Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 3
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا
اِنَّا : بیشک ہم هَدَيْنٰهُ : ہم نے اسے دکھائی السَّبِيْلَ : راہ اِمَّا : خواہ شَاكِرًا : شکر کرنے والا وَّاِمَّا : اور خواہ كَفُوْرًا : ناشکرا
ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا
اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ (الدہر : 3) (ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ ) انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت انسان کو زندگی گزارنے اور دنیا و عقبیٰ کے بارے میں صحیح فیصلے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ محسوسات سے فائدہ اٹھانے کے لیے حواس عطا کیے، اور حواس سے نتائج اخذ کرنے اور استنباط اور استنتاج کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے جوہرِعقل سے نوازا۔ لیکن انسان کی کتنی ضرورتیں ایسی ہیں جو حواس اور عقل سے پوری نہیں ہوتیں۔ عقل سے انسان یہ تو جان سکتا ہے کہ میرا کوئی نہ کوئی خالق ہے، اس کائنات کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اس خالق کی صفات کیا ہیں، بندوں اور اس کے درمیان رشتہ کیا ہے، کائنات سے انسان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، زندگی اور موت کی حقیقت کیا ہے، موت کے بعد کیا کیفیت پیش آنے والی ہے، عالم برزخ اور عالم آخرت کیا ہے، زندگی کے اخلاقی مسلمات کیا ہیں، فضائل اور رذائل میں حدفاصل کیا ہے ؟ اسی طرح کے اور بھی بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب عقل کے پاس نہیں۔ بالخصوص خیر و شر کا امتیاز، اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان رشتہ، عالم آخرت، انسانی تعلقات کی نوعیت، نیکی اور برائی کا حقیقی تصور۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر دنیا و عقبیٰ کی کامرانی کا دارومدار ہے اور اس میں صحیح راستے کا پالینا اور حقیقت کے رشتے کو تھام لینا انسانی حواس اور عقل کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حواس اور عقل کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت میں تقویٰ اور فجور کا الہام کیا۔ انسان کے اندر اخلاقی حس رکھی گئی۔ نفس لوامہ یا ضمیر کی شکل میں اس کے اندر ایک چوکیدار بٹھایا گیا۔ امتوں کے تاریخی واقعات کو بہت سے حقائق کا شاہد بنایا گیا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وحی الٰہی کے ذریعے ہر مشکل کی عقدہ کشائی کی گئی۔ اسی چیز کو راستہ دکھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اسی کو ہدایت کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے لیے صراط مستقیم کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔ حاصل سب کا ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور اس کی کتابوں نے انسانوں پر یہ حقیقت واشگاف کردی کہ دنیا نے بیشمار غلط اور الٹے سیدھے راستے نکالے ہیں، ان میں سیدھا راستہ وہ ہے جو پیغمبر لے کے آئے، جسے فطرت قبول کرتی، عقل تسلیم کرتی اور ضمیر اس کی گواہی دیتا ہے۔ پھر اس راستے پر چلنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا گیا بلکہ نیکی اور بدی کا امتیاز دے کر انسان کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو نیکی کی راہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کی راہ چلے۔ نیکی کی راہ کو شکر کا راستہ کہا گیا ہے اور برائی کے راستے پر چلنے کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی بتادیا گیا کہ جو شخص نیکی کی راہ اختیار کرے گا وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنے گا۔ اور جو برائی کا راستہ اختیار کرے گا وہ ناشکرا بنے گا اور اس کی سزا بھگتے گا۔
Top