Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گئے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی
اسلوبِ قرآن کے فہم کے لیے ضروری ہدایات اگلی آیات کریمہ کی تشریح سے پہلے ضروری ہے کہ چند ایسی باتیں ذکر کردی جائیں جن سے قرآن کریم کے اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے متنوع مضامین اور موضوعات کے اعتبار سے اپنے محضوص انداز میں گفتگو کرتا ہے وہ کسی بھی موضوع پر جب اظہارِ خیال کرتا ہے تو کبھی تو ایک رواں دواں ندی کی طرح آگے بڑھتا ہے اور کبھی اس کے انداز میں دریا کی روانی سمٹ آتی ہے جو صرف ایک موضوع میں سمٹ کر نہیں رہ جاتی بلکہ انسانی طبیعت اور فطرت کے تنوع کو دیکھتے ہوئے ذیلی مضامین اور متعلقات کو بھی ساتھ ساتھ سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ چناچہ جب تک ایک قاری کے ذہن میں موضوع کے تمام گوشے نہ ہوں وہ قرآن کریم کی بعض باتوں کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر سورت کے آخری چند رکوع میں عموماً چند خصوصیات نمایاں دکھائی دیتی ہیں جن میں ایک تو یہ کہ اس سورت کے نزول کے وقت دعوت کے مخاطبین کی جو ذہنی کیفیت ہوتی ہے اسے مختلف طریقوں سے کبھی خفی اور کبھی جلی طریقے سے زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چونکہ لوگوں کی طبیعتوں میں ایک تفاوت قدرتی طور پر موجود ہے وہی تفاوت قرآن کریم کی آیات میں بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے ان آیات میں چونکہ مختلف طبیعتوں اور صلاحیتوں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اس لیے ہر طبیعت اور صلاحیت کا حامل اپنے سے متعلق بات کو خود بخود سمجھتاچلا جاتا ہے لیکن دوسری طبیعت اور صلاحیت کا شخص بعض دفعہ اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتا اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک مخاطبوں کی ذہنی کیفیت ‘ صلاحیتوں اور طبعی رجحانات کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے قرآن پاک کی گفتگو کے ہدف کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم عام معمول کی کوئی درسی کتاب نہیں اور نہ ایسی دعوتی کتاب ہے جس میں اسلام کے تمام ضروری امور کی وضاحت کے بعد قارئین کو اپنے طور پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے بلکہ یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جو خطبات کی شکل میں اللہ کے رسول پر ضرورت کے مطابق نازل ہوتی رہی ہے اور وہ اسی کی مدد سے قوم کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کرتا رہا ہے چناچہ دعوت کو پیش کرتے ہوئے اسے جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور جن سوالات سے واسطہ پڑتا ہے اور جن جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور مخالفین کی جانب سے جیسے جیسے الجھائو پیش کیے جاتے ہیں، قرآن کریم کبھی تو ساتھ ساتھ ان تمام ضرورتوں کا تدارک کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن بہت ساری باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں دعوت کی روا روی میں پیش کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ چونکہ گہرے غور و فکر کی متقاضی ہوتی ہے اور مخالفین غور و فکر تو دور کی بات ہے سننے کے بھی روا دار نہیں ہوتے۔ اس لیے ایسے سوالات اور ایسی ضرورتوں کے حوالے سے ہر سورت کے آخر میں توضیحی آیات نازل کی جاتی ہیں جس میں ایسے تمام سوالات کے جوابات دئیے جاتے اور ذہنی الجھنوں کو دور کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو تسلی بھی دی جاتی اور استقامت کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جنھیں تمام مفصل سورتوں کی آخری آیات کو پڑھتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہیے لیکن پیش نظر آیات کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں وہ حق و باطل کے درمیان شدید کشمکش کا وقت تھا مشرکین مکہ مخالفت میں شدت پیدا کرچکے تھے لیکن اسلام کے اثر و نفوذ سے خوف زدہ بھی تھے اس لیے اگر ایک طرف وہ سختی اور تشدد کے ذریعے مسلمانوں کو ہراساں کر کے اس دعوت کو روک دینا چاہتے تھے تو دوسری طرف عجیب و غریب سوالات اٹھا کر ذہنوں کو مسموم بھی کرنا چاہتے تھے اور اپنے معاشرے کے ہم مذہب لوگوں کو بدگمان کر کے اسلام سے دور رکھنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ اس لیے ان آیات کریمہ میں ایسے ہی تمام سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے اور مسلمانوں اور آنحضرت ﷺ کو کامیابی کی نوید سنا کر تسلی بھی دی گئی ہے۔ اس رکوع کی سب سے پہلی آیات کریمہ میں ایسے ہی سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بَاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ۔ (الاعراف : 183، 182) ” اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گئے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی اور میں انھیں ڈھیل دوں گا بیشک میری تدبیر محکم ہے “۔ اس آیت کریمہ میں سَنَسْتَدْرِجُھُمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مصدر استدراج ہے۔ استدراج کا معنی درجہ بدرجہ ‘ آہستہ آہستہ کوئی کام کرنے کے آتے ہیں۔ قرآن و سنت کی اصطلاح میں استدراج اس کو کہا جاتا ہے کہ آدمی کے گناہ پر دنیا میں جلدی گرفت نہ ہو بلکہ جوں جوں وہ گناہ میں آگے بڑھتا چلا جائے دنیاوی مال و اسباب اور منصب و اقتدار میں اضافہ ہوتا جائے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسا شخص اپنی بد عملی اور بد کرداری میں اور پختہ ہوجائے گا اور وہ یہ سمجھنا شروع کر دے گا کہ اگر یہ میرے اعمال برے ہوتے تو مجھ پر اللہ کی یہ عنایات نہ ہوتیں۔ ایک سوال اور اس کا جواب ان آیات کریمہ میں ایک شبہ یا ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں بعض دفعہ یہ سوال پیدا ہوتا تھا اور آج بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر راست بازی کی زندگی اختیار کرنا اللہ کو پسند ہے اور اس کے تمام وعدے ایسے ہی لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ کے دین پر عمل کرتے ہوئے راست بازی کی زندگی گزارتے ہیں تو پھر ہونا یہ چاہیے کہ دنیا میں اللہ کی نعمتیں بھی ایسے ہی لوگوں کو نصیب ہوں اور جن لوگوں کی زندگیاں اس راستے سے بالکل متصادم ہیں وہ اسلامی تعلیمات کو نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ انھیں قابل عمل سمجھتے ہیں وہ اللہ کی نعمتوں سے نہ صرف محروم رہیں بلکہ دنیا ہی میں انھیں اس طرح اللہ کی گرفت میں آنا چاہیے کہ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ یہ لوگ اللہ کے نافرمان تھے اس لیے اپنے پاداشِ عمل میں پکڑے گئے ہیں لیکن دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے صاف نظر آتا ہے کہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ بڑے سے بڑا کافر اور مشرک اور بڑے سے بڑا اللہ کا باغی اس دنیا میں بڑے سے بڑے منصب پر فائز اور دنیا کے وسائل پر قابض ہے مسلمان قومیں روز بروز پستی کی طرف جا رہی ہیں اور کافر قومیں آئے دن ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں آخر یہ تضاد کیوں ہے ؟ اس شبہ اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم جن لوگوں کو بظاہر بہت سرفراز اور نہایت خوشحال دیکھ رہے ہو یہ ان کے اعمال کا صلہ نہیں بلکہ انھیں انجام کی طرف لے جانے کی ایک ایسی تدبیر ہے جس کو نہ وہ سمجھتے ہیں نہ سرسری نگاہوں سے دیکھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ راہ راست سے ہٹے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے اللہ اپنے نبیوں کو بھیجتا اور اپنی کتابیں اتارتا ہے نبی ان کی اصلاح کے لیے اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن جب وہ بگڑے ہوئے لوگ ان پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ انھیں مختلف قسم کے مصائب میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ تکلیفوں سے پریشان ہو کر اللہ کے سامنے جھکیں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں لیکن جب یہ تکلیفیں اور مصیبتیں بھی انھیں راہ راست پر لانے کے لیے کافی نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی توجیہ کر کے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو دوسری آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے مصیبتوں کو ختم کر کے آسانیوں اور سہولتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا ہے اور زندگی کی کامرانیاں اس طرح ان کی طرف بڑھتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دئیے ہیں ‘ کاروبار روز بروز چمکتا چلا جاتا ہے ‘ فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ‘ صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ‘ لوگ جس چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ سونا بن جاتی ہے ان نعمتوں سے سرشار لوگ دولت کی اس ریل پیل کو اپنے لیے کامیابی سمجھتے ہوئے اپنے رویہ میں مزید پختہ ہوجاتے ہیں اور پہلے اگر کوئی نصیحت کی بات سننے کی زحمت کر ہی لیتے تھے تو اب وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ ہماری زندگی کے طور اطوار اور ہمارے فیصلے بالکل صحیح اور حق بجانب ہیں۔ اس طرح ان کا حالات کے تأثر میں ڈوب جانا اور اپنی خواہشات کی گرفت میں آجانا یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے ہلاکت کا وہ پھندا ہے جس کی طرف وہ قوموں کو آہستہ آہستہ لے کرجاتا ہے وہ مادی عیش و عشرت میں ڈوب کر اسے اپنی کامیابی سمجھتی رہتی ہیں حالانکہ وہ اپنی ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہیں جس طرح مچھلی کا شکاری مچھلی کے شکار کے لیے جب کنڈی لگاتا ہے تو کنڈی پانی میں پھینکنے سے پہلے وہ اس کی نوک پر گوشت کا کوئی ٹکڑا بھی لگاتا ہے تاکہ مچھلی اسے اپنی خوراک سمجھے چناچہ مچھلی جب اسے اپنی خوراک سمجھ کر آ کر کھانا شروع کرتی ہے تو وہ اپنی ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے مچھلی یہ سمجھتی ہے کہ آج مجھے بہت مزیدار خوراک ملی ہے لیکن شکاری خوب سمجھتا ہے کہ یہ بیوقوف مچھلی جسے خوراک سمجھ رہی ہے درحقیقت اس کی موت کا پروانہ ہے وہ جیسے جیسے منہ مارتی ہے ویسے ویسے وہ کانٹا اس کے حلق میں اترتا چلا جاتا ہے جب شکاری سمجھتا ہے کہ مچھلی نے خواہشِ نفس سے مغلوب ہو کر کانٹا حلق میں اتار لیا ہے تو وہ بڑی آسانی سے اسے کھینچ لیتا ہے مچھلی اگر ڈور سے زور آزمائی کرتی بھی ہے تو وہ شکاری اسے کھینچنے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری ڈور اتنی مضبوط ہے کہ مچھلی ہزار کوشش سے بھی اسے توڑ نہیں سکتی۔ یہی حال ایسے افراد اور قوموں کا بھی ہے جو مادی ترقی اور وسائل کی ہمہ ہمی کو زندگی کی کامیابیاں سمجھ کر اسی کے حصول میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں قدرت جیسے جیسے ان کو آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے وہ ویسے ویسے بد کردار اور بد اطوار ہوتے چلے جاتے ہیں قدرت ان کو ڈھیل دیتی چلی جاتی ہے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے پیمانے کو بھر لیں اور جب اللہ کی جانب سے پکڑ آئے تو پھر ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے