام تھا کہ ان کے دل تقویٰ الٰہی اور خشیت سے لبریز تھے اور ان جباروں کا ان کے دل پر کوئی خوف وہراس نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا فضل و انعام اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ انہیں حق گوئی وحق پرستی کی توفیق دی اور وہ شوکت کفار سے مرعوب نہ ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی بھی تھے اور قوم بنی اسرائیل کے بہت بڑے سیاسی لیڈر بھی اس لئے جس طرح ہر دانشمند فوجی لیڈر کو ایسے موقع پر کرنا چاہئے وہی کچھ کیا۔ وہ یہ کہ فلسطین پر فوج کشی کرنے کے ارادہ سے پہلے قومی سرداروں کو اعتماد میں لینے کی یہ راہ نکالی کہ اپنی قوم کے ہر قبیلہ سے اس کے لیڈر کو چن لیا ۔ چونکہ قوم بنی اسرائیل 12 خاندانوں میں تقسیم تھی اس لئے ہر خاندان سے ایک لیڈر چنا گیا۔ اس طرح کل 12 معززین و شرفاء کو ملک کے متعلق تحقیق حال کے لئے یا براصلاح تورات ” جاسوسی “ کے لئے فلسطین میں روانہ کیا تاکہ ان کی رپورٹ کے مطابق کام کیا جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان میں سے دس نے آکر یہ مبالغہ آمیز رپورٹ دی کہ غنیم بہت ہی طاقتور ہے۔ اس سے مقابلہ کرنا اپنی جان کھونا ہے تاہم دو آدمیوں نے اس کے برعکس ہمت افزاء باتیں بیان کیں۔ تو رات کے بیان اس موقع پر بھی حسب معمول بڑے طویل ہیں ہم اختصار کے ساتھ اس پر قناعت کرتے ہیں کہ : ” پھر خداوند نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ قوم کے لوگوں کو بھیج تاکہ کنعان کی زمین کی جو میں بنی اسرائیل کو دیتا ہوں جاسوسی کریں ایک ایک مرد اس کے آبائی فرقہ میں سے جو اس میں سردا ہے بھیج دے چناچہ موسیٰ نے خداوند کے ارشاد کے موافق دشت فاران سے ان کو بھیجا وہ سب لوگ بنی اسرائیل کے سردار تھے اور ان کے نام یہ ہیں۔۔۔۔ اور موسیٰ نے انہیں بھیجا کہ کنعان کی جاسوسی کریں۔۔۔ اور اس زمین کو دیکھو کیسی ہے۔ وہ لوگ جو وہاں کے بسنے والے ہیں ؟ زور آور ہیں یا کمزور ؟ تھوڑے ہیں یا بہت ؟ اور زمین جس میں وہ رہتے ہیں کیسی ہے ؟ اچھی ہے کہ بری ؟ اور وہ شہر جن میں وہ بستے ہیں کیسے ہیں ؟ خیموں میں ہیں یا قلعوں میں ؟ اور زمین کیسی ہے جید ہے یا بنجر ؟ اس میں درخت کیسے ہیں ، ہیں بھی یا نہیں ؟ “ (گنتی 13 : 1 تا 20) ” وہ لوگ چڑھے اور زمین کی جاسوسی دشت سین سے حرب تک جو جماعت کے راستہ میں ہے کی۔۔۔۔ وہ چالیس دن کے بعد اس زمین کی جاسوسی کر کے پھرے۔ “ (گنتی 13 : 21 ، 25) انہوں نے آکر جو کچھ کہا اس کا بیان آپ پیچھے حاشیہ 90 میں پڑھ چکے ہیں۔ انہی بارہ سرداروں میں یہ دو شخص جن پر اللہ کا احسان تھا موجود تھے۔ انہوں نے باقی دس سرداروں کے بالکل برعکس بیان دیا۔ لیکن اس کا طریقہ بیان ایسا اختیار کیا کہ باقی سرداروں کا دل بھی نہ دکھے اور بات بھی بالکل سچی کہہ دی جائے ۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ” ہمت کر کے ان لوگوں پر جا پڑو اور دروازے میں جا داخل ہو اگر تم داخل ہوگئے تو پھر غلبہ تمہارے ہی لئے ہے اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ “ اتنے سلجھے ہوئے انداز کا قوم نے کیا جواب دیا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کے لئے دوبارہ تورات ہی کی ورق گردانی کرو اور اس سے پوچھو کہ ان کو کیا جواب ملا۔ ” اور نون کے بیٹے یوشع اور یوقنہ کے بیٹے کالب نے جو اس زمین کی جاسوسی کرنے والوں میں سے تھے اپنے کپڑے پھاڑے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو کہا کہ وہ زمین جس پر ہمارا گزر ہوا اس کی جاسوسی کے لئے ہوا نہایت خوب زمین ہے ، گو خدا ہم سے راضی ہے تو ہم کو اس زمین پر لے جائے گا اور یہ زمین جس پر دودھ اور شہد بہہ رہا ہے ہم کو عنایت کرے گا مگر خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ تم اس زمین کے لوگوں سے ڈرو ، وہ تو ہماری خوراک ہیں۔ ان کا سایہ ان سے جا چکا ہے پر خدا وند ہمارے ساتھ ہے ان کا خوف نہ کرو تب ساری جماعت نے چاہا کہ ان پر پتھر اؤ کرے۔ “ (گنتی 14 : 6 ، 9) اس طرح گویا چند معدودے آدمیوں کے سوا پتھراؤ کرنے والی ساری قوم تھی جو ان دونوں کی فہمائشوں سے غیر متاثر رہی تھی تورات میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : ” تب ساری جماعت چلا چلا کہ روئی اور لوگ اس رات بھر رویا کئے پھر سارے بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون پر کڑ کڑائے اور ساری جماعت نے انہیں کہا کہ اے کاش ! ہم مصر میں مر جائیں اور کاش کہ ہم اس بیابان میں فنا ہوتے ! خداوند کس لئے ہم کو اس زمین میں لایا کہ تلوار سے گر جائیں اور ہماری جو رواں اور بچے پکڑے جائیں۔ “ (گنتی 14 : 1 تا 3) بلاشبہ یوشع اور کالب تھے تو اس قوم سے جس پر خوف اور بزدلی کی موت طاری تھی لیکن چونکہ اللہ کا ان پر خاص فضل و انعام تھا کہ وہ اس وبائے عام میں مرنے پر راضی نہ ہوئے بلکہ ایمان و عزم پختہ پر سوار رہنے کی انہوں نے توفیق پائی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جب پوری قوم کی قوم اس طرح ہمت ہار بیٹھے جس طرح بنی اسرائیل ہار بیٹھے تو بہادر سے بہادر آدمی کے اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں بڑا ہی باوفا اور صداقت شعار ہوتا ہے وہ مرد حق جو ایسے نازک موقع پر بھی اپنی وفاداری اور صداقت شعاری نباہ لے یوشع اور کالب کے کردار کا یہی پہلو ہے جس کے سبب سے عہد و میثاق کی اس سورة میں قرآن کریم نے ان کا ذکر کر کے ان کو زندہ وجاوید بنادیا تاکہ جو لوگ خدا کی راہ پر چلنے کا ارادہ کریں وہ ان کے اس مثالی کردار سے یہ سبق لیں کہ جب سب سو جائیں تو جاگنے والے کس طرح جاگتے ہیں اور جب سب مر جائیں تو زندہ رہنے والے کس طرح زندہ رہتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس جگہ بزدلوں کے اندر کے بہادروں اور مردوں کے اندر کے زندوں کو اس لئے نمایاں کیا ہے کہ بہادروں کے اندر بہادر اور زندوں کے اندر زندہ تو بہت نظر آجائیں گے لیکن وہ زندگی بخش ہستیاں بہت ہی کم یاب ہیں جو مردوں کو زندگی بخشتی ہیں اگرچہ اس راہ میں ان کو اپنی عزیز جانوں کی قربانی پیش کرنی پڑے ہاں ! یہ اصول اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسے انسانوں کی موت بالکل نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ زندہ ہی رہتے ہیں جیسے قرآن کریم کے بتائے ہوے یہ دو مردجن کو تورات میں یوشع بن نون اور کالب بن قنہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
Top