Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اس پر کہا دو شخصوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ ان پر چڑھائی کر کے ان کے دروازے تک تو پہنچو، پس جونہی تم اس طرح ان کے دروازے پر پہنچو گے، تو یقینا غلبہ تمہارا ہی ہوگا، اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم واقعی ایماندار ہو،2
64 اطاعت خدا و رسول ذریعہ فوز و فلاح : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری وسیلہ فوز و فلاح اور کامیابی و سرفرازی ہے۔ـ سو جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق وہاں سے واپسی پر عمالقہ کے زور و قوت کا اظہار اپنی قوم سے نہیں کیا تھا اس کے نتیجہ میں وہ اپنی جماعت کے ان دوسرے لوگوں کی طرح کم ہمتی کا شکار بھی نہیں ہوئے۔ اور اس امتحان میں کامیاب بھی رہے۔ پس معلوم ہوا کہ مومن کی کامیابی دراصل خدا وند تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو دل و جان سے ماننے اور اپنانے میں ہے اور بس۔ حیات دنیا کی اس عارضی فرصت میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی جہاں کی زندگی حقیقی بھی ہے اور ابدی بھی ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم علم و حکمت اور غایت درجہ رحمت و عنایت پر مبنی و مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس میں سراسر اس کے بندوں کی ہی مصلحت اور بہتری اصل مقصود ہوتی ہے۔ اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے حکم و ارشاد کے سوا اور کسی کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اللہ کا رسول اللہ کا حکم و ارشاد ہی پہنچاتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی غرض اور نفسانی خواہش سے کچھ کہتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے۔ پس بندوں کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم و ارشاد کی بےچوں و چرا اور پورے شوق و ذوق سے اطاعت کریں۔ یہی ان کی شان عبدیت و بندگی کا تقاضا ہے اور اسی میں ان کا بھلا ہے دنیاوی زندگی کی اس عارضی اور محدود فرصت میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وعلی ما یحب ویرید - 65 اللہ کی مدد کی توقع رکھنا باعث سرفرازی :ـسو اس سے معلوم ہوا کہ اپنے بس کی حد تک سچی نیت اور توکل علی اللہ کے ساتھ کام کرنے سے آگے راستے کھلتے جاتے ہیں۔ اس کا یقین ہونا چا ہیئے۔ اور یہی مومن کی شان ہے۔ پس اس سے اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کا بزرگوں کے لئے علم غیب ثابت کرنا باطل و مردود ہے کہ یہاں بات علم غیب کی نہیں بلکہ اللہ پاک سے اس کی مدد کی امید و یقین کی ہے جس کی مومن صادق اپنے رب سے توقع رکھتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں دعا کرتے وقت دعا کی قبولیت کا یقین رکھنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ۔ " اُدْعُوا اللّٰہَ وَاَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بالاجَابَۃِ " ۔ بہرکیف صدق نیت اور توکل علی اللہ مومن کی قوت کے دو عظیم الشان ماخذ ہیں۔ جتنی اور جس قدر یہ دونوں چیزیں اس کے اندر پکی اور پختہ ہونگی اسی قدر اس کو اپنے خالق ومالک کی طرف سے نصرت و امداد سے نوازا جائے گا ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ۔ بہرکیف ان دو آدمیوں نے اپنی ایمانی قوت اور اللہ پر توکل اور بھروسے کے اعتماد پر ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اللہ کے رسول کے حکم کے مطابق اس سرزمین میں داخل ہوجاؤ۔ جب تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے تم کو لڑائی بھڑائی کے بغیر ہی کامیابی نصیب ہو جائیگی کہ اس سرزمین کو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ اس لئے وہ بہرحال تم کو ملے گی۔ سو اللہ کی مدد کی ہمیشہ توقع رکھنی چاہیے۔ 66 ایمان کا تقاضا کہ بھروسہ صرف اللہ پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر واقعی تم ایماندار ہو۔ سو اس سے ـ معلوم ہوا کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے کلمہ گو مشرک کا بھروسہ کسی زندہ مردہ انسان، کسی کالی نیلی جھنڈی، کسی ایری غیری سرکار یا کسی امام ضامن جیسی مخترعات پر تو ہوگا مگر اللہ وحدہ لاشریک پر نہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ اور پھر دعویٰ ہے کہ ۔ ہم چو ما دیگرے نیست ۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ۔ بہرکیف یہاں پر حصر و قصر کے ساتھ فرمایا گیا اور شرط و قید کے ساتھ بتایا کہ تم اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو۔ اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل کا کہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک بھی اللہ تعالیٰ ہے اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی وحدہ لاشریک کا چلتا ہے۔ اور ہوتا وہی ہے جو اس وحدہٗ لاشریک کو منظور ہوتا ہے کہ اس کی حکومت اور بادشاہی میں مشیت ومرضی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی کارفرما ہے۔ پس عقل سلیم اور نقل صحیح سب کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا کے اس دارالاسباب میں اسباب و وسائل تو بیشک پوری طرح اپنائے اور اختیار کئے جائیں لیکن دل کا بھروسہ اور اعتماد ہمیشہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر رکھا جائے۔
Top