لیکن اپنی پکڑ اور گرفت میں اللہ تعالیٰ کبھی جلدی نہیں کرتا کیونکہ جلدی وہ کیا کرتا ہے جسے شکار کے نکل جانے کا اندیشہ ہو یا وہ حکمران مجرموں کو پکڑنے میں بےصبری کا مظاہرہ کرتا ہے جسے یہ خطرہ ہو کہ مجرم اگر طاقت پکڑ گئے تو میری گرفت سے نکل جائیں گے اور پھر اگر میں کوشش بھی کروں گا تو ان پر قابونہ پا سکوں گا اس لیے ان آیتوں میں فرمایا کہ تم جن قوموں کو بظاہر بہت خوشحال اور سرفراز دیکھ رہے ہو وہ تو استدراج کا شکار ہیں ہم انھیں آہستہ آہستہ ان کے انجام کی طرف لے جا رہے ہیں جب وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے تو پھر اچانک ہم ان کو دبوچ لیں گے مزید فرمایا کہ میں ان کو مسلسل ڈھیل دیتا رہتا ہوں تاکہ وہ اپنے خبث نفس کو پوری طرح کھلنے دیں اور اپنے بغاوت کے سوتوں کو پوری طرح ابلنے دیں اور اپنی فائل کو اچھی طرح مکمل ہونے دیں تاکہ کل کو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے لیکن میری تدبیر ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور وہ اس قدر محکم ہے کہ یہ اس سے بچ کر نکل نہیں سکتے تم یہ سمجھ رہے ہو کہ پروردگار کا ان کو گرفت نہ کرنا شائد ان کے برسر حق ہونے کی دلیل ہے یا اللہ کے کمزور ہونے کی۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں وہ خود اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور میں پکڑنے میں اس لیے جلدی نہیں کرتا کیونکہ میری تدبیر نہایت محکم اور مضبوط ہے جب میں پکڑنا چاہوں گا تو اس وقت انھیں میری پکڑ سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔ اس استدراج کے حوالے سے ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ جس طرح استدراج کفار کے ساتھ ہوتا ہے جس کی تفصیل ابھی آپ نے پڑھی اسی طرح استدراج مسلمان گناہ گاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے جو اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں جس مرض نے کافروں کو ان کے انجام تک پہنچایا وہ یہ ہے کہ جب ایک مسلمان، مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اسلامی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام سے سرکشی اور بغاوت میں بسر ہوتی ہے وہ فرائض کا تارک ‘ واجبات سے لاپرواہ ‘ حقوق العباد سے یکسر بےنیاز ‘ حلال و حرام کی پابندیوں سے لاتعلق، اس کے ذہن پر صرف دنیا اور دولت دنیا کا بھوت سوار ہوتا ہے اور اسی میں شب و روز لگے رہنا اس کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے ایسے لوگوں کے لیے استدراج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں پکڑنے کی بجائے ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں وہ رشوت لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے رشوت کے اسباب اور پیدا فرما دیتے ہیں وہ ظلم کرتے ہیں تو اللہ ان کی رسی کھلی چھوڑ دیتا ہے ان کے عہدہ و منصب میں اور ترقی دے دیتا ہے وہ اپنی اس حالت میں ایسے سر شار اور گم ہوجاتے ہیں کہ کوئی نصیحت کی بات ان پر اثر نہیں کرتی ان کی اس حالت کا برقرار رہنا بلکہ روز افزوں ترقی ہونا یہ وہ استدراج ہے جس کے پھندے میں پھنس کر شائد ہی کوئی بدقسمت نکل سکا ہو۔ چناچہ اسی کو محسوس کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین جب یہ دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ انھیں دنیا کی نعمتیں فراوانی سے عطا فرما رہا ہے تو وہ اللہ سے پناہ طلب کرنے لگتے اور اپنی حالت کا مسلسل جائزہ لینے لگتے کہ دولت کی یہ فراوانی اللہ کی جانب سے کہیں استدراج نہ ہو۔ اے کاش ! امت مسلمہ کے سربرآوردہ لوگ اور طبقہ امراء کے افراد کبھی اس طرف توجہ دینے کی زحمت کریں تو شائد ہماری قومی زندگی میں کچھ بہتری کے آثار پیدا ہوجائیں۔
Top