Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ لوگ جو
كَذَّبُوْا
: انہوں نے جھٹلایا
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیات کو
سَنَسْتَدْرِجُهُمْ
: آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے
مِّنْ حَيْثُ
: اس طرح
لَا يَعْلَمُوْنَ
: وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گئے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی
اسلوبِ قرآن کے فہم کے لیے ضروری ہدایات اگلی آیات کریمہ کی تشریح سے پہلے ضروری ہے کہ چند ایسی باتیں ذکر کردی جائیں جن سے قرآن کریم کے اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے متنوع مضامین اور موضوعات کے اعتبار سے اپنے محضوص انداز میں گفتگو کرتا ہے وہ کسی بھی موضوع پر جب اظہارِ خیال کرتا ہے تو کبھی تو ایک رواں دواں ندی کی طرح آگے بڑھتا ہے اور کبھی اس کے انداز میں دریا کی روانی سمٹ آتی ہے جو صرف ایک موضوع میں سمٹ کر نہیں رہ جاتی بلکہ انسانی طبیعت اور فطرت کے تنوع کو دیکھتے ہوئے ذیلی مضامین اور متعلقات کو بھی ساتھ ساتھ سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ چناچہ جب تک ایک قاری کے ذہن میں موضوع کے تمام گوشے نہ ہوں وہ قرآن کریم کی بعض باتوں کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر سورت کے آخری چند رکوع میں عموماً چند خصوصیات نمایاں دکھائی دیتی ہیں جن میں ایک تو یہ کہ اس سورت کے نزول کے وقت دعوت کے مخاطبین کی جو ذہنی کیفیت ہوتی ہے اسے مختلف طریقوں سے کبھی خفی اور کبھی جلی طریقے سے زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چونکہ لوگوں کی طبیعتوں میں ایک تفاوت قدرتی طور پر موجود ہے وہی تفاوت قرآن کریم کی آیات میں بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے ان آیات میں چونکہ مختلف طبیعتوں اور صلاحیتوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اس لیے ہر طبیعت اور صلاحیت کا حامل اپنے سے متعلق بات کو خود بخود سمجھتاچلا جاتا ہے لیکن دوسری طبیعت اور صلاحیت کا شخص بعض دفعہ اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتا اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک مخاطبوں کی ذہنی کیفیت ‘ صلاحیتوں اور طبعی رجحانات کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے قرآن پاک کی گفتگو کے ہدف کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم عام معمول کی کوئی درسی کتاب نہیں اور نہ ایسی دعوتی کتاب ہے جس میں اسلام کے تمام ضروری امور کی وضاحت کے بعد قارئین کو اپنے طور پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے بلکہ یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جو خطبات کی شکل میں اللہ کے رسول پر ضرورت کے مطابق نازل ہوتی رہی ہے اور وہ اسی کی مدد سے قوم کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کرتا رہا ہے چناچہ دعوت کو پیش کرتے ہوئے اسے جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور جن سوالات سے واسطہ پڑتا ہے اور جن جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور مخالفین کی جانب سے جیسے جیسے الجھائو پیش کیے جاتے ہیں، قرآن کریم کبھی تو ساتھ ساتھ ان تمام ضرورتوں کا تدارک کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن بہت ساری باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں دعوت کی روا روی میں پیش کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ چونکہ گہرے غور و فکر کی متقاضی ہوتی ہے اور مخالفین غور و فکر تو دور کی بات ہے سننے کے بھی روا دار نہیں ہوتے۔ اس لیے ایسے سوالات اور ایسی ضرورتوں کے حوالے سے ہر سورت کے آخر میں توضیحی آیات نازل کی جاتی ہیں جس میں ایسے تمام سوالات کے جوابات دئیے جاتے اور ذہنی الجھنوں کو دور کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو تسلی بھی دی جاتی اور استقامت کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جنھیں تمام مفصل سورتوں کی آخری آیات کو پڑھتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہیے لیکن پیش نظر آیات کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں وہ حق و باطل کے درمیان شدید کشمکش کا وقت تھا مشرکین مکہ مخالفت میں شدت پیدا کرچکے تھے لیکن اسلام کے اثر و نفوذ سے خوف زدہ بھی تھے اس لیے اگر ایک طرف وہ سختی اور تشدد کے ذریعے مسلمانوں کو ہراساں کر کے اس دعوت کو روک دینا چاہتے تھے تو دوسری طرف عجیب و غریب سوالات اٹھا کر ذہنوں کو مسموم بھی کرنا چاہتے تھے اور اپنے معاشرے کے ہم مذہب لوگوں کو بدگمان کر کے اسلام سے دور رکھنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ اس لیے ان آیات کریمہ میں ایسے ہی تمام سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے اور مسلمانوں اور آنحضرت ﷺ کو کامیابی کی نوید سنا کر تسلی بھی دی گئی ہے۔ اس رکوع کی سب سے پہلی آیات کریمہ میں ایسے ہی سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بَاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ۔ (الاعراف : 183، 182) ” اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گئے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی اور میں انھیں ڈھیل دوں گا بیشک میری تدبیر محکم ہے “۔ اس آیت کریمہ میں سَنَسْتَدْرِجُھُمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مصدر استدراج ہے۔ استدراج کا معنی درجہ بدرجہ ‘ آہستہ آہستہ کوئی کام کرنے کے آتے ہیں۔ قرآن و سنت کی اصطلاح میں استدراج اس کو کہا جاتا ہے کہ آدمی کے گناہ پر دنیا میں جلدی گرفت نہ ہو بلکہ جوں جوں وہ گناہ میں آگے بڑھتا چلا جائے دنیاوی مال و اسباب اور منصب و اقتدار میں اضافہ ہوتا جائے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسا شخص اپنی بد عملی اور بد کرداری میں اور پختہ ہوجائے گا اور وہ یہ سمجھنا شروع کر دے گا کہ اگر یہ میرے اعمال برے ہوتے تو مجھ پر اللہ کی یہ عنایات نہ ہوتیں۔ ایک سوال اور اس کا جواب ان آیات کریمہ میں ایک شبہ یا ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں بعض دفعہ یہ سوال پیدا ہوتا تھا اور آج بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر راست بازی کی زندگی اختیار کرنا اللہ کو پسند ہے اور اس کے تمام وعدے ایسے ہی لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ کے دین پر عمل کرتے ہوئے راست بازی کی زندگی گزارتے ہیں تو پھر ہونا یہ چاہیے کہ دنیا میں اللہ کی نعمتیں بھی ایسے ہی لوگوں کو نصیب ہوں اور جن لوگوں کی زندگیاں اس راستے سے بالکل متصادم ہیں وہ اسلامی تعلیمات کو نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ انھیں قابل عمل سمجھتے ہیں وہ اللہ کی نعمتوں سے نہ صرف محروم رہیں بلکہ دنیا ہی میں انھیں اس طرح اللہ کی گرفت میں آنا چاہیے کہ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ یہ لوگ اللہ کے نافرمان تھے اس لیے اپنے پاداشِ عمل میں پکڑے گئے ہیں لیکن دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے صاف نظر آتا ہے کہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ بڑے سے بڑا کافر اور مشرک اور بڑے سے بڑا اللہ کا باغی اس دنیا میں بڑے سے بڑے منصب پر فائز اور دنیا کے وسائل پر قابض ہے مسلمان قومیں روز بروز پستی کی طرف جا رہی ہیں اور کافر قومیں آئے دن ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں آخر یہ تضاد کیوں ہے ؟ اس شبہ اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم جن لوگوں کو بظاہر بہت سرفراز اور نہایت خوشحال دیکھ رہے ہو یہ ان کے اعمال کا صلہ نہیں بلکہ انھیں انجام کی طرف لے جانے کی ایک ایسی تدبیر ہے جس کو نہ وہ سمجھتے ہیں نہ سرسری نگاہوں سے دیکھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ راہ راست سے ہٹے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے اللہ اپنے نبیوں کو بھیجتا اور اپنی کتابیں اتارتا ہے نبی ان کی اصلاح کے لیے اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن جب وہ بگڑے ہوئے لوگ ان پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ انھیں مختلف قسم کے مصائب میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ تکلیفوں سے پریشان ہو کر اللہ کے سامنے جھکیں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں لیکن جب یہ تکلیفیں اور مصیبتیں بھی انھیں راہ راست پر لانے کے لیے کافی نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی توجیہ کر کے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو دوسری آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے مصیبتوں کو ختم کر کے آسانیوں اور سہولتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا ہے اور زندگی کی کامرانیاں اس طرح ان کی طرف بڑھتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دئیے ہیں ‘ کاروبار روز بروز چمکتا چلا جاتا ہے ‘ فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ‘ صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ‘ لوگ جس چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ سونا بن جاتی ہے ان نعمتوں سے سرشار لوگ دولت کی اس ریل پیل کو اپنے لیے کامیابی سمجھتے ہوئے اپنے رویہ میں مزید پختہ ہوجاتے ہیں اور پہلے اگر کوئی نصیحت کی بات سننے کی زحمت کر ہی لیتے تھے تو اب وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ ہماری زندگی کے طور اطوار اور ہمارے فیصلے بالکل صحیح اور حق بجانب ہیں۔ اس طرح ان کا حالات کے تأثر میں ڈوب جانا اور اپنی خواہشات کی گرفت میں آجانا یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے ہلاکت کا وہ پھندا ہے جس کی طرف وہ قوموں کو آہستہ آہستہ لے کرجاتا ہے وہ مادی عیش و عشرت میں ڈوب کر اسے اپنی کامیابی سمجھتی رہتی ہیں حالانکہ وہ اپنی ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہیں جس طرح مچھلی کا شکاری مچھلی کے شکار کے لیے جب کنڈی لگاتا ہے تو کنڈی پانی میں پھینکنے سے پہلے وہ اس کی نوک پر گوشت کا کوئی ٹکڑا بھی لگاتا ہے تاکہ مچھلی اسے اپنی خوراک سمجھے چناچہ مچھلی جب اسے اپنی خوراک سمجھ کر آ کر کھانا شروع کرتی ہے تو وہ اپنی ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے مچھلی یہ سمجھتی ہے کہ آج مجھے بہت مزیدار خوراک ملی ہے لیکن شکاری خوب سمجھتا ہے کہ یہ بیوقوف مچھلی جسے خوراک سمجھ رہی ہے درحقیقت اس کی موت کا پروانہ ہے وہ جیسے جیسے منہ مارتی ہے ویسے ویسے وہ کانٹا اس کے حلق میں اترتا چلا جاتا ہے جب شکاری سمجھتا ہے کہ مچھلی نے خواہشِ نفس سے مغلوب ہو کر کانٹا حلق میں اتار لیا ہے تو وہ بڑی آسانی سے اسے کھینچ لیتا ہے مچھلی اگر ڈور سے زور آزمائی کرتی بھی ہے تو وہ شکاری اسے کھینچنے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری ڈور اتنی مضبوط ہے کہ مچھلی ہزار کوشش سے بھی اسے توڑ نہیں سکتی۔ یہی حال ایسے افراد اور قوموں کا بھی ہے جو مادی ترقی اور وسائل کی ہمہ ہمی کو زندگی کی کامیابیاں سمجھ کر اسی کے حصول میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں قدرت جیسے جیسے ان کو آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے وہ ویسے ویسے بد کردار اور بد اطوار ہوتے چلے جاتے ہیں قدرت ان کو ڈھیل دیتی چلی جاتی ہے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے پیمانے کو بھر لیں اور جب اللہ کی جانب سے پکڑ آئے تو پھر ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے لیکن اپنی پکڑ اور گرفت میں اللہ تعالیٰ کبھی جلدی نہیں کرتا کیونکہ جلدی وہ کیا کرتا ہے جسے شکار کے نکل جانے کا اندیشہ ہو یا وہ حکمران مجرموں کو پکڑنے میں بےصبری کا مظاہرہ کرتا ہے جسے یہ خطرہ ہو کہ مجرم اگر طاقت پکڑ گئے تو میری گرفت سے نکل جائیں گے اور پھر اگر میں کوشش بھی کروں گا تو ان پر قابونہ پا سکوں گا اس لیے ان آیتوں میں فرمایا کہ تم جن قوموں کو بظاہر بہت خوشحال اور سرفراز دیکھ رہے ہو وہ تو استدراج کا شکار ہیں ہم انھیں آہستہ آہستہ ان کے انجام کی طرف لے جا رہے ہیں جب وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے تو پھر اچانک ہم ان کو دبوچ لیں گے مزید فرمایا کہ میں ان کو مسلسل ڈھیل دیتا رہتا ہوں تاکہ وہ اپنے خبث نفس کو پوری طرح کھلنے دیں اور اپنے بغاوت کے سوتوں کو پوری طرح ابلنے دیں اور اپنی فائل کو اچھی طرح مکمل ہونے دیں تاکہ کل کو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے لیکن میری تدبیر ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور وہ اس قدر محکم ہے کہ یہ اس سے بچ کر نکل نہیں سکتے تم یہ سمجھ رہے ہو کہ پروردگار کا ان کو گرفت نہ کرنا شائد ان کے برسر حق ہونے کی دلیل ہے یا اللہ کے کمزور ہونے کی۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں وہ خود اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور میں پکڑنے میں اس لیے جلدی نہیں کرتا کیونکہ میری تدبیر نہایت محکم اور مضبوط ہے جب میں پکڑنا چاہوں گا تو اس وقت انھیں میری پکڑ سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔ اس استدراج کے حوالے سے ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ جس طرح استدراج کفار کے ساتھ ہوتا ہے جس کی تفصیل ابھی آپ نے پڑھی اسی طرح استدراج مسلمان گناہ گاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں جس مرض نے کافروں کو ان کے انجام تک پہنچایا وہ یہ ہے کہ جب ایک مسلمان، مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اسلامی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام سے سرکشی اور بغاوت میں بسر ہوتی ہے وہ فرائض کا تارک ‘ واجبات سے لاپرواہ ‘ حقوق العباد سے یکسر بےنیاز ‘ حلال و حرام کی پابندیوں سے لاتعلق، اس کے ذہن پر صرف دنیا اور دولت دنیا کا بھوت سوار ہوتا ہے اور اسی میں شب و روز لگے رہنا اس کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے ایسے لوگوں کے لیے استدراج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں پکڑنے کی بجائے ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں وہ رشوت لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے رشوت کے اسباب اور پیدا فرما دیتے ہیں وہ ظلم کرتے ہیں تو اللہ ان کی رسی کھلی چھوڑ دیتا ہے ان کے عہدہ و منصب میں اور ترقی دے دیتا ہے وہ اپنی اس حالت میں ایسے سر شار اور گم ہوجاتے ہیں کہ کوئی نصیحت کی بات ان پر اثر نہیں کرتی ان کی اس حالت کا برقرار رہنا بلکہ روز افزوں ترقی ہونا یہ وہ استدراج ہے جس کے پھندے میں پھنس کر شائد ہی کوئی بدقسمت نکل سکا ہو۔ چناچہ اسی کو محسوس کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین جب یہ دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ انھیں دنیا کی نعمتیں فراوانی سے عطا فرما رہا ہے تو وہ اللہ سے پناہ طلب کرنے لگتے اور اپنی حالت کا مسلسل جائزہ لینے لگتے کہ دولت کی یہ فراوانی اللہ کی جانب سے کہیں استدراج نہ ہو۔ اے کاش ! امت مسلمہ کے سربرآوردہ لوگ اور طبقہ امراء کے افراد کبھی اس طرف توجہ دینے کی زحمت کریں تو شائد ہماری قومی زندگی میں کچھ بہتری کے آثار پیدا ہوجائیں۔
Top